باب: نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: To raise the hands in Salat because of necessity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1218.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ قباء میں قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ چند صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کو کچھ رکنا پڑا۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو حضرت بلال ؓ سیدنا ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: اے ابوبکر! رسول اللہ ﷺ کو کچھ دیر ہو گئی ہے اور نماز کا وقت ہو چکا ہے، کیا آپ لوگوں کی امامت کا فریضہ سر انجام دیں گے؟حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اگر آپ چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ اقامت کہی اور حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے اور لوگوں نے اللہ أکبر کہہ کر نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالی بجانا شروع کر دی ۔۔ راوی حدیث حضرت سہل ؓ کہتے ہیں: تصفيح کے معنی تالی بجانا ہیں ۔۔ حضرت ابوبکر ؓ نماز میں ادھر ادھر بالکل نہیں دیکھا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے بکثرت تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے ہاتھ اٹھائے اور اللہ کی تعریف کی اور الٹے پاؤں پیچھے ہٹے یہاں تک کہ آپ صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں نماز میں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو تالی بجانا شروع کر دیتے ہو؟ تالی بجانا تو عورتوں کا کام ہے۔ جسے نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہئے۔‘‘ پھر آپ حضرت ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’ابوبکر! آپ کو نماز پڑھانے سے کس چیز نے روکا جبکہ میں نے آپ کو اشارہ بھی کیا تھا؟‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھائے۔
تشریح:
(1) دوران نماز میں ہاتھ اٹھانے کے متعدد واقعات ہیں۔ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دوسری رکعت سے فراغت کے بعد کھڑے ہوتے وقت ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں، نیز قنوت نازلہ میں بھی رکوع کے بعد ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے ان مواقع کے علاوہ اپنے ہاتھ اٹھائے تھے۔ واضح رہے کہ آپ نے معذرت خواہی کے طور پر ایسا نہیں کیا تھا۔ جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اس اعزاز دینے پر کہ آپ نے اپنی موجودگی میں انہیں نماز پڑھانے کا اشارہ فرمایا، انہوں نے اللہ کی حمد وثنا کی اور ہاتھ اٹھا کر اس ذات عالی کا شکر ادا کیا۔ (2) امام بخاری نے اس سے ایک مسئلہ استنباط کیا کہ دوران نماز کسی پیش آمدہ حادثے کی بنا پر ہاتھ اٹھانے جائز ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے دوران نماز میں ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے اس عمل کو برقرار رکھا۔ لہٰذا ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1188
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1218
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1218
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1218
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ قباء میں قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ چند صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کو کچھ رکنا پڑا۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو حضرت بلال ؓ سیدنا ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: اے ابوبکر! رسول اللہ ﷺ کو کچھ دیر ہو گئی ہے اور نماز کا وقت ہو چکا ہے، کیا آپ لوگوں کی امامت کا فریضہ سر انجام دیں گے؟حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اگر آپ چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ اقامت کہی اور حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے اور لوگوں نے اللہ أکبر کہہ کر نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالی بجانا شروع کر دی ۔۔ راوی حدیث حضرت سہل ؓ کہتے ہیں: تصفيح کے معنی تالی بجانا ہیں ۔۔ حضرت ابوبکر ؓ نماز میں ادھر ادھر بالکل نہیں دیکھا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے بکثرت تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے ہاتھ اٹھائے اور اللہ کی تعریف کی اور الٹے پاؤں پیچھے ہٹے یہاں تک کہ آپ صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں نماز میں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو تالی بجانا شروع کر دیتے ہو؟ تالی بجانا تو عورتوں کا کام ہے۔ جسے نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہئے۔‘‘ پھر آپ حضرت ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’ابوبکر! آپ کو نماز پڑھانے سے کس چیز نے روکا جبکہ میں نے آپ کو اشارہ بھی کیا تھا؟‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) دوران نماز میں ہاتھ اٹھانے کے متعدد واقعات ہیں۔ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دوسری رکعت سے فراغت کے بعد کھڑے ہوتے وقت ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں، نیز قنوت نازلہ میں بھی رکوع کے بعد ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے ان مواقع کے علاوہ اپنے ہاتھ اٹھائے تھے۔ واضح رہے کہ آپ نے معذرت خواہی کے طور پر ایسا نہیں کیا تھا۔ جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اس اعزاز دینے پر کہ آپ نے اپنی موجودگی میں انہیں نماز پڑھانے کا اشارہ فرمایا، انہوں نے اللہ کی حمد وثنا کی اور ہاتھ اٹھا کر اس ذات عالی کا شکر ادا کیا۔ (2) امام بخاری نے اس سے ایک مسئلہ استنباط کیا کہ دوران نماز کسی پیش آمدہ حادثے کی بنا پر ہاتھ اٹھانے جائز ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے دوران نماز میں ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے اس عمل کو برقرار رکھا۔ لہٰذا ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدا لعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابو حازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ قباءکے قبیلہ بنو عمروبن عوف میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہے۔ اس لیے آپ کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان میں ملاپ کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ ﷺ صلح صفائی کے لیے ٹھہر گئے۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا تو بلال ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نہیں آئے اور نماز کا وقت ہو گیا، تو کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اگر تم چاہتے ہوتوپڑھا دوں گا۔ چنانچہ بلال ؓ نے تکبیر کہی اور ابو بکر نے آگے بڑھ کر نیت باندھ لی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے آئے اور صفوں سے گزر تے ہوئے آپ پہلی صف میں آکھڑے ہوئے، لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنے شروع کر دیئے۔ ( سہل نے کہا کہ تصفیح کے معنی تصفیق کے ہیں ) آپ نے بیان کیا کہ ابو بکر ؓ ن زمیں کسی طرف متوجہ نہیںہوتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے بہت دستکیں دیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے اشارہ سے ابو بکر کو نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ اس پر ابو بکر ؓ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور پھر الٹے پاؤں پیچھے کی طرف چلے آئے اور صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! یہ کیا بات ہے کہ جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو۔ یہ مسئلہ تو عورتوں کے لیے ہے۔ تمہیں اگر نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو سبحان اللہ کہا کرو۔ اس کے بعد ابو بکر ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فر یا کہ ابوبکر!میرے کہنے کے باوجود تم نے نمازکیوں نہیں پڑھائی؟ ابو بکر ؓ نے عرض کیا کہ ابو قحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو بکر ؓ نے رب کے سامنے ہاتھوں کو اٹھا کر الحمد للہ کہا۔ اس میں کچھ ہرج ہوتا تو آپ ضرور منع فرمادیتے اور اس سے حدیث کی مناسبت باب سے ظاہر ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): The news about the differences amongst the people of Bani 'Amr bin 'Auf at Quba reached Allah's Apostle (ﷺ) and so he went to them along with some of his companions to affect a reconciliation. Allah's Apostle (ﷺ) was delayed there and the time for the prayer became due. Bilal (RA) came to Abu Bakr! and said, "O Abu Bakr! Allah's Apostle (ﷺ) is detained (there) and the time for the prayer is due. Will you lead the people in prayer?" Abu Bakr (RA) replied, "Yes, if you wish." So Bilal (RA) pronounced the Iqama and Abu Bakr (RA) went forward and the people said Takbir. In the meantime, Allah's Apostle (ﷺ) came piercing through the rows till he stood in the (first) row and the people started clapping. Abu Bakr, would never look hither and thither during the prayer but when the people clapped much he looked back and saw Allah's Apostle. The Prophet (ﷺ) beckoned him to carry on. Abu Bakr (RA) raised both his hands, praised Allah and retreated till he stood in the row and Allah's Apostle (ﷺ) went forward and led the people in the prayer. When he had finished the prayer, he addressed the people and said, "O people! Why did you start clapping when something happened to you in the prayer? Clapping is for women. Whenever one is confronted with something unusual in the prayer one should say, 'Sub Han Allah'." Then the Prophet (ﷺ) looked towards Abu Bakr (RA) and asked, "What prevented you from leading the prayer when I beckoned you to carry on?" Abu Bakr (RA) replied, "It does not befit the son of Al Quhafa to lead the prayer in the presence of Allah's Apostle (ﷺ) ________