Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: Spreading the clothes over the site of prostration)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1208.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم سخت گرمی میں نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے۔ جب ہم میں سے کسی کو زمین پر اپنا چہرہ رکھنے کی ہمت نہ ہوتی تو زمین پر اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کر لیتا تھا۔
تشریح:
(1) ابتدائی طور پر مسجد نبوی ایک چھپر کی شکل میں تھی جس میں بارش اور دھوپ کا پورا اثر ہوا کرتا تھا، اس لیے صحابۂ کرام ؓ سخت گرمی کے دنوں میں دوران نماز سجدہ کرتے وقت اپنا کپڑا زمین پر بچھا لیتے اور اس پر سجدہ کرتے تھے۔ اب بھی کہیں ایسا موقع ہو تو کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرنا جائز ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کپڑا جسم پر پہن رکھا ہو یا الگ سے کوئی کپڑا ہو۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کا قلیل عمل نماز پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ (فتح الباري:103/3) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا تھا: (باب السجود على الثوب في شدة الحر)’’سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا۔‘‘ وہاں ہم نے اس کے متعلق تفصیل سے گفتگو کی تھی۔ (فتح الباري:104/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1178
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1208
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1208
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1208
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم سخت گرمی میں نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے۔ جب ہم میں سے کسی کو زمین پر اپنا چہرہ رکھنے کی ہمت نہ ہوتی تو زمین پر اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کر لیتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ابتدائی طور پر مسجد نبوی ایک چھپر کی شکل میں تھی جس میں بارش اور دھوپ کا پورا اثر ہوا کرتا تھا، اس لیے صحابۂ کرام ؓ سخت گرمی کے دنوں میں دوران نماز سجدہ کرتے وقت اپنا کپڑا زمین پر بچھا لیتے اور اس پر سجدہ کرتے تھے۔ اب بھی کہیں ایسا موقع ہو تو کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرنا جائز ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کپڑا جسم پر پہن رکھا ہو یا الگ سے کوئی کپڑا ہو۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کا قلیل عمل نماز پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ (فتح الباري:103/3) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا تھا: (باب السجود على الثوب في شدة الحر)’’سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا۔‘‘ وہاں ہم نے اس کے متعلق تفصیل سے گفتگو کی تھی۔ (فتح الباري:104/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غالب بن قطان نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبد اللہ مزنی نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ ہم سخت گرمیوں میں جب نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے اور چہرے کو زمین پر پوری طرح رکھنا مشکل ہوجاتا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
مسجد نبوی ابتداء میں ایک معمولی چھپر کی شکل میں تھی۔ جس میں بارش اور دھوپ کا پورا اثر ہو اکرتا تھا۔ اس لیے شدت گرما میں صحابہ کرام ؓ ایسا کر لیا کرتے تھے۔ اب بھی کہیں ایسا ہی موقع ہو تو ایسا کر لینا درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): We used to pray with the Prophet (ﷺ) in scorching heat, and if someone of us could not put his face on the earth (because of the heat) then he would spread his clothes and prostrate over them. ________