باب: سجدہ سہو فرض اور نفل دونوں نمازوں میں کرنا چاہیے۔
)
Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: Sahw in compulsory Salat and Nawafil)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عباس ؓ نے وتر کے بعد یہ دو سجدے کئے۔
1232.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آ کر اس کی نماز کو خلط ملط کر دیتا ہے حتی کہ وہ (نمازی) نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ جب تم میں سے کوئی ایسی حالت سے دوچار ہو تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔‘‘
تشریح:
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ حدیث میں لفظ صلاۃ مطلق ہے جو ہر قسم کی نماز پر مشتمل ہے، خواہ فرض ہو یا نفل۔ اس بنا پر ہر قسم کی نماز میں بھول چوک ہونے پر سجدۂ سہو کرنا ہو گا۔ لیکن دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ یہ محض اشتراک لفظی ہے، کیونکہ فرض اور نوافل کی شرائط میں واضح فرق ہے، نیز حدیث کے سابقہ طریق میں اذان اور تکبیر کا ذکر ہے اور فرض نماز کے لیے ہی اس قسم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن راجح موقف یہی ہے کہ ہر قسم کی نماز میں سجدۂ سہو کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے اسباب و مقاصد تو ہر قسم کی نماز میں ہوتے ہیں۔ (فتح الباري:136/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1202
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1232
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1232
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1232
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
تمہید باب
بعض حضرات کا موقف ہے کہ نوافل میں سہو و نسیان پر کوئی سجدہ نہیں جبکہ جمہور کے نزدیک نوافل میں بھی سجدۂ سہو ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام ابن ابی شیبہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:3/214)
اور عبداللہ بن عباس ؓ نے وتر کے بعد یہ دو سجدے کئے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آ کر اس کی نماز کو خلط ملط کر دیتا ہے حتی کہ وہ (نمازی) نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ جب تم میں سے کوئی ایسی حالت سے دوچار ہو تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ حدیث میں لفظ صلاۃ مطلق ہے جو ہر قسم کی نماز پر مشتمل ہے، خواہ فرض ہو یا نفل۔ اس بنا پر ہر قسم کی نماز میں بھول چوک ہونے پر سجدۂ سہو کرنا ہو گا۔ لیکن دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ یہ محض اشتراک لفظی ہے، کیونکہ فرض اور نوافل کی شرائط میں واضح فرق ہے، نیز حدیث کے سابقہ طریق میں اذان اور تکبیر کا ذکر ہے اور فرض نماز کے لیے ہی اس قسم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن راجح موقف یہی ہے کہ ہر قسم کی نماز میں سجدۂ سہو کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے اسباب و مقاصد تو ہر قسم کی نماز میں ہوتے ہیں۔ (فتح الباري:136/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ نے وتر کے بعد سہو کے دو سجدے کیے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک ؓ نے خبر دی، انھیں ابن شہاب نے، انھیں ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اور انھیں حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آکر اس کی نماز میں شبہ پیدا کر دیتا ہے، پھر اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں۔ تم میں سے جب کسی کو ایسا اتفاق ہو تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی نفل نماز میں بھی فرض کی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیے یا نہیں۔ پھر ابن عباس ؓ کے فعل اور حدیث مذکور سے ثابت کیا کہ سجدہ سہو کرنا چاہیے اس میں ان پر رد ہے جو اس بارے میں فرض اور نفل نمازوں کا امتیاز کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "When anyone of you stands for the prayers, Satan comes and puts him in doubts till he forgets how many Rakat he has prayed. So if this happens to anyone of you, he should perform two prostrations of Sahu while sitting. ________