Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: To offer Salat (prayers) while sitting)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1114.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر پڑے تو آپ کا دایاں پہلو زخمی ہو گیا۔ ہم لوگ آپ کی تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اس وقت سر اٹھاؤ اور جب وہ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو اس کے بعد تم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہو۔‘‘
تشریح:
اس حدیث کے متعلق وضاحت پہلے بیان ہو چکی ہے، ملاحظہ ہو: (حدیث: 888 اور 889) امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھنا مشروع ہے، البتہ عذر کے بغیر بیٹھ کر نماز پڑھنا جیسا کہ اس روایت میں ہے، منسوخ ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے امام حمیدی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں: آپ کے پیچھے صحابۂ کرام ؓ کا بیٹھ کر نماز پڑھنا نماز قدیم میں تھا۔ اس کے بعد مرض وفات میں آپ نے لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور آپ نے انہیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا، اس لیے آپ ﷺ کا آخری عمل یہی ہے کہ امام اگر عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے تو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:688)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1091
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1114
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1114
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1114
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کو مطلق رکھا ہے، یعنی عذر بلا عذر کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں دو احتمال ہیں: ٭ عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے متعلق بیان کرنا مقصود ہے، خواہ وہ امام ہو یا مقتدی یا اکیلا۔ ٭ بغیر عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا حکم۔ اس کے تحت جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کا حکم بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے ابواب تقصیر کے ساتھ مناسبت بھی ظاہر ہے کہ سفر اور مرض دونوں اسباب تخفیف ہیں اور بسا اوقات دوران سفر بھی نمازی کو ایسے عوارض پیش آ سکتے ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اس لیے مطلق رکھا ہو تاکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا جواز ثابت کیا جائے، خواہ عذر ہو یا نہ ہو، لیکن اس بات پر اجماع ہے کہ تندرست آدمی کو فرض نماز بیٹھ کر ادا کرنا جائز نہیں۔ (فتح الباری:2/754)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر پڑے تو آپ کا دایاں پہلو زخمی ہو گیا۔ ہم لوگ آپ کی تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اس وقت سر اٹھاؤ اور جب وہ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو اس کے بعد تم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے متعلق وضاحت پہلے بیان ہو چکی ہے، ملاحظہ ہو: (حدیث: 888 اور 889) امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھنا مشروع ہے، البتہ عذر کے بغیر بیٹھ کر نماز پڑھنا جیسا کہ اس روایت میں ہے، منسوخ ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے امام حمیدی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں: آپ کے پیچھے صحابۂ کرام ؓ کا بیٹھ کر نماز پڑھنا نماز قدیم میں تھا۔ اس کے بعد مرض وفات میں آپ نے لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور آپ نے انہیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا، اس لیے آپ ﷺ کا آخری عمل یہی ہے کہ امام اگر عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے تو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:688)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا اور ان سے انس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر پڑے اور اس کی وجہ سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آ گئے۔ ہم مزاج پرسی کے لیے گئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی بیٹھ کر آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اسی موقع پر فرمایا تھا کہ امام اس لیے ہے تا کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھا ئے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو تمرَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہو۔
حدیث حاشیہ:
ہر دو احادیث میں مقتدیوں کے لیے بیٹھنے کا حکم پہلے دیا گیا تھا۔ بعد میں آخری نماز مرض الموت میں جو آپ ﷺ نے پڑھائی اس میں آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ ؓ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے پہلا حکم منسوخ ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) fell down from a horse and his right side was either injured or scratched, so we went to inquire about his health. The time for the prayer became due and he offered the prayer while sitting and we prayed while standing. He said, "The Imam is to be followed; so if he says Takbir, you should also say Takbir, and if he bows you should also bow; and when he lifts his head you should also do the same and if he says: Sami'a-l-lahu Liman Hamidah (Allah hears whoever sends his praises to Him) you should say: Rabbana walakal-Hamd (O our Lord! All the praises are for You.") (See Hadith No. 656 Vol. 1). ________