Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: Leaving the night prayer by a patient)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1125.
حضرت جندب بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نبی ﷺ کے پاس آنے سے رک گئے تو قریش کی ایک عورت نے کہا: اس کے شیطان نے آنے میں دیر کر دی ہے، اس پر یہ آیات اتریں: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾) ’’چاشت کی قسم! اور رات کی بھی جب وہ چھا جائے! تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں اور نہ وہ ناراض ہی ہوا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) دوسری حدیث پہلی کا تتمہ ہے، چنانچہ ایک تفصیلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوئے تو ایک یا دو رات آپ تہجد کے لیے نہ اٹھ سکے۔ ان دنوں ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے محمد ﷺ ! مجھے امید ہے کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے اور وہ اب دو تین رات سے آپ کے قریب نہیں آتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ نازل فرمائی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4950) (2) رسول اللہ ﷺ سے اس قسم کی گفتگو کرنے والی عورت ابولہب لعین کی بیوی ام جمیل عوراء بنت حرب تھی۔ یہ عورت خود شیطان تھی جس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس فرشتہ نہیں بلکہ شیطان آتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں ایک عورت نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھی نے دیر کر دی ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4951) اس انداز گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی دوسری عورت تھی، کیونکہ اس نے یا محمد کے بجائے یا رسول اللہ کہا اور لفظ شیطان کے بجائے صاحب کا لفظ استعمال کیا ہے، چنانچہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ تھی۔ (فتح الباري:13/3) درحقیقت یہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔ ابولہب کی بیوی نے آپ ﷺ کو یا محمد کہا اور جبرائیل ؑ کو شیطان سے تعبیر کیا اور یہ مذاق کے طور پر تھا جبکہ سیدہ خدیجہ ؓ نے نبی ﷺ کو یا رسول اللہ کہا اور جبرائیل ؑ کو صاحب سے تعبیر کیا اور ان کا مقصد غم خواری تھا۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی عذر کی وجہ سے تہجد کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1101
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1125
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1125
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1125
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت جندب بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نبی ﷺ کے پاس آنے سے رک گئے تو قریش کی ایک عورت نے کہا: اس کے شیطان نے آنے میں دیر کر دی ہے، اس پر یہ آیات اتریں: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾)’’چاشت کی قسم! اور رات کی بھی جب وہ چھا جائے! تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں اور نہ وہ ناراض ہی ہوا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) دوسری حدیث پہلی کا تتمہ ہے، چنانچہ ایک تفصیلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوئے تو ایک یا دو رات آپ تہجد کے لیے نہ اٹھ سکے۔ ان دنوں ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے محمد ﷺ ! مجھے امید ہے کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے اور وہ اب دو تین رات سے آپ کے قریب نہیں آتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ نازل فرمائی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4950) (2) رسول اللہ ﷺ سے اس قسم کی گفتگو کرنے والی عورت ابولہب لعین کی بیوی ام جمیل عوراء بنت حرب تھی۔ یہ عورت خود شیطان تھی جس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس فرشتہ نہیں بلکہ شیطان آتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں ایک عورت نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھی نے دیر کر دی ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4951) اس انداز گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی دوسری عورت تھی، کیونکہ اس نے یا محمد کے بجائے یا رسول اللہ کہا اور لفظ شیطان کے بجائے صاحب کا لفظ استعمال کیا ہے، چنانچہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ تھی۔ (فتح الباري:13/3) درحقیقت یہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔ ابولہب کی بیوی نے آپ ﷺ کو یا محمد کہا اور جبرائیل ؑ کو شیطان سے تعبیر کیا اور یہ مذاق کے طور پر تھا جبکہ سیدہ خدیجہ ؓ نے نبی ﷺ کو یا رسول اللہ کہا اور جبرائیل ؑ کو صاحب سے تعبیر کیا اور ان کا مقصد غم خواری تھا۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی عذر کی وجہ سے تہجد کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے خبر دی، ان سے جندب بن عبداللہ ؓ نے فرمایا کہ جبرائیل ؑ (ایک مرتبہ چند دنوں تک) نبی کریم ﷺ کے پاس (وحی لے کر) نہیں آئے تو قریش کی ایک عورت (ام جمیل ابو لہب کی بیوی) نے کہا کہ اب اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے سے دیر لگائی۔ اس پر یہ سورت اتری ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾)
حدیث حاشیہ:
ترجمہ یہ ہے قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے تیرے مالک نے نہ تجھ کو چھوڑا نہ تجھ سے غصے ہوا۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ حدیث اگلی حدیث کا تتمہ ہے جب آپ بیمار ہوئے تھے تو رات کا قیام چھوڑ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں حضرت جبرائیل ؑ نے بھی آنا موقوف کر دیا اور شیطان ابو لہب کی بیوی (أم جمیل بنت حرب أخت أبي سفیان امرأة أبي لهب حمالة الحطب) نے یہ فقرہ کہا۔ چنانچہ ابن ابی حاتم نے جندب ؓ سے روایت کیا کہ آپ کی انگلی کو پتھر کی مار لگی آپ ﷺ نے فرمایا: ھَل أَنتِ إِلا أصبَع دُمیتِ وفي سبیلِ اللہِ ما لقیتِ۔تو ہے کیا ایک انگلی ہے اللہ کی راہ میں تجھ کو مار لگی خون آلودہ ہوئی۔ اسی تکلیف سے آپ دوتین روز تہجد کے لیے بھی نہ اٹھ سکے تو ایک عورت (مذکورہ ام جمیل) کہنے لگی میں سمجھتی ہوں اب تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ اس وقت یہ سورۃ اتری: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾)(الضحی:1-3) (وحیدی) احادیث گذشتہ کو بخاری شریف کے بعض نسخوں میں لفظ ح سے نقل کر کے ہر دو کو ایک ہی حدیث شمار کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jundab bin 'Abdullah : Gabriel (ؑ) did not come to the Prophet (ﷺ) (for some time) and so one of the Quraish women said, "His Satan has deserted him." So came the Divine Revelation: "By the forenoon And by the night When it is still! Your Lord ( O Muhammad (ﷺ) ) has neither Forsaken you Nor hated you." (93.1-3) ________