Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: To say Takbir in the prostrations of Sahw)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1229.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے سہہ پہر کی دو نمازوں (ظہر یا عصر) میں سے کوئی نماز دو رکعت پڑھائی ۔۔ راوی حدیث محمد بن سیرین نے کہا: میرا غالب گمان ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی ۔۔ سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد مسجد کے اگلے حصے میں گاڑی ہوئی ایک لکڑی پر اپنا دست مبارک رکھ کر کھڑے ہو گئے۔ حاضرین میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ بھی تھے لیکن انہیں بھی آپ سے ہم کلام ہونے کی جراءت نہ ہوئی۔ جلد باز لوگ مسجد سے باہر جا کر کہنے لگے: کیا نماز مختصر ہو گئی ہے؟ ایک شخص، جسے نبی ﷺ ذوالیدین کہتے تھے، نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہ تو میں نسیان کا شکار ہوا ہوں اور نہ نماز ہی میں کمی ہوئی ہے۔‘‘ حضرت ذوالیدین ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ضرور آپ کو بھول لگی ہے۔ اس کے بعد آپ نے دو رکعتیں مزید پڑھیں اور سلام پھیرا۔ اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا۔ اس کے بعد پھر اللہ أکبر کہا اور سجدے میں چلے گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کے مطابق یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ نے اللہ أکبر کہہ کر سر مبارک اٹھایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1199
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1229
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1229
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1229
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
تمہید باب
بعض حضرات کا موقف ہے کہ جب سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کیے جائیں تو ان کے لیے پہلے تکبیر تحریمہ کہی جائے، پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کے موقف کو اختیار کیا ہے کہ اس کے لیے سجدے کی تکبیر ہی کافی ہے، الگ سے تکبیر تحریمہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے سہہ پہر کی دو نمازوں (ظہر یا عصر) میں سے کوئی نماز دو رکعت پڑھائی ۔۔ راوی حدیث محمد بن سیرین نے کہا: میرا غالب گمان ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی ۔۔ سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد مسجد کے اگلے حصے میں گاڑی ہوئی ایک لکڑی پر اپنا دست مبارک رکھ کر کھڑے ہو گئے۔ حاضرین میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ بھی تھے لیکن انہیں بھی آپ سے ہم کلام ہونے کی جراءت نہ ہوئی۔ جلد باز لوگ مسجد سے باہر جا کر کہنے لگے: کیا نماز مختصر ہو گئی ہے؟ ایک شخص، جسے نبی ﷺ ذوالیدین کہتے تھے، نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہ تو میں نسیان کا شکار ہوا ہوں اور نہ نماز ہی میں کمی ہوئی ہے۔‘‘ حضرت ذوالیدین ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ضرور آپ کو بھول لگی ہے۔ اس کے بعد آپ نے دو رکعتیں مزید پڑھیں اور سلام پھیرا۔ اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا۔ اس کے بعد پھر اللہ أکبر کہا اور سجدے میں چلے گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کے مطابق یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ نے اللہ أکبر کہہ کر سر مبارک اٹھایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا، کہ نبی کریم ﷺ نے تیسرے پہر کی دونمازوں (ظہر یا عصر) میں سے کوئی نماز پڑھی۔ میراغالب گمان یہ ہے کہ وہ عصرہی کی نماز تھی۔ اس میں آپ ﷺ نے صرف دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ ایک درخت کے تنے سے جو مسجد کی اگلی صف میں تھا، ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ آپ اپنا ہاتھ اس پر رکھے ہوئے تھے۔ حاضرین میں ابو بکر اور عمر ؓ بھی تھے لیکن انہیں بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو (جلد باز قسم کے) لوگ نماز پڑھتے ہی مسجد سے نکل جانے کے عادی تھے۔ وہ باہر جا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا کیا نمازکی رکعتیں کم ہو گئیں۔ ایک شخص جنہیں نبی کریم ﷺ ذوالیدین کہتے تھے۔ وہ بولے یا رسول اللہ! آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہوگئی؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعتیں کم ہوئیں۔ ذو الیدین بولے کہ نہیں آپ بھول گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے دورکعت اور پڑھی اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے سر اٹھا یا تو پھر تکبیر کہی اور پھرتکبیر کہہ کر سجدہ میں گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کی طرح یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) offered one of the evening prayers (the sub-narrator Muhammad said, "I think that it was most probably the 'Asr prayer") and he finished it after offering two Rakat only. He then stood near a price of wood in front of the Mosque and put his hand over it. Abu Bakr (RA) and 'Umar were amongst those who were present, but they dared not talk to him about that (because of excessive respect for him), and those who were in a hurry went out. They said, "Has the prayer been reduced?" A man who was called DhulYadain by the Prophet (ﷺ) said (to the Prophet), "Has the prayer been reduced or have you forgotten?" He said, "Neither have I forgotten, nor has the prayer been reduced." He said, "Certainly you have forgotten." So the Prophet (ﷺ) offered two more Rakat and performed Tashm and then said Takbir and performed a prostration of Sahu like his ordinary prostration or a bit longer and then raised his head and said Takbir and then put his head down and performed a prostration like his ordinary prostration or a bit longer, and then raised his head and said Takbir. ________