Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: Whoever did not recite Tashah-dud (At-Tahiyyat) after the two prostrations of Sahw)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور انس ؓ اور حسن بصری نے سلام پھیرا (یعنی سجدہ سہو کے بعد) اور تشہد نہیں پڑھا اور قتادہ نے کہا کہ تشہد نہ پڑھے۔
1228.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا تو آپ سے حضرت ذوالیدین ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے (حاضرین سے) پوچھا: ’’ذوالیدین نے صحیح کہا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور مزید دو رکعتیں ادا کیں پھر سلام پھیرا۔ اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور پہلے دو سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدے کیے، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا۔ سلمہ بن علقمہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن سیرین سے پوچھا: کیا سجدہ سہو کے بعد تشہد ہے؟ انہوں نے فرمایا: حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔
تشریح:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور بقیہ نماز ادا کی، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد الله أكبر کہا اور سابقہ سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدہ کیا، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا اور اللہ أکبر کہا، پھر اللہ أکبر کہتے ہوئے سجدہ کیا اس کے بعد اپنا سر مبارک اٹھایا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بعض اوقات سوال کیا جاتا کہ پھر آپ نے سلام پھیرا؟ تو فرماتے کہ مجھے عمران بن حصین ؓ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد سلام پھیرا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:482) چنانچہ صحیح مسلم کی حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی حدیث میں صرف سلام پھیرنے کا ذکر ہے تشہد پڑھنے کا ذکر نہیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1293(574)) لیکن اشعث بن عبدالملک کی روایت میں تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1039) لیکن محدثین نے اس روایت میں تشہد پڑھنے کے ذکر کو شاذ قرار دیا ہے اور اس روایت کو محفوظ قرار دیا ہے جس میں صرف سلام پھیرنے کا ذکر ہے۔ (فتح الباري:128/3) اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی حدیث میں تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:355/2) اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔ (مسندأحمد:428/8) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے ان دونوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:129/3) صحیح روایات میں سجدۂ سہو کے بعد تشہد پڑھے بغیر سلام پھیرنے کا ذکر ہے، لہذا اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1198
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1228
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1228
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1228
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
تمہید باب
اگر سلام سے پہلے سجدۂ سہو کیا جائے تو جمہور کا موقف ہے کہ تشہد کا اعادہ نہ کیا جائے۔ اور اگر سلام کے بعد ادا کیے جائیں تو اس میں اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ تشہد کے بغیر ہی سلام پھیر دیا جائے کیونکہ کسی صحیح حدیث میں تشہد پڑھنے کا ذکر نہیں۔ اور جن روایات میں تشہد کا ذکر ہے وہ قابل حجت نہیں ہیں، اس لیے ہمارے نزدیک بھی یہی صحیح ہے کہ دوران نماز میں سہو و نسیان کا شکار ہونے والا صرف سجدۂ سہو کرے گا اور پھر سلام پھیر دے گا، تشہد نہیں پڑھے گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے آثار کو ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:2/426) حضرت قتادہ رحمہ اللہ کے اثر کو امام عبدالرزاق نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:2/314) لیکن وہاں عبارت "لا" کے بغیر ہے۔ وہاں ہے کہ سجدۂ سہو میں تشہد پڑھے گا اور سلام پھیرے گا۔ ممکن ہے کہ صحیح بخاری کے نسخوں میں "لا" زائد ہو کیونکہ قتادہ رحمہ اللہ کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ (فتح الباری:3/128)
اور انس ؓ اور حسن بصری نے سلام پھیرا (یعنی سجدہ سہو کے بعد) اور تشہد نہیں پڑھا اور قتادہ نے کہا کہ تشہد نہ پڑھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا تو آپ سے حضرت ذوالیدین ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے (حاضرین سے) پوچھا: ’’ذوالیدین نے صحیح کہا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور مزید دو رکعتیں ادا کیں پھر سلام پھیرا۔ اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور پہلے دو سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدے کیے، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا۔ سلمہ بن علقمہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن سیرین سے پوچھا: کیا سجدہ سہو کے بعد تشہد ہے؟ انہوں نے فرمایا: حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور بقیہ نماز ادا کی، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد الله أكبر کہا اور سابقہ سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدہ کیا، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا اور اللہ أکبر کہا، پھر اللہ أکبر کہتے ہوئے سجدہ کیا اس کے بعد اپنا سر مبارک اٹھایا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بعض اوقات سوال کیا جاتا کہ پھر آپ نے سلام پھیرا؟ تو فرماتے کہ مجھے عمران بن حصین ؓ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد سلام پھیرا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:482) چنانچہ صحیح مسلم کی حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی حدیث میں صرف سلام پھیرنے کا ذکر ہے تشہد پڑھنے کا ذکر نہیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1293(574)) لیکن اشعث بن عبدالملک کی روایت میں تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1039) لیکن محدثین نے اس روایت میں تشہد پڑھنے کے ذکر کو شاذ قرار دیا ہے اور اس روایت کو محفوظ قرار دیا ہے جس میں صرف سلام پھیرنے کا ذکر ہے۔ (فتح الباري:128/3) اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی حدیث میں تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:355/2) اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔ (مسندأحمد:428/8) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے ان دونوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:129/3) صحیح روایات میں سجدۂ سہو کے بعد تشہد پڑھے بغیر سلام پھیرنے کا ذکر ہے، لہذا اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ اور حضرت حسن بصری نے (سجدہ سہو کے بعد) سلام پھیرا اور تشہد نہیں پڑھا۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: ان کے بعد تشہد نہ پڑھے۔
وضاحت: اگر سلام سے پہلے سجدہ سہو کیا جائے تو جمہور کا موقف ہے کہ تشہد کا اعادہ نہ کیا جائے۔ اور اگر سلام کے بعد ادا کیے جائیں تو اس میں اختلاف ہے۔ امام بخاری کا موقف ہے کہ تشہد کے بغیر ہی سلام پھیر دیا جائے کیونکہ کسی صحیح حدیث میں تشہد پڑھنے کا ذکر نہیں۔ اور جن روایات میں تشہد کا ذکر ہے وہ قابل حجت نہیں ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی نے خبر دی، انہیں محمد بن سیرین نے اور انہیں حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ دو رکعت پڑھ کر اٹھ کھڑے ہوئے تو ذوالیدین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ!کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ ﷺ بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا ذوالیدین سچ کہتے ہیں۔ لوگوں نے کہاجی ہاں! یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور دورکعت جورہ گئی تھیں ان کو پڑھا، پھر سلام پھیرا، پھر اللہ أکبرکہا اور اپنے سجدے کی طرح ( یعنی نماز کے معمولی سجدے کی طرح ) سجدہ کیا یا اس سے لمبا پھر سرا ٹھایا۔ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن علقمہ نے، انہوں کہا کہ میں نے محمد بن سیرین سے پوچھا کہ کیا سجدہ سہو میں تشہد ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں تو اس کاذکر نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
دوسرے مقام پر حضرت امام بخاى ؒ نے دوسرا طریق ذکر کیا ہے۔ جس میں دوسرا سجدہ بھی مذکور ہے، لیکن تشہد مذکورنہیں تو معلوم ہوا کہ سجدہ سہو کے بعد تشہد نہیں ہے۔ چنانچہ محمد بن سیرین سے محفوظ ہے اور جس حدیث میں تشہد مذکور ہے اس کو بیہقی اور ابن عبد الرؤف اور ابن عبد البر وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ (خلاصہ فتح البارى)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) . Once Allah's Apostle (ﷺ) offered two Rakat and finished his prayer. So Dhul-Yadain asked him, "Has the prayer been reduced or have you forgotten?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "Has DhulYadain spoken the truth?" The people replied in the affirmative. Then Allah's Apostle (ﷺ) stood up and offered the remaining two Rakat and performed Taslim, and then said Takbir and performed two prostrations like his usual prostrations, or a bit longer, and then got up. ________