Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: To take the help of the hands while offering Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عباس ؓنے فرمایا کہ نماز میں آدمی اپنے جسم کے جس حصے سے بھی چاہے، مدد لے سکتا ہے۔ ابواسحاق نے اپنی ٹوپی نماز پڑھتے ہوئے رکھی اور اٹھائی۔ اور علی رضی اللہ عنہ اپنی ہتھیلی بائیں پہنچے پر رکھتے البتہ اگر کھجلانا یا کپڑا درست کرنا ہوتا(تو کر لیتے تھے)۔
1198.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے ہاں رات بسر کی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں سرہانے کے عرض پر لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ محترمہ اس کے طول میں آرام فرما ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سو گئے حتی کہ جب آدمی رات ہوئی یا اس سے تھوڑا سا پہلے یا بعد تو پھر آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرہ انور سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد آپ اٹھ کر لٹکتے ہوئے مشکیزے کے پاس گئے اور اس سے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ پھر میں گیا اور آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے مروڑنے لگے۔ اس کے بعد آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو، بعد ازاں دو، پھر دو، پھر دو رکعتیں ادا کیں، آخر میں پھر دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد آپ نے وتر ادا کیے اور لیٹ گئے حتی کہ آپ کے پاس مؤذن آیا تو آپ اٹھے اور ہلکی سی دو رکعتیں ادا کیں، پھر باہر تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کے کان دو وجوہات کی بنا پر مروڑے: ایک تو انہیں مانوس کرنے کے لیے کیونکہ رات کا اندھیرا تھا، اس لیے محبت و شفقت سے کان کو پکڑا۔ دوسرا چونکہ وہ بائیں جانب کھڑے ہوئے تھے جبکہ مقتدی کا مقام امام کے دائیں طرف ہے، لہٰذا آپ نے اس امر کی اصلاح کے لیے کان مروڑا اور پیچھے سے گھما کر انہیں اپنی دائیں جانب کر لیا۔ جب نماز کا دوسرے کی اصلاح کے لیے اپنے ہاتھ سے کام لینا درست ہے تو اپنی نماز درست رکھنے کے لیے بطریق اولیٰ دوران نماز ہاتھ سے کام لینا جائز ہو گا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں اپنے ہاتھ سے مدد لی جا سکتی ہے۔ (فتح الباري:94/3) (2) اگر کوئی نمازی اپنے موبائل فون کی گھنٹی بند کرنا بھول جائے اور دوران نماز میں گھنٹی بجنے لگے تو اسے اپنے ہاتھ سے بند کرنا جائز ہے کیونکہ اس کا جاری رہنا دوسرے نمازیوں کے لیے باعث تشویش ہو گا۔ جب نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز اپنے ہاتھ سے کوئی بھی کام کیا جا سکتا ہے تو موبائل بند کر دینے میں چنداں حرج نہیں۔ واللہ أعلم۔ رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز میں بچھو اور سانپ مارنے کی بھی اجازت دی ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:921) نیز حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور گھر کا دروازہ بند تھا، میں آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا تو رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز میں چل کر دروازہ کھولا، پھر آپ اپنے مقام نماز پر واپس چلے گئے۔ حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلے کی جانب تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:922)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1168
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1198
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1198
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1198
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کو مشروط ذکر کیا ہے کہ دوران نماز میں اپنے ہاتھ سے مدد لی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ کام نماز سے متعلق ہو لیکن اس سلسلے میں جو آثار پیش کیے ہیں ان میں اس شرط کا ذکر نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان آثار میں اگرچہ "نماز سے متعلق" کی قید نہیں لیکن ان سے مراد یہی ہو گا کہ صرف نماز سے متعلق حرکت جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا "نماز سے متعلق" کی شرط لگانے سے مقصود نماز کے متعلقہ غیر ضروری اور بے فائدہ کاموں کی نفی کرنا ہے کہ نماز سے متعلق ہر حرکت جائز نہیں بلکہ صرف وہ حرکت جائز ہے جو نماز کی درستی اور اصلاح کی خاطر ہو۔ نیز باب اور آثار میں تطبیق اس طرح بھی ممکن ہے کہ آثار میں مذکور امور بھی اصلاحِ نماز ہی سے متعلق ہیں کیونکہ نمازی کا خود سے کسی تکلیف دی چیز کو دور کرنا خشوع کے لیے مددگار ہو سکتا ہے اور یہ خشوع ہی تو نماز کی روح ہے۔ (فتح الباری:3/94)
اور عبداللہ بن عباس ؓنے فرمایا کہ نماز میں آدمی اپنے جسم کے جس حصے سے بھی چاہے، مدد لے سکتا ہے۔ ابواسحاق نے اپنی ٹوپی نماز پڑھتے ہوئے رکھی اور اٹھائی۔ اور علی رضی اللہ عنہ اپنی ہتھیلی بائیں پہنچے پر رکھتے البتہ اگر کھجلانا یا کپڑا درست کرنا ہوتا (تو کر لیتے تھے)۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے ہاں رات بسر کی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں سرہانے کے عرض پر لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ محترمہ اس کے طول میں آرام فرما ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سو گئے حتی کہ جب آدمی رات ہوئی یا اس سے تھوڑا سا پہلے یا بعد تو پھر آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرہ انور سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد آپ اٹھ کر لٹکتے ہوئے مشکیزے کے پاس گئے اور اس سے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ پھر میں گیا اور آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے مروڑنے لگے۔ اس کے بعد آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو، بعد ازاں دو، پھر دو، پھر دو رکعتیں ادا کیں، آخر میں پھر دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد آپ نے وتر ادا کیے اور لیٹ گئے حتی کہ آپ کے پاس مؤذن آیا تو آپ اٹھے اور ہلکی سی دو رکعتیں ادا کیں، پھر باہر تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کے کان دو وجوہات کی بنا پر مروڑے: ایک تو انہیں مانوس کرنے کے لیے کیونکہ رات کا اندھیرا تھا، اس لیے محبت و شفقت سے کان کو پکڑا۔ دوسرا چونکہ وہ بائیں جانب کھڑے ہوئے تھے جبکہ مقتدی کا مقام امام کے دائیں طرف ہے، لہٰذا آپ نے اس امر کی اصلاح کے لیے کان مروڑا اور پیچھے سے گھما کر انہیں اپنی دائیں جانب کر لیا۔ جب نماز کا دوسرے کی اصلاح کے لیے اپنے ہاتھ سے کام لینا درست ہے تو اپنی نماز درست رکھنے کے لیے بطریق اولیٰ دوران نماز ہاتھ سے کام لینا جائز ہو گا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں اپنے ہاتھ سے مدد لی جا سکتی ہے۔ (فتح الباري:94/3) (2) اگر کوئی نمازی اپنے موبائل فون کی گھنٹی بند کرنا بھول جائے اور دوران نماز میں گھنٹی بجنے لگے تو اسے اپنے ہاتھ سے بند کرنا جائز ہے کیونکہ اس کا جاری رہنا دوسرے نمازیوں کے لیے باعث تشویش ہو گا۔ جب نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز اپنے ہاتھ سے کوئی بھی کام کیا جا سکتا ہے تو موبائل بند کر دینے میں چنداں حرج نہیں۔ واللہ أعلم۔ رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز میں بچھو اور سانپ مارنے کی بھی اجازت دی ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:921) نیز حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور گھر کا دروازہ بند تھا، میں آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا تو رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز میں چل کر دروازہ کھولا، پھر آپ اپنے مقام نماز پر واپس چلے گئے۔ حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلے کی جانب تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:922)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نمازی دوران نماز میں اپنے جسم کے جس حصے سے چاہے مدد لے سکتا ہے۔ حضرت ابواسحاق نے دوران نماز میں اپنی ٹوپی اتار کر رکھی اور پھر اسے اٹھا لیا۔
حضرت علی ؓ نماز میں اپنی ہتھیلی کو بائیں کلائی پر رکھے ہوتے الا یہ کہ بدن کو کھجلانا یا کپڑا درست کرنا ہوتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک ؓ نے خبر دی، انہیں مخرمہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ابن عباس کے غلام کریب نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے خبر دی کہ آپ ایک رات ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ کے یہاں سوئے۔ ام المؤمنین ؓ آپ کی خالہ تھیں۔ آپ نے بیان کیا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی بیوی اس کے طول میں لیٹے۔ پھر رسول اللہ ﷺ سو گئے حتی کہ آدھی رات ہوئی یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا بعد۔ تو آپ ﷺ بیدار ہو کر بیٹھ گئے اور چہرے پر نیند کے خمار کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دور کر نے لگے۔ پھر سورۂ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں۔ اس سے آپ ﷺ نے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ میں بھی اٹھا اور جس طرح آنحضور ﷺ نے کیا تھا میں نے بھی کیا اور پھر جا کر آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تو آنحضور ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے داہنے کان کوپکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی۔ اس کے بعد (ایک رکعت) وتر پڑھا اور لیٹ گئے۔ جب مؤذن آیا تو آپ دوبارہ اٹھے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھ کر باہر نماز (فجر) کے لیے تشریف لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا کان مروڑنے سے آپ ﷺ کی غرض ان کی اصلاح کرنی تھی کہ وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو پھر جائیں۔ کیونکہ مقتدی کا مقام امام کے دائیں طرف ہے۔ یہیں سے امام بخاری ؒ نے ترجمہ باب نکالا کیونکہ جب نمازی کو دوسرے کی نماز درست کرنے کے لیے ہاتھ سے کام لینا درست ہوا تو اپنی نماز درست کرنے کے لیے تو بطریق اولیٰ ہاتھ سے کام لینا جائز ہوگا (وحیدی) اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ آپ کبھی تہجد کی نماز تیرہ رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔ نماز میں عمداً کام کرنا بالاتفاق مفسد صلوۃ ہے۔ بھول چوک کے لیے امید عفو ہے۔ یہاں آپ ﷺ کا نماز تہجد کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر ساری نماز کا طاق کرلینا بھی ثابت ہوا۔ اس قدر وضاحت کے باوجود تعجب ہے کہ بہت سے ذی علم حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Kuraib Maula Ibn Abbas (RA): ' Abdullah bin Abbas (RA) said that he had passed a night in the house of Maimuna the mother of the faithful believers , who was his aunt. He said, "I slept across the bed, and Allah's Apostle (ﷺ) along with his wife slept lengthwise. Allah's Apostle (ﷺ) slept till mid-night or slightly before or after it. Then Allah's Apostle (ﷺ) woke up, sat, and removed the traces of sleep by rubbing his hands over his face. Then he recited the last ten verses of Surat-Al Imran (2). Then he went towards a hanging leather water-container and performed a perfect ablution and then stood up for prayer." ' Abdullah bin Abbas (RA) added, "I got up and did the same as Allah's Apostle (ﷺ) had done and then went and stood by his side. Allah's Apostle (ﷺ) then put his right hand over my head and caught my right ear and twisted it. He offered two Rakat, then two Rakat, then two Rakat, then two Rakat, then two Rakat, then two Rakat and then offered one Raka Witr. Then he lay down till the Muadh-dhin came and then he prayed two light Rakat and went out and offered the early morning (Fajr) prayer." ________