Sahi-Bukhari:
Virtues of Prayer at Masjid Makkah and Madinah
(Chapter: The Mosque of Bait-ul-Maqdis (Jerusalem))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1197.
حضرت قزعہ مولیٰ زیاد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے چار احادیث سنیں جو وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے تھے وہ مجھے بہت پسند آئیں اور انہوں نے مجھے بہت خوش کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی عورت اپنے خاوند یا محرم کے بغیر دو دن کا سفر نہ کرے، عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ دو دنوں کا روزہ نہیں رکھنا چاہئے، دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں ہوتی: نماز فجر کے بعد تا آنکہ سورج طلوع ہو جائے اور نماز عصر کے بعد تاآنکہ سورج غروب ہو جائے، نیز تین مساجد کے علاوہ کسی دوسرے مقام کی طرف (تقرب و عبادت کی نیت سے) رخت سفر نہ باندھا جائے، مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد، یعنی مسجد نبوی۔‘‘
تشریح:
اس حدیث میں چار احکام بیان ہوئے ہیں۔ ٭ عورت کو تنہا سفر کرنے کی ممانعت۔ اس کی تفصیل ہم کتاب الحج، حدیث: 1864 کے تحت بیان کریں گے۔ ٭ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت۔ اس کی تشریح کتاب الصوم، حدیث: 1995 میں ذکر ہو گی۔ ٭ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت۔ اس کے متعلق ہم اپنی گزارشات حدیث: 586 کے تحت بیان کر آئے ہیں۔ ٭ آخری حکم شدِ رحال سے متعلق ہے جس کی تفصیل حدیث: 1189 میں بیان ہو چکی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے روایت کیا ہے۔ ہم قبل ازیں مسند بزار کے حوالے سے بیان کر آئے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی پانچ صد نماز کے برابر ہے۔ (فوائد حدیث: 1190)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1167
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1197
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1197
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1197
تمہید کتاب
صحیح بخاری کا موضوع امکانی حد تک امت مسلمہ کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی رہنمائی کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ کی زمین پر مساجد بہترین خطبے اور بازار بدترین ٹکڑے ہیں۔ اللہ کے بندے اس کی عبادت اور خوشنودی کے لیے ان مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ مساجد کو نظر انداز کر کے مشاہدہ و مقابر اور مزارات کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہاں مدفون بزرگ خوش ہو کر ان کی حاجت روائی کا وسیلہ بن جائیں، پھر ان کی اس درجہ تعظیم کرتے ہیں جو کھلے شرک تک پہنچ جاتی ہے، مثلاً: کسی درگاہ پر چلہ کشی یا خانقاہ پر اعتکاف یا آستانے پر نذرونیاز یا بغرض ثواب مزارات کا سفر اس اعتقادی خرابی کے برگ و ہار ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تطوع کے ابواب کے بعد اس مسئلے کی وضاحت بھی ضروری خیال کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مرفوع احادیث پر چھ (6) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: سب سے پہلے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت بیان فرمائی۔ اس کے بعد مسجد قباء کا ذکر کیا۔ اس مناسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کا حوالہ دیا کہ آپ ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل یا سوار ہو کر جاتے تھے۔ بعد ازاں مسجد نبوی میں بعض مقامات کی فضیلت بیان فرمائی اور آخر میں مسجد اقصیٰ کی فضیلت کے متعلق حدیث ذکر کی۔دراصل اس عالم رنگ و بو میں کوئی قطعۂ ارضی ایسا نہیں جس کا فضل و شرف اپنا ذاتی ہو تاکہ اس کے فضل و شرف کی وجہ سے اس کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہو، ہاں تین مساجد ایسی ہیں جن کی زیارت کی خاطر سفر کرنا عبادت اور باعث اجروثواب ہے اور ان کی فضیلت کے متعلق شریعت نے ہمیں آگاہ کیا ہے جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا۔ ان مساجد کے نام یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ مسجد قباء کی طرف جانے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت بھی احادیث میں وارد ہے، لہذا وہ ممانعت کے اس عمومی حکم سے مستثنیٰ ہے۔ ان کے علاوہ دیگر شہروں کا سفر تبلیغ اسلام، جہاد فی سبیل اللہ، تحصیل علم، زیارت اخوان اور کسب معاش وغیرہ کے لیے تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ذاتی شرف کی وجہ سے بغرضِ تقرب و عبادت نہیں کیونکہ دیگر مقامات کا سفر بغرض عبادت مشروع نہیں جیسا کہ ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب کوہ طور سے واپس آئے تو وہ ان سے ملے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں کوہ طور پر گیا تھا، وہاں نماز پڑھ کر واپس آیا ہوں۔ حضرت ابو بصرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے آپ کے وہاں جانے کا پہلے علم ہو جاتا تو آپ کو وہاں نہ جانے دیتا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: "تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ جانے کے لیے رخت سفر نہیں باندھنا چاہیے۔ وہ مسجدیں یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔" (مسنداحمد:6/7)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت و تقرب کی نیت سے جانا منع ہے۔ یہ ممانعت مسجد قباء کی طرف سفر کرنے میں رکاوٹ نہیں کیونکہ اس کی طرف سفر اختیار کرنے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ اس کی تفصیل باب: 34 کے تحت آ رہی ہے۔ اس حکم امتناعی کو صرف مساجد سے خاص کرنا صحیح نہیں کیونکہ صحابئ رسول نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوہ طور پر قصداً عبادت کی نیت سے سفر کرنے کو منع فرمایا ہے، حالانکہ جبل طور پر مسجد نہیں بلکہ وہ ایک مقدس مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام رب کائبات سے ہم کلام ہوئے تھے۔ جب ایسے مقام پر بغرضِ عبادت جانے کی اجازت نہیں تو ملک عزیز میں پھیلے ہوئے مزارات و مشاہد پر بغرض عبادت و زیارت جانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ چونکہ شرعی طور پر ایسا کرنا بے شمار مفاسد کا پیش خیمہ تھا، اس لیے اس کا سدباب ضروری تھا، البتہ قبرستان میں اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کی خاطر جانا متعدد احادیث سے ثابت ہے، نیز وہاں جانے سے آخرت کی یاددہانی بھی ہوتی ہے۔ مسجد نبوی میں ادائے نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضری دینا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا، پھر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر سلام پڑھنا، اس کے بعد بقیع کے قبرستان میں جا کر وہاں مدفون جملہ اموات کے لیے دعائے مغفرت کرنا احادیث سے ثابت ہے جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ہماری ان گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ قلب و ذہن کے لیے جلا کا باعث ہوں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت قزعہ مولیٰ زیاد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے چار احادیث سنیں جو وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے تھے وہ مجھے بہت پسند آئیں اور انہوں نے مجھے بہت خوش کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی عورت اپنے خاوند یا محرم کے بغیر دو دن کا سفر نہ کرے، عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ دو دنوں کا روزہ نہیں رکھنا چاہئے، دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں ہوتی: نماز فجر کے بعد تا آنکہ سورج طلوع ہو جائے اور نماز عصر کے بعد تاآنکہ سورج غروب ہو جائے، نیز تین مساجد کے علاوہ کسی دوسرے مقام کی طرف (تقرب و عبادت کی نیت سے) رخت سفر نہ باندھا جائے، مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد، یعنی مسجد نبوی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں چار احکام بیان ہوئے ہیں۔ ٭ عورت کو تنہا سفر کرنے کی ممانعت۔ اس کی تفصیل ہم کتاب الحج، حدیث: 1864 کے تحت بیان کریں گے۔ ٭ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت۔ اس کی تشریح کتاب الصوم، حدیث: 1995 میں ذکر ہو گی۔ ٭ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت۔ اس کے متعلق ہم اپنی گزارشات حدیث: 586 کے تحت بیان کر آئے ہیں۔ ٭ آخری حکم شدِ رحال سے متعلق ہے جس کی تفصیل حدیث: 1189 میں بیان ہو چکی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے روایت کیا ہے۔ ہم قبل ازیں مسند بزار کے حوالے سے بیان کر آئے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی پانچ صد نماز کے برابر ہے۔ (فوائد حدیث: 1190)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، انہوں نے زیاد کے غلام قزعہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابو سعید خدری ؓ کو رسول اللہ ﷺ کے حوالہ سے چار حدیثیں بیان کرتے ہوئے سنا جو مجھے بہت پسند آئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عورت اپنے شوہر یا کسی ذی رحم محرم کے بغیر دو دن کا بھی سفرنہ کرے اور دوسری یہ کہ عید الفطر اور عید الضحی دونوں دن روزے نہ رکھے جائیں۔ تیسری حدیث یہ کہ صبح کی نماز کے بعد سورج کے نکلنے تک اور عصر کے بعد سورج چھپنے تک کوئی نفل نماز نہ پڑھی جائے۔ چوتھی یہ کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد (یعنی مسجد نبوی)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qaza'a Maula (RA): (freed slave of) Ziyad (RA): I heard Abu Sa'id Al-Khudrinarrating four things from the Prophet (ﷺ) and I appreciated them very much. He said, conveying the words of the Prophet. (1) "A woman should not go on a two day journey except with her husband or a Dhi-Mahram. (2) No fasting is permissible on two days: 'Id-ul-Fitr and 'Id-ul-Adha. (3) No prayer after two prayers, i.e. after the Fajr prayer till the sunrises and after the 'Asr prayer till the sun sets. (4) Do not prepare yourself for a journey except to three Mosques, i.e. Al-Masjid-AI-Haram, the Mosque of Aqsa (Jerusalem) and my Mosque."