باب: دو رکعتیں یا تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دے تو نماز کے سجدوں کی طرح یا ان سے لمبے سہو کے دو سجدے کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: If one finishes his Salat wit Taslim after offering two or three Rak'a (by mistake))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1227.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو ذوالیدین نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز میں کمی کر دی گئی ہے؟ نبی ﷺ نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا: ’’آیا ذوالیدین صحیح کہتا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ہاں (صحیح کہتا ہے)۔ اس کے بعد آپ نے دو رکعتیں مزید پڑھیں، پھر دو سجدے کیے۔ (راوی حدیث) سعد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے عروہ بن زبیر ؓ کو دیکھا، انہوں نے نماز مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا، پھر گفتگو بھی کی، اس کے بعد بقیہ نماز ادا کی اور دو سجدے کیے اور فرمایا کہ نبی ﷺ نے بھی ایسے کیا تھا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اگر کسی نے نماز ظہر یا عصر شروع کی، لیکن نادانستہ طور پر دوسری یا تیسری رکعت پر سلام پھیر دیا تو اس کی تلافی بایں طور ہو سکتی ہے کہ فوراً یاد آنے پر بقیہ نماز ادا کرے اور نماز کے سجدے کی طرح یا اس سے بھی طویل دو سجدے بطور سہو کرے۔ لیکن اس سلسلے میں جو روایت پیش کی ہے اس میں دوسری یا تیسری رکعت پر سلام پھیرنے کا ذکر نہیں ہوتا، تاہم دیگر روایات میں اس کی تفصیل ہے، چنانچہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوسری رکعت کے بعد سلام پھیر دیا تھا۔ (حدیث: 1228) اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ نماز عصر میں تیسری رکعت پر سلام پھیر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1293(574)) نماز جیسے یا اس سے بھی طویل دو سجدے کرنے کا ذکر بھی صحیح بخاری میں ہے۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1228) (2) سجدۂ سہو سلام سے پہلے ہو یا بعد میں، اس میں اختلاف ہے۔ ہم یہاں شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: سلام سے پہلے سجدۂ سہو کرنے کے دو مقام ہیں: ٭ جب نماز میں کسی قسم کی کمی ہو جائے، جیسا کہ عبداللہ ابن بحینہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ سہواً درمیانی تشہد چھوڑ دیا تھا تو آپ نے سلام سے پہلے دو سجدے کیے۔ یہ حدیث: (1224) پہلے گزر چکی ہے۔ ٭ جب دوران نماز میں تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کسی ایک جانب رجحان نہ ہو سکے تو یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے نماز کو مکمل کیا جائے، پھر سلام سے پہلے سہو کے دو سجدے کیے جائیں۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1272(671)) اسی طرح سلام کے بعد سجدۂ سہو کرنے کے بھی دو مقام ہیں: ٭ اگر نماز میں کسی قسم کا اضافہ ہو جائے تو سلام کے بعد دو سجدے کیے جائیں، پھر دوبارہ سلام پھیرا جائے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1226) اس حدیث کے مطابق حکم عام ہے قطع نظر اس کے کہ نماز میں اضافے کا علم دوران نماز میں ہو یا سلام کے بعد۔ چونکہ نماز ظہر کی پانچ رکعت پڑھنے پر سجدۂ سہو کیا گیا ہے اور حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کہ آپ کو سلام کے بعد اضافے کا علم ہوا تھا، اس لیے آپ نے سلام کے بعد دو سجدے کیے ہیں۔ اس بنا پر مطلق طور پر اضافے کی صورت میں سلام کے بعد سجدۂ سہو کرنا مناسب ہے۔ ٭ اگر دوران نماز تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کوشش و تحری سے ایک جانب رجحان ہو جائے تو اس صورت میں بھی سلام کے بعد ہی سجدۂ سہو کرنا ہو گا، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ درستی کی کوشش کرتے ہوئے اپنی نماز مکمل کرے، پھر سلام پھیر کر آخر میں دو سجدے کرے۔‘‘(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:401) (3) اگر نماز میں دو سہو ہو جائیں ایک کا تقاضا سلام سے پہلے کا ہو اور دوسرے کا تقاضا سلام کے بعد کا تو سلام سے پہلے ہی دو سجدے کیے جائیں، مثلاً: ایک شخص نماز ظہر پڑھتے ہوئے اپنے خیال کے مطابق دوسری رکعت کے بعد، جو در حقیقت تیسری تھی، تشہد بیٹھ گیا۔ تشہد سے کھڑا ہوا تو اسے یاد آیا کہ وہ دو رکعتوں کے بعد تشہد بھول گیا تھا اور دوسری کی بجائے تیسری کے بعد اس نے تشہد کیا ہے جو کہ زائد ہے اور اب اس کی چوتھی رکعت ہے تو وہ اپنی یہ رکعت مکمل کر کے سجدۂ سہو کر کے سلام پھیر دے۔ اس صورت میں تشہد اول ترک کرنے کی وجہ سے سلام سے پہلے سجدۂ سہو ہے اور تیسری رکعت میں جلوس کا اضافہ کرنے کی وجہ سے سلام کے بعد سہو ہے، لیکن سلام سے پہلے سجدۂ سہو کو ترجیح دی جائے گی۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین) الغرض سجدۂ سہو سلام سے پہلے یا بعد دونوں طرح جائز ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے دونوں طرح ثابت ہے، البتہ افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ ان سجدوں کے جو اسباب سلام سے پہلے کسی فعل کے ساتھ مقید ہوں، وہاں سلام سے پہلے سجدے کیے جائیں اور جہاں سلام کے بعد مقید ہوں وہاں سلام کے بعد کیے جائیں اور جن اسباب کی ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی قید نہ ہو ان میں زیادتی اور نقصان کو دیکھے بغیر نمازی کو سلام سے پہلے اور بعد میں سجدے کرنے کا اختیار ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1197
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1227
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1227
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1227
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو ذوالیدین نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز میں کمی کر دی گئی ہے؟ نبی ﷺ نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا: ’’آیا ذوالیدین صحیح کہتا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ہاں (صحیح کہتا ہے)۔ اس کے بعد آپ نے دو رکعتیں مزید پڑھیں، پھر دو سجدے کیے۔ (راوی حدیث) سعد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے عروہ بن زبیر ؓ کو دیکھا، انہوں نے نماز مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا، پھر گفتگو بھی کی، اس کے بعد بقیہ نماز ادا کی اور دو سجدے کیے اور فرمایا کہ نبی ﷺ نے بھی ایسے کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اگر کسی نے نماز ظہر یا عصر شروع کی، لیکن نادانستہ طور پر دوسری یا تیسری رکعت پر سلام پھیر دیا تو اس کی تلافی بایں طور ہو سکتی ہے کہ فوراً یاد آنے پر بقیہ نماز ادا کرے اور نماز کے سجدے کی طرح یا اس سے بھی طویل دو سجدے بطور سہو کرے۔ لیکن اس سلسلے میں جو روایت پیش کی ہے اس میں دوسری یا تیسری رکعت پر سلام پھیرنے کا ذکر نہیں ہوتا، تاہم دیگر روایات میں اس کی تفصیل ہے، چنانچہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوسری رکعت کے بعد سلام پھیر دیا تھا۔ (حدیث: 1228) اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ نماز عصر میں تیسری رکعت پر سلام پھیر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1293(574)) نماز جیسے یا اس سے بھی طویل دو سجدے کرنے کا ذکر بھی صحیح بخاری میں ہے۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1228) (2) سجدۂ سہو سلام سے پہلے ہو یا بعد میں، اس میں اختلاف ہے۔ ہم یہاں شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: سلام سے پہلے سجدۂ سہو کرنے کے دو مقام ہیں: ٭ جب نماز میں کسی قسم کی کمی ہو جائے، جیسا کہ عبداللہ ابن بحینہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ سہواً درمیانی تشہد چھوڑ دیا تھا تو آپ نے سلام سے پہلے دو سجدے کیے۔ یہ حدیث: (1224) پہلے گزر چکی ہے۔ ٭ جب دوران نماز میں تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کسی ایک جانب رجحان نہ ہو سکے تو یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے نماز کو مکمل کیا جائے، پھر سلام سے پہلے سہو کے دو سجدے کیے جائیں۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1272(671)) اسی طرح سلام کے بعد سجدۂ سہو کرنے کے بھی دو مقام ہیں: ٭ اگر نماز میں کسی قسم کا اضافہ ہو جائے تو سلام کے بعد دو سجدے کیے جائیں، پھر دوبارہ سلام پھیرا جائے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1226) اس حدیث کے مطابق حکم عام ہے قطع نظر اس کے کہ نماز میں اضافے کا علم دوران نماز میں ہو یا سلام کے بعد۔ چونکہ نماز ظہر کی پانچ رکعت پڑھنے پر سجدۂ سہو کیا گیا ہے اور حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کہ آپ کو سلام کے بعد اضافے کا علم ہوا تھا، اس لیے آپ نے سلام کے بعد دو سجدے کیے ہیں۔ اس بنا پر مطلق طور پر اضافے کی صورت میں سلام کے بعد سجدۂ سہو کرنا مناسب ہے۔ ٭ اگر دوران نماز تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کوشش و تحری سے ایک جانب رجحان ہو جائے تو اس صورت میں بھی سلام کے بعد ہی سجدۂ سہو کرنا ہو گا، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ درستی کی کوشش کرتے ہوئے اپنی نماز مکمل کرے، پھر سلام پھیر کر آخر میں دو سجدے کرے۔‘‘(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:401) (3) اگر نماز میں دو سہو ہو جائیں ایک کا تقاضا سلام سے پہلے کا ہو اور دوسرے کا تقاضا سلام کے بعد کا تو سلام سے پہلے ہی دو سجدے کیے جائیں، مثلاً: ایک شخص نماز ظہر پڑھتے ہوئے اپنے خیال کے مطابق دوسری رکعت کے بعد، جو در حقیقت تیسری تھی، تشہد بیٹھ گیا۔ تشہد سے کھڑا ہوا تو اسے یاد آیا کہ وہ دو رکعتوں کے بعد تشہد بھول گیا تھا اور دوسری کی بجائے تیسری کے بعد اس نے تشہد کیا ہے جو کہ زائد ہے اور اب اس کی چوتھی رکعت ہے تو وہ اپنی یہ رکعت مکمل کر کے سجدۂ سہو کر کے سلام پھیر دے۔ اس صورت میں تشہد اول ترک کرنے کی وجہ سے سلام سے پہلے سجدۂ سہو ہے اور تیسری رکعت میں جلوس کا اضافہ کرنے کی وجہ سے سلام کے بعد سہو ہے، لیکن سلام سے پہلے سجدۂ سہو کو ترجیح دی جائے گی۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین) الغرض سجدۂ سہو سلام سے پہلے یا بعد دونوں طرح جائز ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے دونوں طرح ثابت ہے، البتہ افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ ان سجدوں کے جو اسباب سلام سے پہلے کسی فعل کے ساتھ مقید ہوں، وہاں سلام سے پہلے سجدے کیے جائیں اور جہاں سلام کے بعد مقید ہوں وہاں سلام کے بعد کیے جائیں اور جن اسباب کی ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی قید نہ ہو ان میں زیادتی اور نقصان کو دیکھے بغیر نمازی کو سلام سے پہلے اور بعد میں سجدے کرنے کا اختیار ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے ابو سلمہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ نبی ﷺ نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی جب آپ نے سلام پھیرا تو ذوالیدین کہنے لگا کہ یارسول اللہ ﷺ! کیا نماز کی رکعتیں گھٹ گئی ہیں؟ (کیونکہ آپ ﷺ نے بھول کر صرف دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا تھا) نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا جی ہاں، اس نے صحیح کہا ہے۔ تب نبی کریم ﷺ نے دورکعت اور پڑھائیں پھر دوسجدے کئے۔ سعد نے بیان کیا کہ عروہ بن زبیر کو میں نے دیکھا کہ آپ نے مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور باتیں بھی کیں۔ پھر باقی ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے اور فرمایا کہ نبی ﷺ نے اسی طرح کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) led us in the 'Asr or the Zuhr prayer and finished it with Taslim. Dhul-Yadain said to him, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Has the prayer been reduced?" The Prophet (ﷺ) asked his companions in the affirmative. So Allah's Apostle (ﷺ) I offered two more Rakat and then performed two prostrations (of Sahu). Sad said, "I saw that 'Ursa bin Az-Zubair had offered two Rakat in the Maghrib prayer and finished it with Taslim. He then talked (and when he was informed about it) he completed the rest of his prayer and performed two prostrations, and said, 'The Prophet (ﷺ) prayed like this.' " ________