Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: Thinking of something during As-Salat (the prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عمر ؓنے کہا کہ` میں نماز پڑھتا رہتا ہوں اور نماز ہی میں جہاد کے لیے اپنی فوج کا سامان کیا کرتا ہوں۔
1223.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگ اکثر چرچا کرتے ہیں کہ ابوہریرہ بکثرت احادیث بیان کرتے ہیں۔ میں ایک شخص سے ملا اور اس سے دریافت کیا: گزشتہ رات رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء میں کیا پڑھا تھا؟ اس نے کہا: مجھے تو معلوم نہیں ہے۔ میں نے کہا: کیا تم نماز میں موجود نہیں تھے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں! میں نے کہا: لیکن میں تو جانتا ہوں کہ آپ نے فلاں فلاں سورت پڑھی تھی۔
تشریح:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ وہ شخص دوران نماز دنیاوی سوچ بچار میں مصروف رہا، اس بنا پر وہ رسول اللہ ﷺ کی قراءت کو ضبط نہ کر سکا۔ ایسا کرنے سے خشوع خضوع میں کمی تو آ جاتی ہے لیکن نماز کا بطلان نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس حضرت ابو ہریرہ ؓ دوران نماز میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت کے متعلق غوروفکر کرتے رہے، اس لیے انہوں نے ان سورتوں کو یاد رکھا جو رسول اللہ ﷺ نے گزشتہ شب نماز میں پڑھی تھیں۔ (فتح الباري:119/3) بہرحال دوران نماز تفکرات آنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو دوسروں سے زیادہ ضبط و اتقان تھا۔ (3) حضرت ابو ہریرہ ؓ پر اعتراض رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بعد ہوا۔ اس اعتراض کا جواب انہوں نے اپنے ایک قصے سے استدلال کرتے ہوئے دیا جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پیش آیا تھا، یعنی مجھے رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال کی فکر رہتی تھی، میں ان میں غوروخوض کرتا جبکہ باقی لوگ اپنی کھیتی باڑی اور کاروبار میں مصروف رہتے۔ (4) بہرحال امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچ بچار کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، کیونکہ خیالات و تفکرات ایسی چیز ہیں جن پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، لیکن خیالات کی نوعیت کا فرق ضرور ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ دوران نماز اگر امور آخرت کے متعلق خیالات آئیں تو وہ دنیاوی امور کی نسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1193
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1223
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1223
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1223
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
تمہید باب
اس اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:2/198(طبع دارالکتب العلمیۃ)) واضح رہے کہ دوران نماز انسانی عقل و حرکت کی دو اقسام ہیں: ایک جسمانی، دوسری ذہنی۔ اگر یہ نقل و حرکت نماز سے متعلق ہے تو وہ عین مطلوب ہے جیسا کہ رکوع و سجود کرنا اور نماز پڑھتے وقت خشوع خضوع کو برقرار رکھنا۔ نماز کے منافی حرکات کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ وہ جسمانی ہوں یا ذہنی، البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر کوئی کام یا عمل یا غوروفکر کیا جائے جو نماز سے غیر متعلق ہے لیکن نماز کے منافی نہیں تو اسے شریعت نے کسی حد تک گوارا کیا ہے جیسا کہ قبل ازیں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اب امام بخاری رحمہ اللہ نے ذہنی نقل و حرکت کو بیان کیا ہے لیکن اس کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ دوران نماز غیر متعلق اشیاء پر اس قدر غوروخوض نہ ہو کہ سوچ بچار کرتے کرتے نماز کا کوئی رکن ہی چھوٹ جائے۔ اگر ایسی صورت حال ہو تو نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت میں ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے نماز مغرب پڑھائی تو اس میں قراءت نہ کی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے صورت حال سے آگاہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی تو آپ نے نماز دوبارہ پڑھائی اور اس میں قراءت فرمائی اور کہا: جس نماز میں قراءت نہ ہو وہ سرے سے منعقد نہیں ہوتی، دراصل میں دوران نماز لشکر کی تیاری میں مصروف ہو گیا جسے میں نے شام روانہ کرنا تھا۔ (فتح الباری:3/117)
اور عمر ؓنے کہا کہ` میں نماز پڑھتا رہتا ہوں اور نماز ہی میں جہاد کے لیے اپنی فوج کا سامان کیا کرتا ہوں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگ اکثر چرچا کرتے ہیں کہ ابوہریرہ بکثرت احادیث بیان کرتے ہیں۔ میں ایک شخص سے ملا اور اس سے دریافت کیا: گزشتہ رات رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء میں کیا پڑھا تھا؟ اس نے کہا: مجھے تو معلوم نہیں ہے۔ میں نے کہا: کیا تم نماز میں موجود نہیں تھے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں! میں نے کہا: لیکن میں تو جانتا ہوں کہ آپ نے فلاں فلاں سورت پڑھی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ وہ شخص دوران نماز دنیاوی سوچ بچار میں مصروف رہا، اس بنا پر وہ رسول اللہ ﷺ کی قراءت کو ضبط نہ کر سکا۔ ایسا کرنے سے خشوع خضوع میں کمی تو آ جاتی ہے لیکن نماز کا بطلان نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس حضرت ابو ہریرہ ؓ دوران نماز میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت کے متعلق غوروفکر کرتے رہے، اس لیے انہوں نے ان سورتوں کو یاد رکھا جو رسول اللہ ﷺ نے گزشتہ شب نماز میں پڑھی تھیں۔ (فتح الباري:119/3) بہرحال دوران نماز تفکرات آنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو دوسروں سے زیادہ ضبط و اتقان تھا۔ (3) حضرت ابو ہریرہ ؓ پر اعتراض رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بعد ہوا۔ اس اعتراض کا جواب انہوں نے اپنے ایک قصے سے استدلال کرتے ہوئے دیا جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پیش آیا تھا، یعنی مجھے رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال کی فکر رہتی تھی، میں ان میں غوروخوض کرتا جبکہ باقی لوگ اپنی کھیتی باڑی اور کاروبار میں مصروف رہتے۔ (4) بہرحال امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچ بچار کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، کیونکہ خیالات و تفکرات ایسی چیز ہیں جن پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، لیکن خیالات کی نوعیت کا فرق ضرور ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ دوران نماز اگر امور آخرت کے متعلق خیالات آئیں تو وہ دنیاوی امور کی نسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں (بعض دفعہ) دوران نماز میں جہاد کے لیے لشکر کو تیار کرتا رہتا ہوں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے کہاکہ مجھے ابن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے کہ ابو ہریرہ ؓ نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے (اور حال یہ ہے کہ) میں ایک شخص سے ایک مرتبہ ملا اور اس سے میں نے (بطور امتحان) دریافت کیا کہ گزشتہ رات نبی کریم ﷺ نے عشاء میں کون کون سی سورتیں پڑھی تھیں؟ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم۔ میں نے پوچھا کہ تم نماز میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں شریک تھا۔ میں نے کہا لیکن مجھے تو یاد ہے کہ آپ ﷺ نے فلاں فلاں سورتیں پڑھی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں ابوہریرہ ؓ نے اس کی وجہ بتائی ہے کہ میں احادیث دوسرے بہت سے صحابہ کے مقابلے میں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ ﷺ کی باتوں کو اور دوسرے اعمال کو یاد رکھنے کی کوشش دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کرتا تھا۔ ایک روایت میں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں ہر وقت آنحضور ﷺ کےساتھ رہتا تھا، میرے اہل وعیال نہیں تھے، کھانے کمانے کی فکر نہیں تھی صفہ میں رہنے والے غریب صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں دن گزرتا تھا اور آنحضورﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔اس لیے میں نے احادیث آپ سے زیادہ سنیں اور چونکہ محفوظ بھی رکھیں اس لیے انہیں بیان کرتا ہوں۔ یہ حدیث کتاب العلم میں پہلے بھی آچکی ہے۔ وہیں اس کی بحث کا موقع بھی تھا۔ ان احادیث کو امام بخاری ؒ نے ایک خاص عنوان کے تحت اس لیے جمع کیا ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ خیالات اورتفکرات ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن حالات اور خیالات کی نوعیت کے فرق کا یہاں بھی لحاظ ضرور ہوگا۔ اگر امور آخرت کے متعلق خیالات نماز میں آئیں تو وہ دنیاوی امور کے بنسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہونگے۔ (تفہیم البخاری) باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ وہ صحابی نماز اور خطرات میں مستغرق رہتا تھا۔ پھر بھی وہ اعادہ صلوۃ کے ساتھ مامور نہیں ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): People say that I narrate too many narrations of the Prophet; once I met a man (during the life-time of the Prophet) and asked him, "Which Sura did Allah's Apostle (ﷺ) s recite yesterday in the 'Isha' prayer?" He said, "I do not know." I said, "Did you not attend the prayer?" He said, "Yes, (I did)." I said, "I know. He recited such and such Sura." ________