Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: Whoever did not offer the Salat after the compulsory (congregational) Salat (prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1174.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعتیں اکٹھی اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں اکٹھی ادا کیں۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ابوالشعشاء! میرا گمان ہے کہ آپ نے ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کیا ہو گا، اسی طرح عشاء کو مقدم اور مغرب کو مؤخر کیا ہو گا۔ ابوالشعشاء نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے۔
تشریح:
حدیث میں بحالت اقامت نمازوں کو جمع کرنے کی صورت بیان کی گئی ہے۔ کسی معقول سبب کی بنا پر بحالت اقامت بھی دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ خوف، بارش، آندھی، بیماری یا اور کوئی ہنگامی ضرورت۔ بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔ پھر سنن اور نوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن مقیم ہونے کی صورت میں جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینی چاہئیں، مثلاً: اگر ظہر و عصر کو جمع کیا ہے تو ظہر کی آخری سنتیں اور اگر مغرب و عشاء کو جمع کیا ہے تو مغرب کی سنتیں نہ پڑھی جائیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک دفعہ بصرہ میں ظہر اور عصر کو جمع کیا اور ان کے درمیان کچھ نہ پڑھا، پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اکٹھی پڑھی تھیں اور آپ نے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا تھا۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:591) اس حدیث کے پیش نظر بحالت اقامت دو نمازوں کو جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینے میں چنداں حرج نہیں۔ صحیح بخاری کی مذکورہ روایت اسی صورت پر محمول ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1147
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1174
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1174
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1174
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعتیں اکٹھی اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں اکٹھی ادا کیں۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ابوالشعشاء! میرا گمان ہے کہ آپ نے ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کیا ہو گا، اسی طرح عشاء کو مقدم اور مغرب کو مؤخر کیا ہو گا۔ ابوالشعشاء نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں بحالت اقامت نمازوں کو جمع کرنے کی صورت بیان کی گئی ہے۔ کسی معقول سبب کی بنا پر بحالت اقامت بھی دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ خوف، بارش، آندھی، بیماری یا اور کوئی ہنگامی ضرورت۔ بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔ پھر سنن اور نوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن مقیم ہونے کی صورت میں جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینی چاہئیں، مثلاً: اگر ظہر و عصر کو جمع کیا ہے تو ظہر کی آخری سنتیں اور اگر مغرب و عشاء کو جمع کیا ہے تو مغرب کی سنتیں نہ پڑھی جائیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک دفعہ بصرہ میں ظہر اور عصر کو جمع کیا اور ان کے درمیان کچھ نہ پڑھا، پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اکٹھی پڑھی تھیں اور آپ نے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا تھا۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:591) اس حدیث کے پیش نظر بحالت اقامت دو نمازوں کو جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینے میں چنداں حرج نہیں۔ صحیح بخاری کی مذکورہ روایت اسی صورت پر محمول ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابو الشعثاءجابر بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ا بن عباس ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ آٹھ رکعت ایک ساتھ (ظہر اور عصر) اور سات رکعت ایک ساتھ ( مغرب اور عشاء ملا کر ) پڑھیں۔ (بیچ میں سنت وغیرہ کچھ نہیں) ابو الشعثاءسے میں نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے ظہر آخر وقت میں اور عصر اول وقت میں پڑھی ہوگی۔ اسی طرح مغرب آخر وقت میں پڑھی ہوگی اور عشاء اول وقت میں۔ ابو الشعثاءنے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ عمرو بن دینار کا خیال ہے ورنہ یہ حدیث صاف ہے کہ دو نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ واقعہ مدینہ منورہ کا ہے نہ وہاں کوئی خوف تھا نہ بندش تھی۔ اوپر گزر چکا ہے کہ اہلحدیث کے نزدیک یہ جائز ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ سنتوں کا ترک کرناجائز ہے اور سنت بھی یہی ہے کہ جمع کرے تو سنتیں نہ پڑھے۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr (RA): I heard Abu Ash-sha'tha' Jabir saying, "I heard Ibn Abbas (RA) saying, 'I offered with Allah's Apostle (ﷺ) eight Rakat (of Zuhr and 'Asr prayers) together and seven Rakat (the Maghrib and the 'Isha' prayers) together.' " I said, "O Abu Ash-shatha! I think he must have prayed the Zuhr late and the 'Asr early; the 'Isha early and the Maghrib late." Abu Ash-sha'tha' said, "I also think so." (See Hadith No. 518 Vol. 1). ________