Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: The Tahajjud Prayer at night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ بنی اسرائیل میں) فرمایا اور رات کے ایک حصہ میں تہجد پڑھ یہ آپ ﷺکے لیے زیادہ حکم ہے۔
1120.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: ’’اے اللہ! تو ہی تعریف کے لائق ہے۔ تو ہی آسمان و زمین اور جو ان میں ہے انہیں سنبھالنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تیرے ہی لیے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی سربراہی ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو ہی آسمان و زمین کا نور ہے۔ تو ہی ہر طرح کی تعریف کا سزاوار ہے۔ تو ہی آسمان و زمین کا بادشاہ ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف لائق ہے، تو خود بھی سچا ہے۔ اور تیرا وعدہ بھی سچا ہے تیری ملاقات یقینی اور تیری بات برحق ہے۔ جنت اور دوزخ برحق، تمام انبیاء برحق اور حضرت محمد ﷺ بھی برحق ہیں، نیز قیامت برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیرا فرماں بردار اور تجھ پر ایمان لایا ہوں، تجھ ہی پر بھروسا کرتا اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تیری ہی مدد کے ساتھ مخالفین سے برسرپیکار ہوں اور تجھ ہی سے فیصلہ چاہتا ہوں۔ تو میرے اگلے، پچھلے، پوشیدہ اور ظاہری گناہوں کو معاف کر دے۔ تو ہی پہلے تھا اور تو ہی آخر میں ہو گا۔ تیرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘ سفیان کہتے ہیں کہ (راوی حدیث) عبدالکریم ابو امیہ نے اس دعا کے آخر میں درج ذیل الفاظ بھی بیان کیے ہیں: ’’اور اللہ کی مدد کے بغیر نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے باز رہنے کی ہمت نہیں۔‘‘ سفیان نے کہا کہ سلیمان بن ابومسلم نے طاؤس سے یہ حدیث سنی تھی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کے ظاہر سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو مذکورہ دعا پڑھتے بلکہ امام ابن خزیمہ ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’رسول اللہ ﷺ مذکورہ دعا تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھتے تھے۔‘‘ ان کی بیان کردہ روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ (2) واضح رہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے جب اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں رات گزاری تھی تو اس وقت انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مذکورہ دعا سنی تھی۔ (فتح الباري:6/3) (3) امام بخاری ؒ نے روایت کے آخر میں سفیان کے حوالے سے راوئ حدیث سلیمان کا حضرت طاؤس سے سماع ثابت کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1097
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1120
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1120
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1120
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد نماز تہجد کی مشروعیت بیان کرنا ہے۔ انہوں نے اس کے حکم سے تعرض نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز تہجد فرض تھی، البتہ اس میں نرمی اور آسانی کر دی گئی تھی۔ امت پر اس کا ادا کرنا واجب نہیں جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس کے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کریں گے۔ آیت کریمہ سے اس کی مشروعیت کو ثابت کیا گیا ہے۔ (فتح الباری:3/6)
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ بنی اسرائیل میں) فرمایا اور رات کے ایک حصہ میں تہجد پڑھ یہ آپ ﷺکے لیے زیادہ حکم ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: ’’اے اللہ! تو ہی تعریف کے لائق ہے۔ تو ہی آسمان و زمین اور جو ان میں ہے انہیں سنبھالنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تیرے ہی لیے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی سربراہی ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو ہی آسمان و زمین کا نور ہے۔ تو ہی ہر طرح کی تعریف کا سزاوار ہے۔ تو ہی آسمان و زمین کا بادشاہ ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف لائق ہے، تو خود بھی سچا ہے۔ اور تیرا وعدہ بھی سچا ہے تیری ملاقات یقینی اور تیری بات برحق ہے۔ جنت اور دوزخ برحق، تمام انبیاء برحق اور حضرت محمد ﷺ بھی برحق ہیں، نیز قیامت برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیرا فرماں بردار اور تجھ پر ایمان لایا ہوں، تجھ ہی پر بھروسا کرتا اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تیری ہی مدد کے ساتھ مخالفین سے برسرپیکار ہوں اور تجھ ہی سے فیصلہ چاہتا ہوں۔ تو میرے اگلے، پچھلے، پوشیدہ اور ظاہری گناہوں کو معاف کر دے۔ تو ہی پہلے تھا اور تو ہی آخر میں ہو گا۔ تیرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘ سفیان کہتے ہیں کہ (راوی حدیث) عبدالکریم ابو امیہ نے اس دعا کے آخر میں درج ذیل الفاظ بھی بیان کیے ہیں: ’’اور اللہ کی مدد کے بغیر نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے باز رہنے کی ہمت نہیں۔‘‘ سفیان نے کہا کہ سلیمان بن ابومسلم نے طاؤس سے یہ حدیث سنی تھی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کے ظاہر سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو مذکورہ دعا پڑھتے بلکہ امام ابن خزیمہ ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’رسول اللہ ﷺ مذکورہ دعا تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھتے تھے۔‘‘ ان کی بیان کردہ روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ (2) واضح رہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے جب اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں رات گزاری تھی تو اس وقت انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مذکورہ دعا سنی تھی۔ (فتح الباري:6/3) (3) امام بخاری ؒ نے روایت کے آخر میں سفیان کے حوالے سے راوئ حدیث سلیمان کا حضرت طاؤس سے سماع ثابت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کریں۔ یہ آپ کے لیے زاہد (اور مخصوص) ہے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن ابی مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ (جس کاترجمہ یہ ہے) ”اے میرے اللہ!ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے آسمان اور زمین ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اور تعریف تیرے ہی لیے ہے، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لیے زیباہے ، تو سچا ہے، تیرا وعدہ سچا، تیری ملاقات سچی، تیرا فرمان سچاہے، جنت سچ ہے، دوزخ سچ ہے، انبیاء سچے ہیں۔ محمد ﷺ سچے ہیں اور قیامت کاہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ!میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں، تجھی پر بھروسہ ہے، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں، تیرے ہی عطا کئے ہوئے دلائل کے ذریعہ بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں۔ پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اورجو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما، خواہ وہ ظاہر ہوئی ہوں یا پوشیدہ۔ آگے کرنے ولااورپیچھے رکھنے والا تو ہی ہے۔ معبود صرف توہی ہے۔ یا(یہ کہا کہ ) تیرے سوا کوئی معبود نہیں“۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ عبدالکریم ابو امیہ نے اس دعا میں یہ زیادتی کی ہے(لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ) سفیان نے بیان کیا کہ سلیمان بن مسلم نے طاؤس سے یہ حدیث سنی تھی، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عبا س ؓ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
مسنون ہے کہ تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے والے خوش نصیب مسلمان اٹھتے ہی پہلے یہ دعا پڑھ لیں۔ لفظ تہجد باب تفعل کا مصدر ہے، اس کا مادہ ہجود ہے۔ علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں: أصله ترك الھجود وھو النوم قال ابن فارس المتھجد المصلي لیلا فتھجد به أي اترك الھجود للصلٰوة۔یعنی اصل اس کا یہ ہے کہ رات کو سونا نماز کے لیے ترک دیا جائے۔ پس اصطلاحی معنی متہجد کے مصلّی (نمازی) کے ہیں جو رات میں اپنی نیند کو خیرباد کہہ کر نماز میں مشغول ہو جائے۔ اصطلاح میں رات کی نماز کو نماز تہجد سے موسوم کیا گیا۔ آیت شریفہ کے جملہ نافلة لك کی تفسیر میں علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔ فریضة زائدة لك علی الصلوات المفروضة خصصت بھامن بین أمتك روی الطبراني بإسناد ضعیف عن ابن عباس أن النافلةَ للنبيِ صلی اللہ علیه وسلم خاصة لأنهُ أَمرَ بقیامِ اللیلِ وکتب علیهِ دونَ أُمتهِ ۔یعنی تہجد کی نماز آنحضرت ﷺ کے لیے نماز پنجگانہ کے علاوہ فرض کی گئی اور آپ کو اس بارے میں امت سے ممتاز قرار دیا گیا کہ امت کے لیے یہ فرض نہیں مگر آپ پر فرض ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بھی لفظ نافلة لك کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ خاص آپ کے لیے بطور ایک فرض نماز کے ہے۔ آپ رات کی نماز کے لیے مامور کیے گئے اور امت کے علاوہ آپ پر اسے فرض قرار دیا گیا لیکن امام نووی ؒ نے بیان کیا کہ بعد میں آپ کے اوپر سے بھی اس کی فرضیت کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ بہرحال نماز تہجد فرائض پنجگانہ کے بعد بڑی اہم نماز ہے جو پچھلی رات میں ادا کی جاتی ہے اور اس کی گیارہ رکعات ہیں جن میں آٹھ رکعتیں دو دو کرکے سلام سے ادا کی جاتی ہیں اورآخر میں تین وتر پڑھے جاتے ہیں۔ یہی نماز رمضان میں تراویح سے موسوم کی گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): When the Prophet (ﷺ) got up at night to offer the Tahajjud prayer, he used to say: Allahumma lakal-hamd. Anta qaiyimus-samawati wal-ard wa man fihinna. Walakal-hamd, Laka mulkus-samawati wal-ard wa man fihinna. Walakal-hamd, anta nurus-samawati wal-ard. Walakalhamd, anta-l-haq wa wa'duka-l-haq, wa liqa'uka Haq, wa qualuka Haq, wal-jannatu Han wan-naru Haq wannabiyuna Haq. Wa Muhammadun, sallal-lahu'alaihi wasallam, Haq, was-sa'atu Haq. Allahumma aslamtu Laka wabika amantu, wa 'Alaika tawakkaltu, wa ilaika anabtu wa bika khasamtu, wa ilaika hakamtu faghfir li ma qaddamtu wama akh-khartu wama as-rartu wama'a lantu, anta-l-muqaddim wa anta-l-mu akh-khir, la ilaha illa anta (or la ilaha ghairuka). (O Allah! All the praises are for you, You are the Holder of the Heavens and the Earth, And whatever is in them. All the praises are for You; You have the possession of the Heavens and the Earth And whatever is in them. All the praises are for You; You are the Light of the Heavens and the Earth And all the praises are for You; You are the King of the Heavens and the Earth; And all the praises are for You; You are the Truth and Your Promise is the truth, And to meet You is true, Your Word is the truth And Paradise is true And Hell is true And all the Prophets (Peace be upon them) are true; And Muhammad is true, And the Day of Resurrection is true. O Allah ! I surrender (my will) to You; I believe in You and depend on You. And repent to You, And with Your help I argue (with my opponents, the non-believers) And I take You as a judge (to judge between us). Please forgive me my previous And future sins; And whatever I concealed or revealed And You are the One who make (some people) forward And (some) backward. There is none to be worshipped but you . Sufyan said that 'Abdul Karim Abu Umaiya added to the above, 'Wala haula Wala quwata illa billah' (There is neither might nor power except with Allah).