باب: آنحضرت ﷺ کی قبرشریف اور ممبر مبارک کے درمیانی حصہ کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Virtues of Prayer at Masjid Makkah and Madinah
(Chapter: The superiority of the place between the pulpit and the grave (of the Prophet (pbuh)))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1196.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرے گھر اور منبر کا درمیانی مقام جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور (قیامت کے دن) میرا منبر میرے حوض پر ہو گا۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کرنے کے بعد یہ عنوان قائم کیا ہے تاکہ اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ مسجد نبوی کے بعض حصے ایک دوسرے سے افضل ہیں۔ عنوان میں قبر کا لفظ بیان کیا ہے جبکہ حدیث میں لفظ بیت ہے؟ یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک اسی بیت میں ہے۔ بعض روایات میں قبر کا لفظ بھی ہے لیکن یہ روایت بالمعنی ہے، چنانچہ امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں: حدیث کے مذکورہ الفاظ ہی صحیح ہیں، البتہ بعض راویوں نے روایت بالمعنی کے طور پر بين قبري و منبري کے الفاظ بیان کیے ہیں، حالانکہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث بیان کی تھی اس وقت آپ فوت ہوئے تھے نہ آپ کی قبر مبارک کا وجود ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب صحابۂ کرام ؓ میں آپ کی تدفین کے متعلق اختلاف ہوا تو کسی نے بھی اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا۔ اگر یہ الفاظ ان کے علم میں ہوتے تو اس تاریخی مسئلے میں نص صریح کا حکم رکھتے۔ (التوسل والوسیلة ،ص:74) (2) رسول اللہ ﷺ نے اس حصے کو جنت کی کیاری قرار دیا ہے کہ نزول رحمت اور حصول سعادت کے اعتبار سے وہ حقیقی روضۂ جنت کی طرح ہے یا اس لیے کہ اس حصے میں عبادت دخول جنت کا سبب ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے کہ آخرت میں یہ ٹکڑا بعینہٖ جنت میں منتقل ہو جائے گا۔ علامہ عینی نے امام خطابی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو شخص اس حصے میں عبادت کا اہتمام کرے گا وہ جنت کے باغوں میں داخل ہو گا اور جو شخص منبر کے پاس عبادت کرے گا وہ جنت میں حوض کوثر سے سیراب کیا جائے گا۔ شارحین نے منبر کے متعلق لکھا ہے کہ بعینہٖ اسی منبر کو حوض کوثر پر لوٹا دیا جائے گا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1166
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1196
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1196
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1196
تمہید کتاب
صحیح بخاری کا موضوع امکانی حد تک امت مسلمہ کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی رہنمائی کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ کی زمین پر مساجد بہترین خطبے اور بازار بدترین ٹکڑے ہیں۔ اللہ کے بندے اس کی عبادت اور خوشنودی کے لیے ان مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ مساجد کو نظر انداز کر کے مشاہدہ و مقابر اور مزارات کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہاں مدفون بزرگ خوش ہو کر ان کی حاجت روائی کا وسیلہ بن جائیں، پھر ان کی اس درجہ تعظیم کرتے ہیں جو کھلے شرک تک پہنچ جاتی ہے، مثلاً: کسی درگاہ پر چلہ کشی یا خانقاہ پر اعتکاف یا آستانے پر نذرونیاز یا بغرض ثواب مزارات کا سفر اس اعتقادی خرابی کے برگ و ہار ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تطوع کے ابواب کے بعد اس مسئلے کی وضاحت بھی ضروری خیال کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مرفوع احادیث پر چھ (6) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: سب سے پہلے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت بیان فرمائی۔ اس کے بعد مسجد قباء کا ذکر کیا۔ اس مناسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کا حوالہ دیا کہ آپ ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل یا سوار ہو کر جاتے تھے۔ بعد ازاں مسجد نبوی میں بعض مقامات کی فضیلت بیان فرمائی اور آخر میں مسجد اقصیٰ کی فضیلت کے متعلق حدیث ذکر کی۔دراصل اس عالم رنگ و بو میں کوئی قطعۂ ارضی ایسا نہیں جس کا فضل و شرف اپنا ذاتی ہو تاکہ اس کے فضل و شرف کی وجہ سے اس کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہو، ہاں تین مساجد ایسی ہیں جن کی زیارت کی خاطر سفر کرنا عبادت اور باعث اجروثواب ہے اور ان کی فضیلت کے متعلق شریعت نے ہمیں آگاہ کیا ہے جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا۔ ان مساجد کے نام یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ مسجد قباء کی طرف جانے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت بھی احادیث میں وارد ہے، لہذا وہ ممانعت کے اس عمومی حکم سے مستثنیٰ ہے۔ ان کے علاوہ دیگر شہروں کا سفر تبلیغ اسلام، جہاد فی سبیل اللہ، تحصیل علم، زیارت اخوان اور کسب معاش وغیرہ کے لیے تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ذاتی شرف کی وجہ سے بغرضِ تقرب و عبادت نہیں کیونکہ دیگر مقامات کا سفر بغرض عبادت مشروع نہیں جیسا کہ ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب کوہ طور سے واپس آئے تو وہ ان سے ملے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں کوہ طور پر گیا تھا، وہاں نماز پڑھ کر واپس آیا ہوں۔ حضرت ابو بصرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے آپ کے وہاں جانے کا پہلے علم ہو جاتا تو آپ کو وہاں نہ جانے دیتا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: "تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ جانے کے لیے رخت سفر نہیں باندھنا چاہیے۔ وہ مسجدیں یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔" (مسنداحمد:6/7)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت و تقرب کی نیت سے جانا منع ہے۔ یہ ممانعت مسجد قباء کی طرف سفر کرنے میں رکاوٹ نہیں کیونکہ اس کی طرف سفر اختیار کرنے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ اس کی تفصیل باب: 34 کے تحت آ رہی ہے۔ اس حکم امتناعی کو صرف مساجد سے خاص کرنا صحیح نہیں کیونکہ صحابئ رسول نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوہ طور پر قصداً عبادت کی نیت سے سفر کرنے کو منع فرمایا ہے، حالانکہ جبل طور پر مسجد نہیں بلکہ وہ ایک مقدس مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام رب کائبات سے ہم کلام ہوئے تھے۔ جب ایسے مقام پر بغرضِ عبادت جانے کی اجازت نہیں تو ملک عزیز میں پھیلے ہوئے مزارات و مشاہد پر بغرض عبادت و زیارت جانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ چونکہ شرعی طور پر ایسا کرنا بے شمار مفاسد کا پیش خیمہ تھا، اس لیے اس کا سدباب ضروری تھا، البتہ قبرستان میں اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کی خاطر جانا متعدد احادیث سے ثابت ہے، نیز وہاں جانے سے آخرت کی یاددہانی بھی ہوتی ہے۔ مسجد نبوی میں ادائے نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضری دینا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا، پھر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر سلام پڑھنا، اس کے بعد بقیع کے قبرستان میں جا کر وہاں مدفون جملہ اموات کے لیے دعائے مغفرت کرنا احادیث سے ثابت ہے جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ہماری ان گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ قلب و ذہن کے لیے جلا کا باعث ہوں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرے گھر اور منبر کا درمیانی مقام جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور (قیامت کے دن) میرا منبر میرے حوض پر ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کرنے کے بعد یہ عنوان قائم کیا ہے تاکہ اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ مسجد نبوی کے بعض حصے ایک دوسرے سے افضل ہیں۔ عنوان میں قبر کا لفظ بیان کیا ہے جبکہ حدیث میں لفظ بیت ہے؟ یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک اسی بیت میں ہے۔ بعض روایات میں قبر کا لفظ بھی ہے لیکن یہ روایت بالمعنی ہے، چنانچہ امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں: حدیث کے مذکورہ الفاظ ہی صحیح ہیں، البتہ بعض راویوں نے روایت بالمعنی کے طور پر بين قبري و منبري کے الفاظ بیان کیے ہیں، حالانکہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث بیان کی تھی اس وقت آپ فوت ہوئے تھے نہ آپ کی قبر مبارک کا وجود ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب صحابۂ کرام ؓ میں آپ کی تدفین کے متعلق اختلاف ہوا تو کسی نے بھی اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا۔ اگر یہ الفاظ ان کے علم میں ہوتے تو اس تاریخی مسئلے میں نص صریح کا حکم رکھتے۔ (التوسل والوسیلة ،ص:74) (2) رسول اللہ ﷺ نے اس حصے کو جنت کی کیاری قرار دیا ہے کہ نزول رحمت اور حصول سعادت کے اعتبار سے وہ حقیقی روضۂ جنت کی طرح ہے یا اس لیے کہ اس حصے میں عبادت دخول جنت کا سبب ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے کہ آخرت میں یہ ٹکڑا بعینہٖ جنت میں منتقل ہو جائے گا۔ علامہ عینی نے امام خطابی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو شخص اس حصے میں عبادت کا اہتمام کرے گا وہ جنت کے باغوں میں داخل ہو گا اور جو شخص منبر کے پاس عبادت کرے گا وہ جنت میں حوض کوثر سے سیراب کیا جائے گا۔ شارحین نے منبر کے متعلق لکھا ہے کہ بعینہٖ اسی منبر کو حوض کوثر پر لوٹا دیا جائے گا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحی نے، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
چونکہ آپ ﷺ اپنے گھر یعنی حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں مدفون ہیں، اس لیے حضرت امام بخاری ؓ نے اس حدیث پر ’’قبر اور منبر کے درمیان‘‘ باب منعقد فرمایا حافظ ابن حجر ؒ کی ایک روایت میں (بیت) گھر کے بجائے قبرہی کا لفظ ہے۔ گویا عالم تقدیر میں جو کچھ ہونا تھا، اس کی آپ ﷺ نے پہلے ہی خبر دی تھی، بلا شک وشبہ یہ حصہ جنت ہی کا ہے اور عالم آخرت میں یہ جنت ہی کا ایک حصہ بن جائے گا۔ ’’میرا منبر میرے حوض پر ہے۔‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ حوض یہیں پر ہوگا۔ یا یہ کہ جہاں بھی میرا حوض کوثر ہو گا وہاں ہی یہ منبر رکھا جائے گا۔ آپ اس پر تشریف فرما ہوں گے اور اپنے دست مبارک سے مسلمانوں کو جام کوثر پلائیں گے مگر اہل بدعت کو وہاں حاضری سے روک دیا جائے گا۔ جنہوں نے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے دین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ حضور ﷺ ان کا حال معلوم فرما کر فرمائیں گے۔ سحقا لمن بدل سحقا لمن غیردوری ہو ان کو جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Between my house and my pulpit there is a garden of the gardens of Paradise, and my pulpit is on my fountain tank (i.e. Al-Kauthar)."