باب: اس بارے میں کہ نماز میں تھوکنا اور پھونک مارنا کہاں تک جائز ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: Blowing and splitting while in As-Salat (the Prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور عبداللہ بن عمرو ؓ سے گرہن کی حدیث میں منقول ہے کہ` نبی کریم ﷺنے گرہن کی نماز میں سجدے میں پھونک ماری۔
1213.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبلہ مسجد میں بلغم (لگا ہوا) دیکھا تو اہل مسجد پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہوتا ہے جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو، لہذا تم اپنے سامنے ہرگز نہ تھوکو یا فرمایا: بلغم نہ پھینکو۔‘‘ پھر آپ منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے اسے کھرچ دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: تم میں سے جب کوئی تھوکے تو اپنی بائیں جانب تھوک لے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1183
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1213
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1213
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1213
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز گرہن پڑھتے وقت سجدے کی حالت میں زمین پر پھونک مارتے اور گریہ زاری کرتے تھے۔ (مسنداحمد:2/159) سنن ابی داود میں پھونک مارنے کی کیفیت "اف اف" سے بیان کی گئی ہے۔ (سنن ابی داؤد،صلاۃالاستسقاء،حدیث:1194)
´اور عبداللہ بن عمرو ؓ سے گرہن کی حدیث میں منقول ہے کہ` نبی کریم ﷺنے گرہن کی نماز میں سجدے میں پھونک ماری۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبلہ مسجد میں بلغم (لگا ہوا) دیکھا تو اہل مسجد پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہوتا ہے جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو، لہذا تم اپنے سامنے ہرگز نہ تھوکو یا فرمایا: بلغم نہ پھینکو۔‘‘ پھر آپ منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے اسے کھرچ دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: تم میں سے جب کوئی تھوکے تو اپنی بائیں جانب تھوک لے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے بیان کیا جاتا ہے کہ نبی ﷺ نے نماز گرہن پڑھتے وقت بحالت سجدہ پھونک ماری۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ مسجد میں قبلہ کی طرف رینٹ دیکھی۔ آپ مسجد میں موجود لوگوں پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالی تمہارے سامنے ہے اس لیے نماز میں تھوکانہ کرو، یا یہ فرمایا کہ رینٹ نہ نکالا کرو۔ پھرآپ اترے اور خودہی اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا۔ ابن عمر ؓ نے کہا کہ جب کسی کو تھوکنا ہی ضروری ہو تو اپنی بائیں طرف تھوک لے۔
حدیث حاشیہ:
اس سے یہ معلوم ہوا کہ برے کام کو دیکھ کر تمام جماعت پر ناراض ہونا جائز ہے تاکہ سب کو تنبیہ ہو اورآئندہ کے لیے اس کا لحاظ رکھیں۔ نما ز میں قبلہ کی طرف تھوکنے سے منع فرمایا۔ نہ کہ مطلق تھوک ڈالنے سے بلکہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت فرمائی جیسا کہ اگلی حدیث میں مذکور ہے۔ جب تھوک مسجد میں پختہ فرش ہونے کی وجہ سے دفن نہ ہو سکے تو رومال میں تھوکنا چاہیے۔ پھونک مارنا بھی کسی شدید ضرورت کے تحت جائز ہے بلا ضرورت پھونک مارنا نماز میں خشوع کے خلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) saw some sputum on the wall facing the Qibla of the mosque and became furious with the people of the mosque and said, "During the prayer, Allah is in front of everyone of you and so he should not spit (or said, 'He should not expectorate')." Then he got down and scratched the sputum with his hand. Ibn 'Umar (RA) said (after narrating), "If anyone of you has to spit during the prayer, he should spit to his left." ________