Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: The (optional) salat before the Maghrib prayers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1184.
حضرت مرثد بن عبداللہ یزنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عقبہ بن عامر ؓ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ابوتمیم (عبداللہ جیشانی) نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہیں؟ حضرت عقبہ ؓ نے فرمایا: ہم بھی نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اب کیوں نہیں پڑھتے ہو؟ فرمایا: مصروفیت کی وجہ سے۔
تشریح:
(1) قاضی ابوبکر بن العربی کہتے ہیں کہ صحابۂ کرام ؓ کے بعد ان دو رکعت کو کسی نے نہیں پڑھا۔ یہ حدیث اس بات کی تردید کرتی ہے کیونکہ ابو تمیم تابعی ہیں اور انہوں نے پڑھی ہیں۔ (فتح الباري:73/3) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں مؤذن مغرب کی اذان کہتا تو ہم سب ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعت پڑھتے۔ لوگ اس کثرت سے یہ دو رکعت ادا کرتے کہ اجنبی آدمی گمان کرتا کہ مغرب کی نماز ہو چکی ہے۔ (اور اب بعد کی دو رکعت ادا کی جا رہی ہیں) (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1939(837)) حضرت انس ؓ ہی کی روایت ہے کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دو رکعت ادا کرتے اور رسول اللہ ﷺ ہمیں دیکھ رہے ہوتے۔ آپ نہ تو ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ اس سے منع ہی فرماتے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1938(835)) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز مغرب پڑھانے کے لیے گھر سے تشریف لاتے تو لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:625) (2) جو حضرات نماز مغرب سے پہلے یہ سنت ادا کرنا چاہتے ہوں انہیں چاہیے کہ وہ پہلے سے تیار ہوں، یعنی باوضو ہوں، اذان ہوتے ہی انہیں پڑھنا شروع کر دیں تاکہ نماز مغرب کی ادائیگی میں دیر نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1156
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1184
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1184
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1184
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت مرثد بن عبداللہ یزنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عقبہ بن عامر ؓ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ابوتمیم (عبداللہ جیشانی) نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہیں؟ حضرت عقبہ ؓ نے فرمایا: ہم بھی نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اب کیوں نہیں پڑھتے ہو؟ فرمایا: مصروفیت کی وجہ سے۔
حدیث حاشیہ:
(1) قاضی ابوبکر بن العربی کہتے ہیں کہ صحابۂ کرام ؓ کے بعد ان دو رکعت کو کسی نے نہیں پڑھا۔ یہ حدیث اس بات کی تردید کرتی ہے کیونکہ ابو تمیم تابعی ہیں اور انہوں نے پڑھی ہیں۔ (فتح الباري:73/3) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں مؤذن مغرب کی اذان کہتا تو ہم سب ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعت پڑھتے۔ لوگ اس کثرت سے یہ دو رکعت ادا کرتے کہ اجنبی آدمی گمان کرتا کہ مغرب کی نماز ہو چکی ہے۔ (اور اب بعد کی دو رکعت ادا کی جا رہی ہیں) (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1939(837)) حضرت انس ؓ ہی کی روایت ہے کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دو رکعت ادا کرتے اور رسول اللہ ﷺ ہمیں دیکھ رہے ہوتے۔ آپ نہ تو ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ اس سے منع ہی فرماتے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1938(835)) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز مغرب پڑھانے کے لیے گھر سے تشریف لاتے تو لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:625) (2) جو حضرات نماز مغرب سے پہلے یہ سنت ادا کرنا چاہتے ہوں انہیں چاہیے کہ وہ پہلے سے تیار ہوں، یعنی باوضو ہوں، اذان ہوتے ہی انہیں پڑھنا شروع کر دیں تاکہ نماز مغرب کی ادائیگی میں دیر نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مرثد بن عبداللہ یزنی سے سنا کہ میں عقبہ بن عامر جہنی صحابی ؓ کے پاس آیا اور عرض کیا آپ کو ابو تمیم عبدا للہ بن مالک پر تعجب نہیں آیا کہ وہ مغرب کی نماز فرض سے پہلے دو رکعت نفل پڑھتے ہیں۔ اس پر عقبہ نے فرمایا کہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اسے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا پھر اب اس کے چھوڑنے کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ دنیا کے کاروبار مانع ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ہر دو احادیث سے ثابت ہوا کہ اب بھی موقع ملنے پر مغرب سے پہلے ان دو رکعتوں کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پڑھنا ضروری نہیں مگر کوئی پڑھ لے تو یقینا موجب اجر وثواب ہو گا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ بعد میں ان کے پڑھنے سے روک دیا گیا۔ یہ بات بالکل غلط ہے پچھلے صفحات میں ان دورکعتوں کے استحباب پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ عبد اللہ بن مالک جثانی یہ تابعی مخضرم تھا، یعنی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھا، پر آپ سے نہیں ملا، یہ مصر میں حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں آیا، پھر وہیں رہ گیا۔ ایک جماعت نے ان کو صحابہ میں گنا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مغرب کا وقت لمبا ہے اور جس نے اس کو تھوڑا قرار دیا اس کا قول بے دلیل ہے۔ مگر یہ رکعتیں جماعت کھڑی ہونے سے پہلے پڑھ لینا مستحب ہے۔ (وحیدي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Marthad bin 'Abdullah Al-Yazani (RA): I went to 'Uqba bin 'Amir Al-Juhani and said, "Is it not surprising that Abi Tamim offers two Rakat before the Maghrib prayer?" 'Uqba said, "We used to do so in the life-time of Allah's Apostle." I asked him, "What prevents you from offering it now?" He replied, "Business." ________