باب: نبی کریمﷺکا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: The Prophet's (pbuh) exhorting to Tahajjud and Nawafil without making them compulsory)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ایک رات نبی کریم ﷺفاطمہ اور علی رضی اللہ عنہما کے پاس رات کی نماز کے لیے جگانے آئے تھے۔
1129.
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تہجد) ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر دوسری رات بھی آپ نے اسے مسجد میں ادا کیا تو لوگ زیادہ جمع ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’میں تمہارے جذبات کو ملاحظہ کرتا رہا لیکن مجھے اس بات نے آپ لوگوں کے پاس آنے سے باز رکھا کہ مبادا نمازِ شب تم پر فرض ہو جائے۔‘‘ واضح رہے کہ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا خود تین رات نماز شب کا اہتمام کرنا اور لوگوں کا آپ کے ساتھ اسے ادا کرنا اس سے ترغیب ثابت ہوتی ہے، پھر فرض ہونے کے اندیشے کے پیش نظر باہر تشریف نہ لانا اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے۔ امام بخاری ؒ اس سے یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ (2) اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل نماز کی جماعت صحیح ہے، لیکن اس کے لیے لوگوں کو دعوت دینا صحیح نہیں، البتہ نماز تراویح کا معاملہ اس سے الگ ہے، کیونکہ حضرت عمر ؓ نے، فرضیت کا اندیشہ، جس کے باعث نبی ؓ نے جماعت تراویح ترک کی تھی، ختم ہونے پر اپنے دور خلافت میں اس کی جماعت کا اہتمام سرکاری طور پر فرمایا تھا، کیونکہ اس وقت فرضیت کا اندیشہ نہیں رہا تھا۔ تراویح کے علاوہ دیگر نوافل تداعی کے بغیر جماعت سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ تداعی کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس کے لیے اہتمام کے ساتھ دعوت دی جائے۔ ایسا کرنا صحیح نہیں۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے شروع نماز میں امامت کی نیت نہیں کی، اس کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اسے محل نظر قرار دیا ہے، لیکن دیگر احادیث سے حافظ ابن حجر ؒ کا موقف محل نظر قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے جبکہ انہوں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر رات گزاری تھی اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز شب میں شامل ہوئے تھے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1105
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1129
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1129
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1129
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
یہ عنوان نماز تہجد کے متعلق دو چیزیں بتانے کے لیے قائم کیا گیا ہے: ٭ نماز تہجد کی ترغیب۔ ٭ عدم وجوب۔ چنانچہ اس کے تحت مندرجہ ذیل احادیث سے یہ دونوں چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واقعے کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،التھجد،حدیث:1127)
ایک رات نبی کریم ﷺفاطمہ اور علی رضی اللہ عنہما کے پاس رات کی نماز کے لیے جگانے آئے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تہجد) ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر دوسری رات بھی آپ نے اسے مسجد میں ادا کیا تو لوگ زیادہ جمع ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’میں تمہارے جذبات کو ملاحظہ کرتا رہا لیکن مجھے اس بات نے آپ لوگوں کے پاس آنے سے باز رکھا کہ مبادا نمازِ شب تم پر فرض ہو جائے۔‘‘ واضح رہے کہ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کا خود تین رات نماز شب کا اہتمام کرنا اور لوگوں کا آپ کے ساتھ اسے ادا کرنا اس سے ترغیب ثابت ہوتی ہے، پھر فرض ہونے کے اندیشے کے پیش نظر باہر تشریف نہ لانا اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے۔ امام بخاری ؒ اس سے یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ (2) اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل نماز کی جماعت صحیح ہے، لیکن اس کے لیے لوگوں کو دعوت دینا صحیح نہیں، البتہ نماز تراویح کا معاملہ اس سے الگ ہے، کیونکہ حضرت عمر ؓ نے، فرضیت کا اندیشہ، جس کے باعث نبی ؓ نے جماعت تراویح ترک کی تھی، ختم ہونے پر اپنے دور خلافت میں اس کی جماعت کا اہتمام سرکاری طور پر فرمایا تھا، کیونکہ اس وقت فرضیت کا اندیشہ نہیں رہا تھا۔ تراویح کے علاوہ دیگر نوافل تداعی کے بغیر جماعت سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ تداعی کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس کے لیے اہتمام کے ساتھ دعوت دی جائے۔ ایسا کرنا صحیح نہیں۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے شروع نماز میں امامت کی نیت نہیں کی، اس کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اسے محل نظر قرار دیا ہے، لیکن دیگر احادیث سے حافظ ابن حجر ؒ کا موقف محل نظر قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے جبکہ انہوں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر رات گزاری تھی اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز شب میں شامل ہوئے تھے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
نبیﷺ نماز تہجد کی اہمیت کے پیش نظر رات کے وقت حضرت علی اور حضرت فاطمہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے خبر دی، انہیں ا بن شہاب زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی۔ صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز پڑھی۔ دوسری رات بھی آپ نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہوگیا تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے۔ صبح کے وقت آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جتنی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے۔ میں نے اسے دیکھا لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہوجائے۔ یہ رمضان کا واقعہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے چند راتوں میں رمضان کی نفل نماز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جماعت سے پڑھائی بعد میں اس خیال سے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے آپ نے جماعت کا اہتمام ترک فرمادیا۔ اس سے رمضان شریف میں نماز تراویح با جماعت کی مشروعیت ثابت ہوئی۔ آپ نے یہ نفل نماز گیارہ رکعات پڑھائی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے۔ چنانچہ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں: وأما العدد الثابت عنه صلی اللہ علیه وسلم في صلوته في رمضان فأخرج البخاري وغیرہ عن عائشة أنھا قالت ماکان النبي صلی اللہ علیه وسلم یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة وأخرج ابن حبان في صحیحه من حدیث جابر أنه صلی اللہ علیه وسلم صلیٰ بھم ثمان رکعات ثم أوتر۔(نیل الأوطار) اور رمضان کی اس نماز میں آنحضرت ﷺ سے جو عدد صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں وہ یہ کہ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے رمضان اور غیر رمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں فرمایا اور مسند ابن حبان میں بسند صحیح مزید وضاحت یہ موجود ہے کہ آپ نے آٹھ رکعتیں پڑھائیں پھر تین وتر پڑھائے۔ پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو رمضان میں تراویح باجماعت گیارہ رکعات پڑھائی تھیں اور تراویح وتہجد میں یہی عدد مسنون ہے، باقی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی۔ إن شاءاللہ تعالی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA), the mother of the faithful believers: One night Allah's Apostle (ﷺ) offered the prayer in the Mosque and the people followed him. The next night he also offered the prayer and too many people gathered. On the third and the fourth nights more people gathered, but Allah's Apostle (ﷺ) did not come out to them. In the morning he said, "I saw what you were doing and nothing but the fear that it (i.e. the prayer) might be enjoined on you, stopped me from coming to you." And that happened in the month of Ramadan. ________