باب: نماز میں مردوں کا سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنا
)
Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: The saying of Subhan Allah and Al-handulillah during As-Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1201.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو حضرت بلال ؓ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: نبی ﷺ کسی وجہ سے تشریف نہیں لا سکے، لہذا آپ لوگوں کی امامت کریں۔ انہوں نے فرمایا: ہاں! اگر تم چاہو تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ نے تکبیر کہی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ آگے بڑھ کر نماز پڑھانے لگے۔ اچانک نبی ﷺ دوسری صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں، حضرت سہل ؓ نے فرمایا: جانتے ہو تصفیح کیا ہے؟ تصفیح تالیاں بجانا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ دوران نماز میں بالکل ادھر ادھر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں پیٹنا شروع کیں تو متوجہ ہوئے، دیکھتے ہیں کہ نبی ﷺ صف میں کھڑے ہیں۔ آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر الحمدلله کہا، پھر الٹے پاؤں پیچھے ہوئے۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔
تشریح:
(1) نماز کا اول وقت نکلنے کے خدشے اور امام کی عدم دستیابی کے پیش نظر مقتدیوں میں سے صاحب علم و فضل آدمی جماعت کروا سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا عمل موجود ہے۔ (2) ’’حضرت ابوبکر دوران نماز میں ادھر ادھر بالکل نہیں دیکھتے تھے‘‘ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز کامل توجہ اور حضور قلب سے پڑھنی چاہیے۔ (3) اس روایت میں دورانِ نماز صرف الحمدللہ کہنے کا ذکر ہے، سبحان اللہ کہنا اگرچہ اس روایت میں نہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے خود ہی اس روایت کو دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا، جب تمہیں نماز میں کوئی ماجرا پیش آتا ہے تو تالیاں بجانا شروع کر دیتے ہو، یہ کام تو صرف عورتوں کے لیے ہے، لہذا جس کسی کو دوران نماز میں کوئی ماجرا پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے۔‘‘(صحیح البخاري، العمل في الصلاة، حدیث:1218) اس روایت سے دوران نماز میں سبحان اللہ کہنے کا جواز معلوم ہوا۔ ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی اگرچہ سبحان اللہ کہنے سے دوسروں کو متوجہ کرنا مقصود ہو۔ (4) اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں کو تالی بجانی چاہیے، جیسا کہ امام بخاری ؒ خود اس کے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کریں گے۔ (فتح الباري:90/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1171
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1201
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1201
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1201
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو حضرت بلال ؓ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: نبی ﷺ کسی وجہ سے تشریف نہیں لا سکے، لہذا آپ لوگوں کی امامت کریں۔ انہوں نے فرمایا: ہاں! اگر تم چاہو تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ نے تکبیر کہی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ آگے بڑھ کر نماز پڑھانے لگے۔ اچانک نبی ﷺ دوسری صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں، حضرت سہل ؓ نے فرمایا: جانتے ہو تصفیح کیا ہے؟ تصفیح تالیاں بجانا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ دوران نماز میں بالکل ادھر ادھر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں پیٹنا شروع کیں تو متوجہ ہوئے، دیکھتے ہیں کہ نبی ﷺ صف میں کھڑے ہیں۔ آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر الحمدلله کہا، پھر الٹے پاؤں پیچھے ہوئے۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) نماز کا اول وقت نکلنے کے خدشے اور امام کی عدم دستیابی کے پیش نظر مقتدیوں میں سے صاحب علم و فضل آدمی جماعت کروا سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا عمل موجود ہے۔ (2) ’’حضرت ابوبکر دوران نماز میں ادھر ادھر بالکل نہیں دیکھتے تھے‘‘ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز کامل توجہ اور حضور قلب سے پڑھنی چاہیے۔ (3) اس روایت میں دورانِ نماز صرف الحمدللہ کہنے کا ذکر ہے، سبحان اللہ کہنا اگرچہ اس روایت میں نہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے خود ہی اس روایت کو دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا، جب تمہیں نماز میں کوئی ماجرا پیش آتا ہے تو تالیاں بجانا شروع کر دیتے ہو، یہ کام تو صرف عورتوں کے لیے ہے، لہذا جس کسی کو دوران نماز میں کوئی ماجرا پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے۔‘‘(صحیح البخاري، العمل في الصلاة، حدیث:1218) اس روایت سے دوران نماز میں سبحان اللہ کہنے کا جواز معلوم ہوا۔ ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی اگرچہ سبحان اللہ کہنے سے دوسروں کو متوجہ کرنا مقصود ہو۔ (4) اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں کو تالی بجانی چاہیے، جیسا کہ امام بخاری ؒ خود اس کے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کریں گے۔ (فتح الباري:90/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ ابو حازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد ؓ نے نبی کریم ﷺ بنو عمروبن عوف (قبا) کے لوگوں میں ملاپ کرنے تشریف لائے، اور جب نماز کا وقت ہوگیا تو بلال ؓ نے ابو بکر صدیق ؓ سے کہا کہ نبی کریم ﷺ تو اب تک نہیں تشریف لائے اس لیے اب آپ نماز پڑھائیے۔ انہوں نے فرمایا اچھا اگر تمہاری خواہش ہے تو میں پڑھا دیتا ہوں۔ خیر بلال ؓ نے تکبیر کہی۔ ابو بکر ؓ آگے بڑھے اور نماز شروع کی۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ تشریف لے آئے اور آپ صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف تک پہنچ گئے۔ لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ بجانا شروع کیا۔ (سہل نے) کہا کہ جانتے ہو تصفیح کیا ہے یعنی تالیاں بجانا اور ابو بکر ؓ نماز میں کسی طرف بھی دھیان نہیں کیا کرتے تھے، لیکن جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ صف میں موجود ہیں۔ آنحضور ﷺ نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ اس پر ابو بکر ؓ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کاشکر کیا اور الٹے پاؤں پیچھے آگئے اور نبی کریم ﷺ آگے بڑھ گئے۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے کیونکہ اس میں سبحان اللہ کہنے کا ذکر نہیں اور شاید حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جو اوپر گزر چکا ہے اور اس میں صاف یوں ہے کہ تم نے تالیاں بہت بجائیں نماز میں کوئی واقعہ ہو تو سبحان اللہ کہا کرو تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔ اب رہا الحمد للہ کہنا تو وہ حضرت ابو بکر ؓ کے اس فعل سے نکلتا ہے کہ انہوں نے نماز میں دونوں ہاتھ اٹھا کراللہ کا شکر کیا، بعضوں نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے تسبیح کو تحمید پر قیاس کیا تو یہ روایت بھی ترجمہ باب کے مطابق ہوگئی (وحیدي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): The Prophet (ﷺ) went out to affect a reconciliation between the tribes of Bani 'Amr bin 'Auf and the time of the prayer became due; Bilal (RA) went to Abu Bakr (RA) and said, "The Prophet (ﷺ) is detained. Will you lead the people in the prayer?" Abu Bakr (RA) replied, "Yes, if you wish." So Bilal (RA) pronounced the Iqama and Abu Bakr (RA) led the prayer. In the meantime the Prophet (ﷺ) came crossing the rows (of the praying people) till he stood in the first row and the people started clapping. Abu Bakr (RA) never looked hither and thither during the prayer but when the people clapped too much, he looked back and saw the Prophet (ﷺ) in the (first) row. The Prophet (ﷺ) waved him to remain at his place, but Abu Bakr (RA) raised both his hands and sent praises to Allah and then retreated and the Prophet (ﷺ) went forward and led the prayer. (See Hadith No. 295 & 296) ________