باب: نماز میں نام لے کر دعا یا بددعا کرنا یا کسی کو سلام کرنا بغیر اس کے مخاطب کئے اور نمازی کو معلوم نہ ہو کہ اس سے نماز میں خلل آتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: Whoever named some people or greeted somebody during As-Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1202.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ نماز میں سلام کرتے اور ایک دوسرے کا نام لیتے تھے، علاوہ ازیں ایک شخص دوسرے کو سلام بھی کہہ لیتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: ’’اس طرح کہا کرو: ’’ہر قسم کی زبانی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلام ہو، اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں آپ پر نازل ہوں۔ ہم پر سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نیز گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ جب تم نے یہ پڑھ لیا تو یقینا تم نے اللہ کے ان تمام نیک بندوں کو سلام پہنچا دیا جو زمین و آسمان میں ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو یوں کہا کرتے تھے کہ حضرت جبریل اور حضرت میکائیل پر سلامتی ہو، فلاں اور فلاں پر سلامتی ہو، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تو سراپا سلام ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ پڑھے: (التحيات لله، والصلوات ۔۔۔)(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:831) ایک روایت میں ہے کہ ہم اس طرح کہتے تھے: اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلامتی ہو، اس پر رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:835) (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دوران نماز کسی کا نام لینے یا کسی کو سلام کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، لیکن امام بخاری نے نماز کے جواز یا بطلان کی صراحت نہیں کی۔ انہوں نے معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے اس پر صریح حکم نہیں لگایا۔ (فتح الباري:100/3) ہمارے نزدیک اگر کوئی شخص ناواقفی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو اس کی نماز باطل نہیں ہو گی لیکن دیدہ دانستہ ایسا کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ صحابۂ کرام ؓ تو ایسا اس لیے کرتے تھے کہ پہلے ایسا کرنا مشروع اور ثابت تھا، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا اور التحیات پڑھنے کا حکم دیا تو اس کا جواز ختم ہو گیا، لہذا اب کسی کو اجازت نہیں کہ وہ کسی کا نام لے کر دوران نماز میں سلام کہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1172
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1202
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1202
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1202
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح نام لینے یا سلام کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ دوران نماز میں، نمازی السلام عليك ايها النبي کہتا ہے لیکن نمازی آپ کو مخاطب نہیں کرتا اور نہ براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اس کی خبر ہوتی ہے جب تک فرشتے آپ کو آگاہ نہیں کرتے۔ تو ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی صراحت نہیں کی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ نماز میں سلام کرتے اور ایک دوسرے کا نام لیتے تھے، علاوہ ازیں ایک شخص دوسرے کو سلام بھی کہہ لیتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: ’’اس طرح کہا کرو: ’’ہر قسم کی زبانی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلام ہو، اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں آپ پر نازل ہوں۔ ہم پر سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نیز گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ جب تم نے یہ پڑھ لیا تو یقینا تم نے اللہ کے ان تمام نیک بندوں کو سلام پہنچا دیا جو زمین و آسمان میں ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو یوں کہا کرتے تھے کہ حضرت جبریل اور حضرت میکائیل پر سلامتی ہو، فلاں اور فلاں پر سلامتی ہو، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تو سراپا سلام ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ پڑھے: (التحيات لله، والصلوات ۔۔۔)(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:831) ایک روایت میں ہے کہ ہم اس طرح کہتے تھے: اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلامتی ہو، اس پر رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:835) (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دوران نماز کسی کا نام لینے یا کسی کو سلام کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، لیکن امام بخاری نے نماز کے جواز یا بطلان کی صراحت نہیں کی۔ انہوں نے معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے اس پر صریح حکم نہیں لگایا۔ (فتح الباري:100/3) ہمارے نزدیک اگر کوئی شخص ناواقفی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو اس کی نماز باطل نہیں ہو گی لیکن دیدہ دانستہ ایسا کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ صحابۂ کرام ؓ تو ایسا اس لیے کرتے تھے کہ پہلے ایسا کرنا مشروع اور ثابت تھا، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا اور التحیات پڑھنے کا حکم دیا تو اس کا جواز ختم ہو گیا، لہذا اب کسی کو اجازت نہیں کہ وہ کسی کا نام لے کر دوران نماز میں سلام کہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن عیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعبد الصمد العمی عبد العزیز بن عبد الصمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حصین بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ ہم پہلے نماز میں یوں کہا کرتے تھے فلاں پر سلام اور نام لیتے تھے۔ اور آپس میں ایک شخص دوسرے کو سلام کر لیتا۔ نبی کریم ﷺ نے سن کر فرمایا اس طرح کہا کرو۔ ( ترجمہ ) ’’یعنی ساری تحیات، بندگیاں اور کوششیں اور اچھی باتیں خاص اللہ ہی کے لیے ہیں اور اے نبی! آپ پر سلام ہو، اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔ ہم پر سلام ہو اور اللہ کے سب نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ اگر تم نے یہ پڑھ لیا تو گویا اللہ کے ان تمام صالح بندوں پر سلام پہنچا دیا جو آسمان اور زمین میں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ہے لفظ التحیات سے مراد زبان سے کی جانے والی عبادات اورلفظ صلوات سے مراد بدن سے کی جانے والی عبادات اور طیبات سے مراد مال حلال سے کی جانے والی عبادات، یہ سب خاص اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ان میں سے جو ذرہ برابر بھی کسی غیر کے لیے کرے گا وہ عند اللہ شرک ٹھہرے گا۔ لفظ نبوی قولوا الخ سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ کیونکہ اس وقت تک عبد اللہ بن مسعود ؓ کو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا کہ نماز میں اس طرح سلام کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان کو نماز لوٹانے کاحکم نہیں فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Masud (RA): We used to say the greeting, name and greet each other in the prayer. Allah's Apostle (ﷺ) heard it and said:--"Say, 'At-tahiyyatu lil-lahi was-salawatu wat-taiyibatu . Assalamu 'Alaika aiyuha-n-Nabiyu wa-rahmatu-l-lahi wa-barakatuhu. _ Assalamu alaina wa-'ala 'ibadi-l-lahi as-salihin.. Ashhadu an la ilaha illa-l-lah wa ashhadu anna Muhammadan 'abdu hu wa Rasuluh. (All the compliments are for Allah and all the prayers and all the good things (are for Allah). Peace be on you, O Prophet, and Allah's mercy and blessings (are on you). And peace be on us and on the good (pious) worshipers of Allah. I testify that none has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is His slave and Apostle.) So, when you have said this, then you have surely sent the greetings to every good (pious) worship per of Allah, whether he be in the Heaven or on the Earth . " ________