باب: جنازوں کے باب میں جو حدیثیں آئی ہیں ان کا بیان اور جس شخص کا آخری کلام لا الہٰ الا اللہ ہو، اس کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: What is said about funerals)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور وہب بن منبہ سے کہا گیا کہ کیا «لا إله إلا الله» جنت کی کنجی نہیں ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ضرور ہے لیکن کوئی کنجی ایسی نہیں ہوتی جس میں دندانے نہ ہوں۔ اس لیے اگر تم دندانے والی کنجی لاؤ گے تو تالا (قفل) کھلے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔باب ماجاء حدیث باب کی شرح اور تفسیر ہے۔ یعنی حدیث باب میں جو آیا ہے کہ میری امت میں سے جو شخص توحید پر مرے گا وہ بہشت میں داخل ہو گا ۔ اگر چہ اس نے زنا چوری وغیرہ بھی کی ہو۔اس سے یہ مراد ہے کہ اس کا آخری کلام جس پر اس کا خاتمہ ہو لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔ یعنی اس کو جنت دخول تب ہی گا کہ وہ خدا کے ساتھ شریک نہ بناتا ہو اور اس کی موت کلمے پر ہو لا الٰہ الا اللہ نام ہے سارے کلمے کا جس طرح قل ہو اللہ نام ہے ساری سورۃ کا ۔ کہتے ہیں کہ میں نے قل ہو اللہ پڑھی اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سورت پڑھی جس کے اول میں قل ہواللہ کے الفاظ ہیں للعامتہ الغزنوی۔اس کی وضاحت حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ العالی یوں فرماتے ہیں والتلقين ان يذكره عنده ويقوله بحضرته ويتلفظ به عنده يسمع ليتفطن فيقوله لا ان يامره به ويقول لا اله الا الله ايكون كافرا فيقول له قل كما قال رسول الله ﷺ لعمه ابى طالب وللغلام اليهودى- (مرعاة،ج :2/ص:447)یعنی تلقین کا مطلب یہ کہ اس کے سامنے اس کے لفظ ادا کرے تاکہ وہ خود ہی سمجھ کر اپنی زبان سے یہ کہنے لگ جائے۔اسے حکم نہ کرے بلکہ اس کے سامنے لا الہ الا اللہ کہتا رہے اور اگر یہ تلقین کسی کافر کو کرنی ہے تو اس طرح تلقین کرے جس طرح آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب اور ایک یہودی لڑکے کو تلقین کی تھی یعنی توحید رسالت ہر دور کے اقرار کے لئے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ساتھ تلقین کرے مسلمان کے لئے تلقین میں صرف لا الہ الا اللہ ہی کافی ہے اس لئے کہ وہ مسلمان ہے اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر اس کا ایمان ہے لہذا تلقین میں صرف کلمہ توحید ہی اس لئے منقول ہے ۔ ونقل جماعۃ من الاصحاب انہ یضیف الیھا محمد رسول اللہ (مرعاۃ حوالہ مذکور) یعنی بعض اصحا ب سے یہ بھی منقول ہے کہ محمد رسول اللہ کا بھی اضافہ کیا جائے مگر جمہور سے صرف لا الہ الا اللہ ہی کے اوپر اقتصار کرنا منقول ہے ۔ مگر یہ حقیقت پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ کلمہ طیبہ توحید و رسالت کے ہر دو اجزاء یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہی کا نام ہے اگر کوئی شخص صرف پہلا جزو تسلیم کرے اور دوسرے جز سے انکار کرے تو وہ بھی عند اللہ کافر مطلق ہی ہے۔
1238.
حضرت عبداللہ بن مسعود رؓ سے روایت ہے،انھوں نےکہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جوشخص اس حال میں فوت ہوکہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہو، وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔‘‘ میں کہتا ہوں:جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک مرفوع حدیث کو عنوان میں بیان کیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کی آخری بات لا إله إلا الله ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث 3116) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ جو شخص لا إله إلا الله کہے اور اس پر اسے موت آ جائے، نیز وہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بنائے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری ؒ کی مراد یہ ہو کہ جو کوئی موت کے وقت اخلاص سے لا إله إلا الله کہے، ایسا کرنے سے اس کے پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو گا، کیونکہ اخلاص توبہ اور ندامت کو لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص زنا اور حقوق العباد (جیسے چوری) وغیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو، ایسے حالات میں حقوق العباد کی ادائیگی کے متعلق اللہ تعالیٰ ضرور کوئی صورت پیدا کر دے گا۔ والله أعلم۔ (2) حضرت ابن مسعود ؓ کے قول سے امام بخاری ؒ یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ جنت میں داخلے کے لیے مرتے وقت کلمہ اخلاص کا پڑھنا ضروری نہیں، بلکہ اس سے مراد توحید کا عقیدہ رکھنا اور اسی عقیدے پر مرنا ہے۔ ہمارے نزدیک قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مقصد ہے کہ مریض اور قریب المرگ آدمی کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی جائے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔ اگرچہ تلقین کے متعلق واضح احادیث بھی کتب احادیث میں مروی ہیں، لیکن امام بخاری ؒ کی شرائط کے مطابق نہ تھیں، اس لیے انہیں پیش نہیں کیا گیا، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ اپنے قریب المرگ تعلق داروں کو لا إله إلا الله پڑھنے کی تلقین کرو۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2123 (916)) تلقین کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے پاس شہادتین کا ذکر کیا جائے، بلکہ اسے پڑھنے کے متعلق کہا جائے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اسے کہا کہ لا إله إلا الله کہو۔ (مسند أحمد: 152/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1208
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1238
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1238
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1238
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس عنوان کے ذریعے سے ان احادیث کی تشریح مقصود ہے جن میں صرف لا اله الا الله پڑھنے پر دخول جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کا آخری کلام لا اله الا الله ہو، یعنی اس کلمہ طیبہ پر اس کا خاتمہ ہو، اسے مرنے کے فورا بعد جنت میں داخل کیا جائے۔ وہب بن منبہ کے اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے التاریخ الکبیر میں اور ابو نعیم نے حلية الأولياء میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔(فتح الباری: 3/142)
اور وہب بن منبہ سے کہا گیا کہ کیا «لا إله إلا الله» جنت کی کنجی نہیں ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ضرور ہے لیکن کوئی کنجی ایسی نہیں ہوتی جس میں دندانے نہ ہوں۔ اس لیے اگر تم دندانے والی کنجی لاؤ گے تو تالا (قفل) کھلے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔باب ماجاء حدیث باب کی شرح اور تفسیر ہے۔ یعنی حدیث باب میں جو آیا ہے کہ میری امت میں سے جو شخص توحید پر مرے گا وہ بہشت میں داخل ہو گا ۔ اگر چہ اس نے زنا چوری وغیرہ بھی کی ہو۔اس سے یہ مراد ہے کہ اس کا آخری کلام جس پر اس کا خاتمہ ہو لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔ یعنی اس کو جنت دخول تب ہی گا کہ وہ خدا کے ساتھ شریک نہ بناتا ہو اور اس کی موت کلمے پر ہو لا الٰہ الا اللہ نام ہے سارے کلمے کا جس طرح قل ہو اللہ نام ہے ساری سورۃ کا ۔ کہتے ہیں کہ میں نے قل ہو اللہ پڑھی اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سورت پڑھی جس کے اول میں قل ہواللہ کے الفاظ ہیں للعامتہ الغزنوی۔اس کی وضاحت حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ العالی یوں فرماتے ہیں والتلقين ان يذكره عنده ويقوله بحضرته ويتلفظ به عنده يسمع ليتفطن فيقوله لا ان يامره به ويقول لا اله الا الله ايكون كافرا فيقول له قل كما قال رسول الله ﷺ لعمه ابى طالب وللغلام اليهودى- (مرعاة،ج :2/ص:447)یعنی تلقین کا مطلب یہ کہ اس کے سامنے اس کے لفظ ادا کرے تاکہ وہ خود ہی سمجھ کر اپنی زبان سے یہ کہنے لگ جائے۔اسے حکم نہ کرے بلکہ اس کے سامنے لا الہ الا اللہ کہتا رہے اور اگر یہ تلقین کسی کافر کو کرنی ہے تو اس طرح تلقین کرے جس طرح آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب اور ایک یہودی لڑکے کو تلقین کی تھی یعنی توحید رسالت ہر دور کے اقرار کے لئے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ساتھ تلقین کرے مسلمان کے لئے تلقین میں صرف لا الہ الا اللہ ہی کافی ہے اس لئے کہ وہ مسلمان ہے اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر اس کا ایمان ہے لہذا تلقین میں صرف کلمہ توحید ہی اس لئے منقول ہے ۔ ونقل جماعۃ من الاصحاب انہ یضیف الیھا محمد رسول اللہ (مرعاۃ حوالہ مذکور) یعنی بعض اصحا ب سے یہ بھی منقول ہے کہ محمد رسول اللہ کا بھی اضافہ کیا جائے مگر جمہور سے صرف لا الہ الا اللہ ہی کے اوپر اقتصار کرنا منقول ہے ۔ مگر یہ حقیقت پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ کلمہ طیبہ توحید و رسالت کے ہر دو اجزاء یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہی کا نام ہے اگر کوئی شخص صرف پہلا جزو تسلیم کرے اور دوسرے جز سے انکار کرے تو وہ بھی عند اللہ کافر مطلق ہی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رؓ سے روایت ہے،انھوں نےکہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جوشخص اس حال میں فوت ہوکہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہو، وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔‘‘ میں کہتا ہوں:جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک مرفوع حدیث کو عنوان میں بیان کیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کی آخری بات لا إله إلا الله ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث 3116) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ جو شخص لا إله إلا الله کہے اور اس پر اسے موت آ جائے، نیز وہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بنائے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری ؒ کی مراد یہ ہو کہ جو کوئی موت کے وقت اخلاص سے لا إله إلا الله کہے، ایسا کرنے سے اس کے پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو گا، کیونکہ اخلاص توبہ اور ندامت کو لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص زنا اور حقوق العباد (جیسے چوری) وغیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو، ایسے حالات میں حقوق العباد کی ادائیگی کے متعلق اللہ تعالیٰ ضرور کوئی صورت پیدا کر دے گا۔ والله أعلم۔ (2) حضرت ابن مسعود ؓ کے قول سے امام بخاری ؒ یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ جنت میں داخلے کے لیے مرتے وقت کلمہ اخلاص کا پڑھنا ضروری نہیں، بلکہ اس سے مراد توحید کا عقیدہ رکھنا اور اسی عقیدے پر مرنا ہے۔ ہمارے نزدیک قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مقصد ہے کہ مریض اور قریب المرگ آدمی کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی جائے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔ اگرچہ تلقین کے متعلق واضح احادیث بھی کتب احادیث میں مروی ہیں، لیکن امام بخاری ؒ کی شرائط کے مطابق نہ تھیں، اس لیے انہیں پیش نہیں کیا گیا، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ اپنے قریب المرگ تعلق داروں کو لا إله إلا الله پڑھنے کی تلقین کرو۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2123 (916)) تلقین کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے پاس شہادتین کا ذکر کیا جائے، بلکہ اسے پڑھنے کے متعلق کہا جائے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اسے کہا کہ لا إله إلا الله کہو۔ (مسند أحمد: 152/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت وہب بن منبہ سے پوچھا گیا لااله الا الله جنت کی چابی نہیں؟انھوں نے فرمایا: کیوں نہیں، لیکن ہر چابی کے دندانے ہوتے ہیں۔ اگر تو ایسی چابی لائے جس کے دندانے ہیں تو تالاکھل جائے گا بصورت دیگر نہیں کھلے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراتا تھا تووہ جہنم میں جائے گا اور میں یہ کہتا ہوں کہ جو اس حال میں مرا کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
اس کی مزید وضاحت حدیث انس ؓ میں موجود ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا: اے ابن آدم! اگر تو دنیا بھر کے گناہ لے کر مجھ سے ملاقات کرے مگر تونے شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس دنیا بھر کی مغفرت لے کر آؤں گا۔(رواہ الترمذي) خلاصہ یہ کہ شرک بدترین گناہ ہے اور توحید اعظم ترین نیکی ہے۔ موحد گنہگار مشرک عبادت گزارسے بہر حال ہزار درجے بہتر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Anyone who dies worshipping others along with Allah will definitely enter the Fire." I said, "Anyone who dies worshipping none along with Allah will definitely enter Paradise." ________