Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: Beckoning during the Salat [by a person in Salat])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ کریب نے ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے نقل کیا، انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
1234.
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ساتھ لے کر ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ کو وہاں دیر ہو گئی اور ادھر نماز کا وقت ہو گیا۔ حضرت بلال ؓ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: ابوبکر! رسول اللہ ﷺ کو وہاں دیر ہو گئی ہے۔ جبکہ نماز کا وقت قریب آ گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ نے تکبیر کہی اور حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے تکبیر تحریمہ کہی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نماز میں بالکل کسی طرف بھی متوجہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے بکثرت تالیاں پیٹنا شروع کر دیں تو متوجہ ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لا چکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اشارہ فرمایا جس کے ذریعے سے آپ انہیں نماز پڑھانے کا حکم دے رہے تھے مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور الٹے پاؤں واپس ہوئے تا آنکہ صف میں کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا، جب نماز میں کوئی بات پیش آئی تو تم نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں؟ تالی بجانا تو عورتوں کا کام ہے۔ جسے نماز میں کوئی بات پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے، اس لیے کہ جو شخص بھی سبحان اللہ سنے گا تو ضرور متوجہ ہو گا۔ اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں (نماز پڑھاتے رہنے کا) اشارہ کر دیا تھا تو پھر کس چیز نے تمہیں لوگوں کو نماز پڑھانے سے باز رکھا؟‘‘ حضرت ابوبکر ؓ گویا ہوئے کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھائے۔
تشریح:
(1) احناف کے نزدیک نماز میں اشارہ کرنا مکروہ ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں اشارہ کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز اشارہ فرمایا، لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ یہ سب دوران نماز اشارے ہی ہیں۔ ان سے نماز میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوئی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اذکار وغیرہ کو اگر دنیوی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ ذکر کے زمرے سے خارج ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک ان کی شان نہیں بدلتی۔ اسی میں سہولت ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ہم اس پر عمل کر کے بھی جنت سے محروم نہیں رہیں گے۔ (2) ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کی اقتدا میں نماز ادا فرمائی، لیکن حضرت ابوبکر ؓ تواضع اور انکسار کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ آپ کی امامت پر راضی تھے اور آپ نے اس کے متعلق اشارہ بھی فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے خیال فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں تشریف لائے ہیں، اس لیے آپ امامت کرانا چاہتے ہیں، بصورت دیگر آپ آگے تشریف نہ لاتے بلکہ پیچھے ہی ان کی امامت میں نماز ادا کر لیتے، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کی اقتدا میں پیچھے ہی نماز ادا کر لی تھی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کا امر وجوب کے لیے نہیں تھا وگرنہ حضرت ابوبکر ؓ اس کی مخالفت نہ کرتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1204
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1234
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1234
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1234
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
تمہید باب
قبل ازیں باب میں کسی کی بات بغور سن کر دوران نماز میں اشارہ کرنا بیان ہوا تھا گویا وہ مرتب اشارہ تھا۔ اس باب میں عام اشارے کا بیان ہے، خواہ وہ مرتبہ ہو یا غیر مرتبہ۔ اس سلسلے میں حضرت کریب کی حدیث کو بیان کیا گیا ہے جو ابھی ابھی متصل سند سے بیان کی گئی ہے۔ (فتح الباری:3/140)
یہ کریب نے ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے نقل کیا، انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ساتھ لے کر ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ کو وہاں دیر ہو گئی اور ادھر نماز کا وقت ہو گیا۔ حضرت بلال ؓ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا: ابوبکر! رسول اللہ ﷺ کو وہاں دیر ہو گئی ہے۔ جبکہ نماز کا وقت قریب آ گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو میں تیار ہوں، چنانچہ حضرت بلال ؓ نے تکبیر کہی اور حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے تکبیر تحریمہ کہی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نماز میں بالکل کسی طرف بھی متوجہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے بکثرت تالیاں پیٹنا شروع کر دیں تو متوجہ ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لا چکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اشارہ فرمایا جس کے ذریعے سے آپ انہیں نماز پڑھانے کا حکم دے رہے تھے مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور الٹے پاؤں واپس ہوئے تا آنکہ صف میں کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا، جب نماز میں کوئی بات پیش آئی تو تم نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں؟ تالی بجانا تو عورتوں کا کام ہے۔ جسے نماز میں کوئی بات پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے، اس لیے کہ جو شخص بھی سبحان اللہ سنے گا تو ضرور متوجہ ہو گا۔ اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں (نماز پڑھاتے رہنے کا) اشارہ کر دیا تھا تو پھر کس چیز نے تمہیں لوگوں کو نماز پڑھانے سے باز رکھا؟‘‘ حضرت ابوبکر ؓ گویا ہوئے کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) احناف کے نزدیک نماز میں اشارہ کرنا مکروہ ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں اشارہ کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز اشارہ فرمایا، لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ یہ سب دوران نماز اشارے ہی ہیں۔ ان سے نماز میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوئی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اذکار وغیرہ کو اگر دنیوی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ ذکر کے زمرے سے خارج ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک ان کی شان نہیں بدلتی۔ اسی میں سہولت ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ہم اس پر عمل کر کے بھی جنت سے محروم نہیں رہیں گے۔ (2) ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کی اقتدا میں نماز ادا فرمائی، لیکن حضرت ابوبکر ؓ تواضع اور انکسار کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ آپ کی امامت پر راضی تھے اور آپ نے اس کے متعلق اشارہ بھی فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے خیال فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں تشریف لائے ہیں، اس لیے آپ امامت کرانا چاہتے ہیں، بصورت دیگر آپ آگے تشریف نہ لاتے بلکہ پیچھے ہی ان کی امامت میں نماز ادا کر لیتے، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کی اقتدا میں پیچھے ہی نماز ادا کر لی تھی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کا امر وجوب کے لیے نہیں تھا وگرنہ حضرت ابوبکر ؓ اس کی مخالفت نہ کرتے۔
ترجمۃ الباب:
اس بات کو حضرت کریب نے ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺسے بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے ابو حازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو خبرپہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں باہم کوئی جھگڑا پیدا ہو گیا ہے تو آپ چند صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ملاپ کرانے کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ ابھی مشغول ہی تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ اس لیے بلال ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ابھی تک تشریف نہیں لائے۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کی امامت کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ چنانچہ حضرت بلال ؓ نے تکبیر کہی اور حضرت ابو بکر ؓ نے آگے بڑھ کر تکبیر (تحریمہ) کہی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ بھی صفوں سے گزر تے ہوئے پہلی صف میں آکر کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے (حضرت ابو بکر ؓ کو آگاہ کرنے کے لیے) ہاتھ پر ہاتھ بجانے شروع کر دیئے لیکن حضرت ابو بکر ؓ نماز میں کسی طرف دھیان نہیں دیاکرتے تھے۔ جب لوگوں نے بہت تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہیں۔ آنحضور ﷺ نے اشارہ سے انھیں نمازپڑھاتے رہنے کے لیے کہا، اس پر ابو بکر ؓ نے ہاتھ اٹھا کراللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور الٹے پاؤں پیچھے کی طرف آکر صف میں کھڑے ہوگئے پھر رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد آپ نے فرمایا۔ لوگو!نماز میں ایک امر پیش آیاتو تم لوگ ہاتھ پر ہاتھ کیوں مارنے لگے تھے، یہ دستک دینا تو صرف عورتوں کے لیے ہے۔ جس کو نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب بھی کوئی سبحان اللہ سنے گا وہ ادھر خیال کرے گا اور اے ابو بکر!میرے اشارے کے باوجود تم لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھا تے رہے؟ ابو بکر ؓ نے عرض کیا کہ بھلا ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے آگے نماز پڑھائے۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اشارہ سے حضرت ابو بکر ؓ کو نماز پڑھاتے رہنے کا حکم فرمایا۔ اس سے حضرت ابو بکر ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ جب آنحضرت ﷺ نے اپنی حیات مقدسہ میں حضرت ابو بکر ؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایا تو بعد وفات نبوی آپ کی خلافت بالکل حق بجانب تھی۔ صدافسوس ان لوگوں پر جوآنکھیں بند کر کے محض تعصب کی بنیاد پر خلافت صدیقی سے بغاوت کرتے ہیں۔ اور جمہورامت کا خلاف کرکے معصیت رسول اللہ ﷺ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad As-Sa'idi : The news about the differences amongst the people of Bani'Amr bin 'Auf reached Allah's Apostle (ﷺ) and so he went to them along with some of his companions to affect a reconciliation between them. Allah's Apostle (ﷺ) was delayed there, and the time of the prayer was due. Bilal (RA) went to Abu Bakr (RA) and said to him, "Allah's Apostle (ﷺ) has been delayed (there) and the time of prayer is due. So will you lead the people in prayer?" Abu Bakr (RA) said, "Yes, if you wish." Bilal (RA) pronounced the Iqama and Abu Bakr, went forward and said Takbir for the people. In the mean-time Allah's Apostle (ﷺ) came crossing the rows (of the praying people) and stood in the (first) row and the people started clapping. Abu Bakr, would never glance side-ways in his prayer but when the people clapped much he looked back and (saw) Allah's Apostle (ﷺ) . Allah's Apostle (ﷺ) beckoned him to carry on the prayer. Abu Bakr (RA) raised his hands and thanked Allah, and retreated till he reached the (first) row. Allah's Apostle (ﷺ) went forward and led the people in the prayer. When he completed the prayer he faced the people and said, "O people! Why did you start clapping when something unusual happened to you in the prayer? Clapping is only for women. So whoever amongst you comes across something in the prayer should say, 'Subhan-Allah' for there is none who will not turn round on hearing him saying Subhan-Allah. O Ab-u Bakr! What prevented you from leading the people in the prayer when I beckoned you to do so?" Abu Bakr (RA) replied, "How dare the son of Abu Quhafa lead the prayer in the presence of Allah's Apostle (ﷺ) ?" ________