Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The writing of knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
114.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بہت بیمار ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ’’لکھنے کا سامان لاؤ تاکہ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے کہا: نبی ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے، وہ ہمیں کافی ہے۔ لوگوں نے اختلاف شروع کر دیا اور شوروغل مچ گیا۔ تب آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے ہاں لڑائی جھگڑے کا کیا کام ہے؟‘‘ پھر حضرت ابن عباس ؓ نکلے، فرماتے تھے: تمام مصائب سے بڑی مصیبت وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتابت حدیث دردور نبوی ثابت کرناچاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرکے بالکل آخری حصے میں کچھ تحریر فرمانے کا ارادہ فرمایا لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اختلاف کی وجہ سے اسے عملی شکل دینے کی نوبت نہ آئی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقصد کے اثبات کے لیے چار حدیثیں پیش کی ہیں: پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے کہ ان کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں کچھ احکام لکھے ہوئے تھے لیکن اس میں بدرجہ امکان یہ احتمال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نوشتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تحریر فرمایا ہو یا انھیں نہی کی حدیث نہ پہنچی ہو، اس لیے دوسری حدیث پیش کی جس میں ابوشاہ یمنی کی درخواست پر آپ نے خطبہ لکھنے کی اجازت دی، مگر اس میں بھی خصوصیت کا یہ احتمال موجود ہے کہ شاید نابینا اور امی حضرات کے لیے یہ حکم ہو، اس لیے تیسری حدیث لائے جس میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا عمل کتابت منقول ہے جو آپ کی اجازت سے ہوا۔ اس میں خصوصیت نہیں بلکہ عموم ہے۔ لیکن ان تینوں احادیث میں کہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قصد کتابت کا ذکر نہیں، اس لیے یہ آخری روایت پیش کرکے آپ کے ارادہ کتابت کا بھی ثبوت فراہم کردیا۔ اورظاہر ہے کہ آپ کا ارادہ حق اور درست ہی ہوسکتا ہے اس لیے بہترین دلائل کے ساتھ کتابت حدیث کا عمل ثابت ہو گیا۔ (فتح الباري: 277/1) 2۔ یہ حدیث، حدیث قرطاس کے نام سے مشہور ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چار دن قبل جمعرات کے دن یہ واقعہ ہوا۔ مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ شانے کی ہڈی لائیں تاکہ میں اس پر امت کو گمراہی کے تدارک کے لیے کچھ لکھوا دوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد آپ کے حکم سے گریز نہ تھا بلکہ آپ نے ایسا ازراہ محبت فرمایا، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد چار روز تک زندہ رہے اور دوسرے احکام نافذ فرماتے رہے جبکہ تحریر کے متعلق آپ نے سکوت اختیار فرمایا۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے آپ کو اتفاق تھا۔ بنیادی طور پر یہ حکم تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا تھا، کم از کم ان سے اس کوتاہی کی توقع نہ تھی۔ اگر یہ حکم ضروری ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے۔3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ تحریر کی نوبت ہی نہ آئی اور باہمی اختلاف اس سے محرومی کا باعث ہوا۔ اس گفتگو سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس واقعہ کے وقت وہاں شریک مجلس تھے اور وہاں سے نکلتے ہوئے ان کلمات افسوس کا اظہار فرمایا، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مختلف شواہد کی بنا پر اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اپنے تلامذہ کے سامنے حدیث بیان فرماتے تو آخر میں یہ کلمات کہتے تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري: 277/1) 4۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تحریر کو مؤخر کرانے میں اکیلے نہ تھے بلکہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے ساتھ تھے۔ ان حضرات کو اس بات کا یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات واجب التعمیل ہیں لیکن یہ حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ منافقین کو باتیں بنانے کے لیے ایک ثبوت مل جائے گا کہ خاکم بدہن، لیجئے شدت مرض کے ایام میں جبکہ ہوش وحواس میں اختلال کا امکان تھا، ایک تحریر لکھوالی۔ منافقین کی اس زبان بندی اور یاوہ گوئی کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوردیگرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا۔ (فتح الباري: 276/1) 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے ہاں لڑائی جھگڑے کا کیا کام ہے؟ آپ کا یہ خطاب تمام شرکائے مجلس کو تھا جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ اس حکم کی تعمیل میں سب لوگ گھروں کو چلے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق تھی، بصورت دیگر وہی کاغذ وغیرہ لے آتے، پھر آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد بھی تھے، گھر آنا جانا رہتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر چلے جانے کے بعد یہ کام بخوبی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ان کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھی۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
116
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
114
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
114
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
114
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
کتابت چونکہ علم کی حفاظت کا سب سے قوی ،تبلیغ کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش اور اشاعت علم کا سب سے آسان طریقہ ہے،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس طریق عمل کو احادیث کی روشنی میں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بہت بیمار ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ’’لکھنے کا سامان لاؤ تاکہ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے کہا: نبی ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے، وہ ہمیں کافی ہے۔ لوگوں نے اختلاف شروع کر دیا اور شوروغل مچ گیا۔ تب آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے ہاں لڑائی جھگڑے کا کیا کام ہے؟‘‘ پھر حضرت ابن عباس ؓ نکلے، فرماتے تھے: تمام مصائب سے بڑی مصیبت وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتابت حدیث دردور نبوی ثابت کرناچاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرکے بالکل آخری حصے میں کچھ تحریر فرمانے کا ارادہ فرمایا لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اختلاف کی وجہ سے اسے عملی شکل دینے کی نوبت نہ آئی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقصد کے اثبات کے لیے چار حدیثیں پیش کی ہیں: پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے کہ ان کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں کچھ احکام لکھے ہوئے تھے لیکن اس میں بدرجہ امکان یہ احتمال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نوشتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تحریر فرمایا ہو یا انھیں نہی کی حدیث نہ پہنچی ہو، اس لیے دوسری حدیث پیش کی جس میں ابوشاہ یمنی کی درخواست پر آپ نے خطبہ لکھنے کی اجازت دی، مگر اس میں بھی خصوصیت کا یہ احتمال موجود ہے کہ شاید نابینا اور امی حضرات کے لیے یہ حکم ہو، اس لیے تیسری حدیث لائے جس میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا عمل کتابت منقول ہے جو آپ کی اجازت سے ہوا۔ اس میں خصوصیت نہیں بلکہ عموم ہے۔ لیکن ان تینوں احادیث میں کہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قصد کتابت کا ذکر نہیں، اس لیے یہ آخری روایت پیش کرکے آپ کے ارادہ کتابت کا بھی ثبوت فراہم کردیا۔ اورظاہر ہے کہ آپ کا ارادہ حق اور درست ہی ہوسکتا ہے اس لیے بہترین دلائل کے ساتھ کتابت حدیث کا عمل ثابت ہو گیا۔ (فتح الباري: 277/1) 2۔ یہ حدیث، حدیث قرطاس کے نام سے مشہور ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چار دن قبل جمعرات کے دن یہ واقعہ ہوا۔ مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ شانے کی ہڈی لائیں تاکہ میں اس پر امت کو گمراہی کے تدارک کے لیے کچھ لکھوا دوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد آپ کے حکم سے گریز نہ تھا بلکہ آپ نے ایسا ازراہ محبت فرمایا، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد چار روز تک زندہ رہے اور دوسرے احکام نافذ فرماتے رہے جبکہ تحریر کے متعلق آپ نے سکوت اختیار فرمایا۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے آپ کو اتفاق تھا۔ بنیادی طور پر یہ حکم تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا تھا، کم از کم ان سے اس کوتاہی کی توقع نہ تھی۔ اگر یہ حکم ضروری ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے۔3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ تحریر کی نوبت ہی نہ آئی اور باہمی اختلاف اس سے محرومی کا باعث ہوا۔ اس گفتگو سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس واقعہ کے وقت وہاں شریک مجلس تھے اور وہاں سے نکلتے ہوئے ان کلمات افسوس کا اظہار فرمایا، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مختلف شواہد کی بنا پر اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اپنے تلامذہ کے سامنے حدیث بیان فرماتے تو آخر میں یہ کلمات کہتے تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري: 277/1) 4۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تحریر کو مؤخر کرانے میں اکیلے نہ تھے بلکہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے ساتھ تھے۔ ان حضرات کو اس بات کا یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات واجب التعمیل ہیں لیکن یہ حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ منافقین کو باتیں بنانے کے لیے ایک ثبوت مل جائے گا کہ خاکم بدہن، لیجئے شدت مرض کے ایام میں جبکہ ہوش وحواس میں اختلال کا امکان تھا، ایک تحریر لکھوالی۔ منافقین کی اس زبان بندی اور یاوہ گوئی کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوردیگرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا۔ (فتح الباري: 276/1) 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے ہاں لڑائی جھگڑے کا کیا کام ہے؟ آپ کا یہ خطاب تمام شرکائے مجلس کو تھا جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ اس حکم کی تعمیل میں سب لوگ گھروں کو چلے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق تھی، بصورت دیگر وہی کاغذ وغیرہ لے آتے، پھر آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد بھی تھے، گھر آنا جانا رہتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر چلے جانے کے بعد یہ کام بخوبی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ان کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھی۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انھیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تا کہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تا کہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر حضرت عمر ؓ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ ﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس ؓ یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بے شک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول کریم ﷺ کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وقد كان عمر أفقه من إبن عباس حيث إكتفى بالقرآن على أنه يحتمل أن يكون -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كان ظهر له حين همّ بالكتاب أنه مصلحة، ثم ظهر له أو أُوحي إليه بعد أنّ المصلحة في تركه ولو كان واجبًا لم يتركه عليه الصلاة والسلام لإختلافهم لأنه لم يترك التكليف لمخالفة من خالف، وقد عاش بعد ذلك أيامًا ولم يعاود أمرهم بذلك."خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انھوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگربعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگریہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaidullah bin ' Abdullah (RA): Ibn 'Abbas (RA) said, "When the ailment of the Prophet (ﷺ) became worse, he said, 'Bring for me (writing) paper and I will write for you a statement after which you will not go astray.' But 'Umar said, 'The Prophet (ﷺ) is seriously ill, and we have got Allah's Book with us and that is sufficient for us.' But the companions of the Prophet (ﷺ) differed about this and there was a hue and cry. On that the Prophet (ﷺ) said to them, 'Go away (and leave me alone). It is not right that you should quarrel in front of me." Ibn 'Abbas (RA) came out saying, "It was most unfortunate (a great disaster) that Allah's Apostle (ﷺ) was prevented from writing that statement for them because of their disagreement and noise. (Note: It is apparent from this Hadith that Ibn 'Abbes had witnessed the event and came out saying this statement. The truth is not so, for Ibn 'Abbas (RA) used to say this statement on narrating the Hadith and he had not witnessed the event personally. See Fath Al-Bari Vol. 1, p.22O footnote.) (See Hadith No. 228, Vol. 4).