Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: The superiority of Tahajjud prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1122.
۔ (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے یہ خواب (اپنی ہمشیرہ) حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’عبداللہ اچھا آدمی ہے کاش کہ وہ تہجد پڑھنے کا التزام کرے۔‘‘ اس کے بعد وہ (عبداللہ بن عمر ؓ ) رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مسجد میں اس وقت رہائش پذیر تھے جب ان کا اپنا مکان وغیرہ نہیں تھا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے بارش اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے اپنا مکان بنایا، لیکن اس کی تعمیر میں کسی نے بھی میرے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا۔ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث:4182) اس خواب کے ذریعے سے انہیں خبردار کیا گیا کہ جس مسجد میں تم رہائش رکھتے ہو کم از کم نماز تہجد پڑھ کر اس کا حق تو ادا کرو۔ (فتح الباري:11/3) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے نماز تہجد کی فضیلت ثابت کی ہے، کیونکہ اس کی پابندی کرنا دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہے۔ شاید امام بخاری کے ہاں ایسی کوئی حدیث صحیح نہیں تھی جس میں صراحت کے ساتھ نماز تہجد کی فضیلت ثابت ہو۔ صحیح مسلم میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فرض نماز کے بعد نماز تہجد بہت فضیلت والی ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2755(1163)) (3) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تنبیہ کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نماز تہجد کا اس قدر اہتمام کیا کہ رات کو بہت کم سوتے تھے۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3739)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1098.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1122
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1122
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1122
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
۔ (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے یہ خواب (اپنی ہمشیرہ) حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’عبداللہ اچھا آدمی ہے کاش کہ وہ تہجد پڑھنے کا التزام کرے۔‘‘ اس کے بعد وہ (عبداللہ بن عمر ؓ ) رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مسجد میں اس وقت رہائش پذیر تھے جب ان کا اپنا مکان وغیرہ نہیں تھا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے بارش اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے اپنا مکان بنایا، لیکن اس کی تعمیر میں کسی نے بھی میرے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا۔ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث:4182) اس خواب کے ذریعے سے انہیں خبردار کیا گیا کہ جس مسجد میں تم رہائش رکھتے ہو کم از کم نماز تہجد پڑھ کر اس کا حق تو ادا کرو۔ (فتح الباري:11/3) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے نماز تہجد کی فضیلت ثابت کی ہے، کیونکہ اس کی پابندی کرنا دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہے۔ شاید امام بخاری کے ہاں ایسی کوئی حدیث صحیح نہیں تھی جس میں صراحت کے ساتھ نماز تہجد کی فضیلت ثابت ہو۔ صحیح مسلم میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فرض نماز کے بعد نماز تہجد بہت فضیلت والی ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2755(1163)) (3) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تنبیہ کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نماز تہجد کا اس قدر اہتمام کیا کہ رات کو بہت کم سوتے تھے۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3739)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یہ خواب میں نے (اپنی بہن ) حضرت حفصہ ؓ کو سنایا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو۔ تعبیر میں آپ ﷺنے فرمایا کہ عبد اللہ بہت خوب لڑکا ہے۔ کاش رات میں نماز پڑھا کرتا۔ (راوی نے کہا کہ آپ کے اس فرمان کے بعد) عبد اللہ بن عمر ؓ رات میں بہت کم سوتے تھے۔ (زیادہ عبادت ہی کرتے رہتے)۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے اس خواب کو آنحضرت ﷺ نے ان کی رات میں غفلت کی نیند پر محمول فرمایا اور ارشاد ہوا کہ وہ بہت ہی اچھے آدمی ہیں مگر اتنی کسر ہے کہ رات کو نماز تہجد نہیں پڑھتے۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے نماز تہجد کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز تہجد کی بے حد فضیلت ہے۔ اس بارے میں کئی احادیث مروی ہیں۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: علَیکُم بقیامِ اللیل فإِنهُ دأبُ الصالحینَ قبلکُم۔یعنی اپنے لیے نمازتہجد کو لازم کر لو یہ تمام صالحین، نیکو کار بندوں کا طریقہ ہے۔ حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ رات میں تہجد پڑھنا دوزخ سے نجات پانے کا باعث ہے۔ حضرت سلیمان ؑ کو ان کی والدہ نے نصیحت فرمائی تھی رات بہت سونا اچھا نہیں جس سے آدمی قیامت کے دن محتاج ہو کر رہ جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
I narrated the dream to Hafsah (RA) who told it to Allah's Apostle. The Prophet (ﷺ) said, "Abdullah is a good man. I wish he prayed Tahajjud." After that 'Abdullah (i.e. Salim's father) used to sleep but a little at night.