Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: What speech is prohibited during As-Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1199.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کو سلام کہتے جبکہ آپ نماز میں ہوتے تھے، تو آپ ہمیں اس کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی ؓ کے پاس واپس آئے تو ہم نے آپ کو (دورانِ نماز میں) سلام کہا تو آپ نے جواب نہ دیا اور فرمایا: ’’بلاشبہ نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔‘‘ ہریم بن سفیان نے بھی عبداللہ بن مسعود ؓ کی اس روایت کو اسی طرح بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم پہلے آپ کو سلام کہتے تھے تو آپ اس کا جواب دیا کرتے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔‘‘(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3875) ابوداود کی روایت میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے نیا حکم دے دیتا ہے۔ اب اس نے نیا حکم دیا ہے کہ دوران نماز میں کلام مت کرو۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:924) (2) مسند ابی یعلیٰ میں ہے: ’’جب تم نماز میں ہو تو فرماں بردار رہو اور کلام نہ کرو۔‘‘(مسند أبي یعلیٰ:384/3) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حبشہ سے ہجرت کر کے واپس مدینہ آئے تھے۔ ابتدائے اسلام میں دوران نماز گفتگو کرنا جائز تھا اور سلام وغیرہ کا جواب بھی دیا جاتا تھا، بالآخر آخری حکم نازل ہوا کہ دوران نماز سلام و کلام منع کر دیا گیا اور اشارے سے سلام کا جواب دینے کا کہا گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1169
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1199
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1199
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1199
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کو سلام کہتے جبکہ آپ نماز میں ہوتے تھے، تو آپ ہمیں اس کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی ؓ کے پاس واپس آئے تو ہم نے آپ کو (دورانِ نماز میں) سلام کہا تو آپ نے جواب نہ دیا اور فرمایا: ’’بلاشبہ نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔‘‘ ہریم بن سفیان نے بھی عبداللہ بن مسعود ؓ کی اس روایت کو اسی طرح بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم پہلے آپ کو سلام کہتے تھے تو آپ اس کا جواب دیا کرتے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔‘‘(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3875) ابوداود کی روایت میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے نیا حکم دے دیتا ہے۔ اب اس نے نیا حکم دیا ہے کہ دوران نماز میں کلام مت کرو۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:924) (2) مسند ابی یعلیٰ میں ہے: ’’جب تم نماز میں ہو تو فرماں بردار رہو اور کلام نہ کرو۔‘‘(مسند أبي یعلیٰ:384/3) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حبشہ سے ہجرت کر کے واپس مدینہ آئے تھے۔ ابتدائے اسلام میں دوران نماز گفتگو کرنا جائز تھا اور سلام وغیرہ کا جواب بھی دیا جاتا تھا، بالآخر آخری حکم نازل ہوا کہ دوران نماز سلام و کلام منع کر دیا گیا اور اشارے سے سلام کا جواب دینے کا کہا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ (پہلے) نبی کریم ﷺ نماز پڑھتے ہوتے اور ہم سلام کرتے تو آپ اس کا جواب دیتے تھے۔ جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس ہوئے تو ہم نے (پہلے کی طرح نماز ہی میں) سلام کیا۔ لیکن اس وقت آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا بلکہ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ نماز میں آدمی کو فرصت کہاں۔ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، ان سے ہریم بن سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے پھر ایسی ہی روایت بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتدائے اسلام میں حبشہ میں جا کر پناہ لی تھی اور نجاشی شاہ حبشہ نے جن کو بڑی عقیدت سے اپنے ہاں جگہ دی تھی۔ اسلام کا بالکل ابتدائی دورتھا، اس وقت نماز میں باہمی کلام جائز تھا بعد میں جب وہ حبشہ سے لوٹے تو نماز میں باہمی کلام کرنے کی ممانعت ہوچکی تھی۔ آنحضرت ﷺ کے آخری جملہ کا مفہوم یہ کہ نماز میں تو آدمی حق تعالی کی یاد میں مشغول ہوتا ہے ادھر دل لگارہتا ہے اس لیے یہ لوگوں سے بات چیت کا موقع نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): We used to greet the Prophet (ﷺ) while he was praying and he used to answer our greetings. When we returned from AnNajashi (the ruler of Ethiopia), we greeted him, but he did not answer us (during the prayer) and (after finishing the prayer) he said, "In the prayer one is occupied (with a more serious matter)." ________