Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: To offer the Salat-ud-Duha in journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ عتبان بن مالک نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے۔
1175.
حضرت مورق بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا: آپ نماز اشراق پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے دریافت کیا: حضرت عمر ؓ پڑھتے تھے؟انہوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: حضرت ابوبکر ؓ اس کا اہتمام کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، پھر میں نے پوچھا: نبی ﷺ اسے ادا فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: میرا خیال یہی ہے کہ آپ بھی نہیں پڑھتے تھے۔
تشریح:
(1) ابن بطال بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث اس عنوان سے متعلق نہیں بلکہ اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کرنا چاہیے تھا: ’’جو شخص نماز اشراق نہیں پڑھتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کسی کاتب کی غلطی ہے۔ لیکن ابن منیر نے کہا ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو متعارض احادیث میں تطبیق کی صورت پیدا کی ہے کیونکہ حدیث ابن عمر میں نفی اور حدیث ابو ہریرہ میں اثبات ہے، اس لیے نفی کو سفر اور اثبات کو حضر پر محمول کیا جائے۔ اسی طرح حدیث ام ہانی ایسے سفر پر محمول کی جائے جس میں حضر جیسی سہولیات ہوں۔ (2) اصل بات یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جزم و وثوق کے ساتھ نفی نہیں کی بلکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مطلق طور پر سفر میں نماز چاشت کی نفی نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر سے واپس آتے تو نماز اشراق پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة:231/2) بلکہ حضرت انس ؓ سے صراحت کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر میں اشراق کے آٹھ نوافل پڑھے۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: ’’میں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید وابستہ کرتے ہوئے انہیں پڑھا ہے۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:231/2) اس بنا پر حضرت ابن عمر ؓ کی مبنی بر تردد روایت سے حضرت انس ؓ سے مروی یقینی روایت کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے حضرت ابن عباس ؓ نے نماز اشراق کو ایک موقع پر بدعت قرار دیا تھا۔ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1775) بہرحال ان کا انکار اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے نہیں دیکھا۔ لیکن ابن عمر ؓ کا نہ دیکھنا اس بات کی دلیل نہیں کہ سرے سے اس نماز کا وجود ہی نہیں یا اس کا ادا کرنا بدعت ہے۔ قاضی عیاض وغیرہ نے لکھا ہے اشراق کی فرض نماز جیسی پابندی کرنا یا مسجد میں اس کا ادا کرنا یا باجماعت اہتمام کرنے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ نے انکار کیا ہے۔ ان کے انکار کے یہ معنی نہیں کہ نماز اشراق خلاف سنت ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق مروی ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو اس کا اہتمام کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم نے اس کا اہتمام کرنا ہے تو اپنے گھروں میں کرو۔ (فتح الباري:89/3) روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب مکہ آتے یا مسجد قباء جاتے تو نماز اشراق پڑھتے تھے۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی انکار کی وجہ سے نماز اشراق کی مشروعیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی معلومات کے مطابق انکار کیا ہے۔ (فتح الباري:89/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1148
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1175
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1175
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1175
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
یہ عتبان بن مالک نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مورق بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا: آپ نماز اشراق پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے دریافت کیا: حضرت عمر ؓ پڑھتے تھے؟انہوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: حضرت ابوبکر ؓ اس کا اہتمام کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، پھر میں نے پوچھا: نبی ﷺ اسے ادا فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: میرا خیال یہی ہے کہ آپ بھی نہیں پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ابن بطال بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث اس عنوان سے متعلق نہیں بلکہ اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کرنا چاہیے تھا: ’’جو شخص نماز اشراق نہیں پڑھتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کسی کاتب کی غلطی ہے۔ لیکن ابن منیر نے کہا ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو متعارض احادیث میں تطبیق کی صورت پیدا کی ہے کیونکہ حدیث ابن عمر میں نفی اور حدیث ابو ہریرہ میں اثبات ہے، اس لیے نفی کو سفر اور اثبات کو حضر پر محمول کیا جائے۔ اسی طرح حدیث ام ہانی ایسے سفر پر محمول کی جائے جس میں حضر جیسی سہولیات ہوں۔ (2) اصل بات یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جزم و وثوق کے ساتھ نفی نہیں کی بلکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مطلق طور پر سفر میں نماز چاشت کی نفی نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر سے واپس آتے تو نماز اشراق پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة:231/2) بلکہ حضرت انس ؓ سے صراحت کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر میں اشراق کے آٹھ نوافل پڑھے۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: ’’میں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید وابستہ کرتے ہوئے انہیں پڑھا ہے۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:231/2) اس بنا پر حضرت ابن عمر ؓ کی مبنی بر تردد روایت سے حضرت انس ؓ سے مروی یقینی روایت کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے حضرت ابن عباس ؓ نے نماز اشراق کو ایک موقع پر بدعت قرار دیا تھا۔ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1775) بہرحال ان کا انکار اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے نہیں دیکھا۔ لیکن ابن عمر ؓ کا نہ دیکھنا اس بات کی دلیل نہیں کہ سرے سے اس نماز کا وجود ہی نہیں یا اس کا ادا کرنا بدعت ہے۔ قاضی عیاض وغیرہ نے لکھا ہے اشراق کی فرض نماز جیسی پابندی کرنا یا مسجد میں اس کا ادا کرنا یا باجماعت اہتمام کرنے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ نے انکار کیا ہے۔ ان کے انکار کے یہ معنی نہیں کہ نماز اشراق خلاف سنت ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق مروی ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو اس کا اہتمام کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم نے اس کا اہتمام کرنا ہے تو اپنے گھروں میں کرو۔ (فتح الباري:89/3) روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب مکہ آتے یا مسجد قباء جاتے تو نماز اشراق پڑھتے تھے۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی انکار کی وجہ سے نماز اشراق کی مشروعیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی معلومات کے مطابق انکار کیا ہے۔ (فتح الباري:89/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحی بن سعیدی قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے توبہ بن کیسان نے، ان سے مورق بن مشمرج نے، انہوںنے بیان کیا کہ میں نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے پوچھا کہ کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور عمر پڑھتے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور ابوبکر ؓ ؟ فرمایا نہیں۔ میں نے پوچھا اور نبی کریم ﷺ؟ فرمایا نہیں۔ میرا خیال یہی ہے۔
حدیث حاشیہ:
بعض شراح کرام کا کہنا ہے کہ بظاہر اس حدیث اور باب میں مطابقت نہیں ہے۔ علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:فحمله الخطابي على غلط الناسخ، وابن المنير: على أنه لما تعارضت عنده أحاديثها نفيًا، كحديث ابن عمر هذا، إثباتًا كحديث أبي هريرة في الوصية بها، نزل حديث النفي على السفر، وحديث الإثبات على الحضر.ويؤيد بذلك أنه ترجم لحديث أبي هريرة بصلاة الضحى في الحضر مع ما يعضده من قول ابن عمر: لو كانت مسبحًا لأتممت في السفر. قاله ابن حجر.
یعنی خطابی نے اس باب کو ناقل کی غلطی پر محمول کیا ہے اور ابن منیر کا کہنا یہ ہے کہ حضرت اما م بخاری ؒ کے نزدیک نفی اور اثبات کی احادیث میں تعارض تھا، اس کو انہوں نے اس طرح رفع کیا کہ حدیث ابن عمر ؓ کو جس میں نفی ہے سفر پر محمول کیا اور حدیث ابوہریرہ ؓ کو جس میں وصیت کا ذکر ہے اور جس سے اثبات ثابت ہو رہاہے، اس کو حضر پر محمول کیا۔ اس امر کی اس سے بھی تائید ہو رہی ہے کہ حدیث ابوہریرہ پر حضرت امام نے صلوة الضحی في الحضر کا باب منعقد فرمایا اور نفی کے بارے میں حضرت ابن عمر ؓ کے اس قول سے بھی تائید ہوتی ہے جو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں سفر میں نفل پڑھتا تو نمازوں کو ہی پورا کیوں نہ کرلیتا، پس معلوم ہوا کہ نفی سے ان کی سفر میں نفی مراد ہے اور حضرات شیخین کا فعل بھی سفر ہی سے متعلق ہے کہ وہ حضرات سفر میں نماز ضحی نہیں پڑھا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muwarriq (RA): I asked Ibn 'Umar (RA) "Do you offer the Duha prayer?" He replied in the negative. I further asked, "Did 'Umar use to pray it?" He (Ibn 'Umar (RA)) replied in the negative. I again asked, "Did Abu Bakr (RA) use to pray it?" He replied in the negative. I again asked, "Did the Prophet (ﷺ) use to pray it?" Ibn 'Umar (RA) replied, "I don't think he did." ________