باب: جو شخص رات کے شروع میں سو جائے اور اخیر میں جاگے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: Sleeping in the first part of the night and getting up in its last part)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور سلمان فارسی نے ابودرداء (ؓ) سے فرمایا کہ` شروع رات میں سو جا اور آخر رات میں عبادت کر۔ نبی کریم ﷺنے یہ سن کر فرمایا تھا کہ سلمان نے بالکل سچ کہا۔
1146.
حضرت اسود سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز شب کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: آپ شروع رات میں سو جاتے اور پچھلی رات اٹھ کر نماز پڑھتے، پھر اپنے بستر پر لوٹ آتے۔ اس کے بعد جب مؤذن اذان دیتا تو اٹھ کھڑے ہوتے، اگر ضرورت ہوتی تو غسل فرماتے ورنہ وضو کر کے باہر تشریف لے جاتے۔
تشریح:
ایک روایت میں ہے کہ جب سحری کا وقت ہوتا تو وتر پڑھتے، پھر اگر ضرورت ہوتی تو اپنی اہلیہ کے پاس آتے۔ (فتح الباري:42/3) اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو اگر تعلقات زن و شوہر کی ضرورت ہوتی تو اسے نماز تہجد ادا کرنے کے بعد پورا کرتے تھے کیونکہ عبادات کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے یہی شایان شان تھا، چنانچہ اوائل شب میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق بحالت جنابت سونا ثابت نہیں، البتہ اواخر شب کچھ دیر دائیں پہلو کے بل لیٹنا ثابت ہے۔ بہرحال امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ آخر شب بیدار ہو کر نماز تہجد پڑھتے تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1122
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1146
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1146
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1146
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تفصیل کے ساتھ اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الادب،حدیث:6139)
´اور سلمان فارسی نے ابودرداء (ؓ) سے فرمایا کہ` شروع رات میں سو جا اور آخر رات میں عبادت کر۔ نبی کریم ﷺنے یہ سن کر فرمایا تھا کہ سلمان نے بالکل سچ کہا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسود سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز شب کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: آپ شروع رات میں سو جاتے اور پچھلی رات اٹھ کر نماز پڑھتے، پھر اپنے بستر پر لوٹ آتے۔ اس کے بعد جب مؤذن اذان دیتا تو اٹھ کھڑے ہوتے، اگر ضرورت ہوتی تو غسل فرماتے ورنہ وضو کر کے باہر تشریف لے جاتے۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ جب سحری کا وقت ہوتا تو وتر پڑھتے، پھر اگر ضرورت ہوتی تو اپنی اہلیہ کے پاس آتے۔ (فتح الباري:42/3) اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو اگر تعلقات زن و شوہر کی ضرورت ہوتی تو اسے نماز تہجد ادا کرنے کے بعد پورا کرتے تھے کیونکہ عبادات کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے یہی شایان شان تھا، چنانچہ اوائل شب میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق بحالت جنابت سونا ثابت نہیں، البتہ اواخر شب کچھ دیر دائیں پہلو کے بل لیٹنا ثابت ہے۔ بہرحال امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ آخر شب بیدار ہو کر نماز تہجد پڑھتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت سلمان ؓ نے حضرت ابوالدرداء ؓسے کہا: اب سو جاؤ۔ جب آخر شب ہوئی تو فرمایا: اب اٹھو اور نماز پڑھو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "سلمان نے سچ کہا۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، (دوسری سند) اور مجھ سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابو اسحاق عمرو بن عبداللہ نے، ان سے اسود بن یزید نے، انہوں نے بتلایا کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ رات میں نماز کیونکر پڑھتے تھے؟ آپ نے بتلایا کہ شروع رات میں سو رہتے اور آخر رات میں بیدار ہو کر تہجد کی نماز پڑھتے۔ اس کے بعد بستر پر آ جاتے اور جب مؤذن اذان دیتا تو جلدی سے اٹھ بیٹھتے۔ اگر غسل کی ضرورت ہوتی تو غسل کرتے ورنہ وضو کر کے باہر تشریف لے جاتے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ کہ نہ ساری رات سوتے ہی رہتے نہ ساری رات نماز ہی پڑھتے رہتے بلکہ درمیانی راستہ آپ ﷺ کو پسند تھا اور یہی مسنون ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Aswad (RA): I asked 'Aisha (RA) "How is the night prayer of the Prophet?" She replied, "He used to sleep early at night, and get up in its last part to pray, and then return to his bed. When the Muadh-dhin pronounced the Adhan, he would get up. If he was in need of a bath he would take it; otherwise he would perform ablution and then go out (for the prayer)." ________