Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: Whoever did not offer the Duha prayer and thought it permissible (to offer it))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1177.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا مگر میں اسے ادا کرتی ہوں۔
تشریح:
(1) صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے مزید وضاحت ہے کہ رسول الله ﷺ کی عادت تھی کہ آپ کسی عمل کو پسند کرتے تھے مگر اس پر عمل پیرا نہ ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی کہ آپ کے عمل کو دیکھ کر لوگ بھی اسے اپنائیں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا۔ اس اندیشے کی بنا پر پسندیدہ ہونے کے باوجود آپ اس پر عمل نہ کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1662(718)) واضح رہے کہ نماز ضحیٰ کا دوسرا نام نماز اشراق ہے۔ وقت ادا کے اعتبار سے اس کے الگ الگ نام ہیں، یعنی اگر طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد ادا کریں تو نماز اشراق اور اگر سورج اچھی طرح بلند ہو جائے تو اسے نماز ضحیٰ کہا جاتا ہے۔ اسے محدثین کرام نے ضحوۂ صغریٰ اور ضحوۂ کبریٰ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ اور دھوپ میں اس قدر شدت آ جائے کہ پاؤں جلنے لگیں لیکن زوال سے پہلے پڑھیں تو اسے صلاۃ الاوابین کہتے ہیں۔ حافظ ابن قیم ؒ نے نماز اشراق کے متعلق اختلاف بیان کرتے ہوئے مختلف مسالک کی نشاندہی کی ہے جس کی مختصراً تفصیل کچھ یوں ہے: ٭ نماز اشراق مستحب ہے، البتہ اس کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ٭ کسی سبب کی وجہ سے اس کا اہتمام کیا جائے، مثلاً: کسی شہر کے فتح ہونے پر یا کسی مخالف کی موت پر یا کسی کے ہاں زیارت کے لیے جانے پر یا سفر سے واپسی پر۔ ٭ سرے سے مشروع نہیں، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ٭ اس پر مداومت نہ کی جائے بلکہ کبھی پڑھ لی جائے اور کبھی چھوڑ دی جائے۔ ٭ اس کے پڑھنے کا اہتمام گھروں میں کیا جائے، مساجد وغیرہ میں اس کا اظہار درست نہیں۔ ٭ یہ مستحب نہیں بلکہ بدعت ہے۔ (زادالمعاد:351/1) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اس تفصیل کو بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:72/3) ہمارے نزدیک پہلا موقف راجح ہے اور اس کی کم از کم تعداد دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات ہیں، چنانچہ معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز اشراق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہاں، آپ چار رکعت پڑھتے تھے اور جس قدر اللہ چاہتا آپ اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1883(719)) حضرت عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے نبی ﷺ کے متعلق پوچھا کہ آیا آپ نماز اشراق پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: جب آپ سفر سے واپس آتے تو اشراق پڑھ کر گھر آتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1660(717)) حضرت ام ذرہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز اشراق پڑھتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے نماز اشراق کی چار رکعات پڑھتے دیکھا ہے۔ (مسند أحمد:108/8) روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نماز اشراق بڑے اہتمام سے ادا کرتیں اور فرمایا کرتی تھیں: اگر میرے والدین بھی زندہ ہو کر آ جائیں تب بھی میں نماز اشراق نہیں چھوڑوں گی۔ (الموطأ للإمام مالك، باب صلاة الضحیٰ:52/1، 53) (3) نماز اشراق کے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم! تو میرے لیے چار رکعت (اشراق کی) اول دن میں پڑھ، میں اس دن کی شام تک تیرے کام سنوار دوں گا۔‘‘(سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1289) امام نووی ؒ نے اپنی شرح صحیح مسلم میں نماز اشراق کی احادیث کے پیش نظر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’نماز اشراق کے استحباب کا بیان، اس کی کم از کم دو رکعات اور مکمل آٹھ رکعات ہیں، درمیانے درجے کی چار یا چھ رکعات ادا کرنا اور شوق سے اس کی پابندی کا بیان‘‘ چونکہ حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات مروی ہیں، اس لیے جمع کی صورت یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی نفی سے مراد دوام ہے اور وہ خود اس کی پابندی کرتی تھیں۔ اس کی وجہ بھی انہوں نے خود بیان کر دی ہے کہ آپ اس لیے پابندی نہیں کرتے تھے کہ مبادا فرض ہو جائے۔ (فتح الباري:73/3)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1150
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1177
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1177
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1177
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا مگر میں اسے ادا کرتی ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے مزید وضاحت ہے کہ رسول الله ﷺ کی عادت تھی کہ آپ کسی عمل کو پسند کرتے تھے مگر اس پر عمل پیرا نہ ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی کہ آپ کے عمل کو دیکھ کر لوگ بھی اسے اپنائیں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا۔ اس اندیشے کی بنا پر پسندیدہ ہونے کے باوجود آپ اس پر عمل نہ کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1662(718)) واضح رہے کہ نماز ضحیٰ کا دوسرا نام نماز اشراق ہے۔ وقت ادا کے اعتبار سے اس کے الگ الگ نام ہیں، یعنی اگر طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد ادا کریں تو نماز اشراق اور اگر سورج اچھی طرح بلند ہو جائے تو اسے نماز ضحیٰ کہا جاتا ہے۔ اسے محدثین کرام نے ضحوۂ صغریٰ اور ضحوۂ کبریٰ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ اور دھوپ میں اس قدر شدت آ جائے کہ پاؤں جلنے لگیں لیکن زوال سے پہلے پڑھیں تو اسے صلاۃ الاوابین کہتے ہیں۔ حافظ ابن قیم ؒ نے نماز اشراق کے متعلق اختلاف بیان کرتے ہوئے مختلف مسالک کی نشاندہی کی ہے جس کی مختصراً تفصیل کچھ یوں ہے: ٭ نماز اشراق مستحب ہے، البتہ اس کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ٭ کسی سبب کی وجہ سے اس کا اہتمام کیا جائے، مثلاً: کسی شہر کے فتح ہونے پر یا کسی مخالف کی موت پر یا کسی کے ہاں زیارت کے لیے جانے پر یا سفر سے واپسی پر۔ ٭ سرے سے مشروع نہیں، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ٭ اس پر مداومت نہ کی جائے بلکہ کبھی پڑھ لی جائے اور کبھی چھوڑ دی جائے۔ ٭ اس کے پڑھنے کا اہتمام گھروں میں کیا جائے، مساجد وغیرہ میں اس کا اظہار درست نہیں۔ ٭ یہ مستحب نہیں بلکہ بدعت ہے۔ (زادالمعاد:351/1) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اس تفصیل کو بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:72/3) ہمارے نزدیک پہلا موقف راجح ہے اور اس کی کم از کم تعداد دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات ہیں، چنانچہ معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز اشراق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہاں، آپ چار رکعت پڑھتے تھے اور جس قدر اللہ چاہتا آپ اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1883(719)) حضرت عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے نبی ﷺ کے متعلق پوچھا کہ آیا آپ نماز اشراق پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: جب آپ سفر سے واپس آتے تو اشراق پڑھ کر گھر آتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1660(717)) حضرت ام ذرہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز اشراق پڑھتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے نماز اشراق کی چار رکعات پڑھتے دیکھا ہے۔ (مسند أحمد:108/8) روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نماز اشراق بڑے اہتمام سے ادا کرتیں اور فرمایا کرتی تھیں: اگر میرے والدین بھی زندہ ہو کر آ جائیں تب بھی میں نماز اشراق نہیں چھوڑوں گی۔ (الموطأ للإمام مالك، باب صلاة الضحیٰ:52/1، 53) (3) نماز اشراق کے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم! تو میرے لیے چار رکعت (اشراق کی) اول دن میں پڑھ، میں اس دن کی شام تک تیرے کام سنوار دوں گا۔‘‘(سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1289) امام نووی ؒ نے اپنی شرح صحیح مسلم میں نماز اشراق کی احادیث کے پیش نظر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’نماز اشراق کے استحباب کا بیان، اس کی کم از کم دو رکعات اور مکمل آٹھ رکعات ہیں، درمیانے درجے کی چار یا چھ رکعات ادا کرنا اور شوق سے اس کی پابندی کا بیان‘‘ چونکہ حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات مروی ہیں، اس لیے جمع کی صورت یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی نفی سے مراد دوام ہے اور وہ خود اس کی پابندی کرتی تھیں۔ اس کی وجہ بھی انہوں نے خود بیان کر دی ہے کہ آپ اس لیے پابندی نہیں کرتے تھے کہ مبادا فرض ہو جائے۔ (فتح الباري:73/3)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہ میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا مگر میں خود پڑھتی ہوں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے صرف اپنی رؤیت کی نفی کی ہے ورنہ بہت سی روایات میں آپ ﷺ کا یہ نماز پڑھنا مذکور ہے۔ حضرت صدیقہ ؓ کے خود پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس نماز کے فضائل سنے ہوں گے۔ پس معلوم ہوا کہ اس نماز کی ادائیگی باعث اجروثواب ہے۔ اس لفظ سے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو پڑھتے نہیں دیکھا۔ باب کا مطلب نکلتا ہے، کیونکہ اس کاپڑھنا ضروری ہوتا تو وہ آنحضرت ﷺ کو ہر روز پڑھتے دیکھتیں۔ قسطلانی نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ کے نہ دیکھنے سے چاشت کی نماز کی نفی نہیں ہوتی۔ ایک جماعت صحابہ نے اس کو روایت کیا ہے۔ جیسے انس، ابوہریرہ، ابو ذر، ابو اسامہ، عقبہ بن عبد، ابن ابی اوفیٰ، ابو سعید، زیدبن ارقم، ابن عباس، جبیر بن مطعم، حذیفہ، ابن عمر، ابو موسی، عتبان، عقبہ بن عامر، علی، معاذ بن انس، ابو بکرہ اور ابو مرہ وغیرہم ؓ نے۔ عتبان بن مالک کی حدیث اوپر کئی بار اس کتاب میں گزر چکی ہے اور امام احمد نے اس کو اس لفظ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے گھر میں چاشت کے نفل پڑھے۔ سب لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): I never saw the Prophet (ﷺ) offering the Duha prayer but I always offer it.