باب: اس بارے میں کہ علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ اس خیال سے کہ اس کو سمجھ نہ آئیں(یہ عین مناسب ہے کیونکہ)
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whoever selected some people to teach them (religious) knowledge preferring them over others for fear that the others may not understand it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے کہ ”لوگوں سے وہ باتیں کرو جنھیں وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیں؟“تشریح:منشا یہ ہے کہ ہر شخص سے اس کے فہم کے مطابق بات کرنی چاہیے ‘اگر لوگوسے ایسی بات کی جائے جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اس کو تسلیم نہیں کریں گئے ‘اس لئے رسول اللہﷺ کی صاف صریح حدیثیں بیان کرو‘جو ان کی سمجھ کے مطابق ہوں۔تفصیلات کواہل علم کے لیے چھوڑ دو۔
128.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ حضرت معاذ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سواری پر پیچھے بیٹھے تھے، آپ نے فرمایا: ’’اے معاذ بن جبل!‘‘ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’اے معاذ!‘‘ انہوں نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ تین مرتبہ ایسا ہوا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جو کوئی سچے دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں تو اللہ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘ حضرت معاذ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں میں اس کی تشہیر نہ کروں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: ’’ایسا کرے گا تو انہیں اسی پر بھروسا ہو جائے گا۔‘‘ پھر حضرت معاذ ؓ نے (اپنی وفات کے قریب، کتمان علم کے) گناہ سے بچنے کے لیے یہ حدیث لوگوں کو بیان کی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم و تبلیغ کے وقت حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ سامعین کی ذہنی سطح کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے، ہر بات مجمع عام میں بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کچھ حضرات سمجھ سکتے ہیں جبکہ وہی باتیں دوسروں کی ذہنی سطح سے اونچی ہوتی ہیں ایسا کرنے سے دہ نقصان ہوتے ہیں: (1)۔علم کا ضیاع (2)۔ اندیشہ انکار وتکذیب۔ جہلاء کی عادت ہے کہ جس بات کو وہ نہیں سمجھتے، اس کا انکار کر دیتے ہیں اور بات کہنے والے کو جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ قائل کی تکذیب گویا اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ اس طرح انسان کا ایمان بھی خطرے میں پڑجاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کا یہی مطلب ہے۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہنا ہے کہ جب بھی تم کسی قوم کے سامنے کوئی ایسی بات کرو گے جو ان کی عقل سے بالاتر ہوگی تو وہ بعض کے لیے فتنے کا باعث بن جائے گی۔ (صحیح مسلم، المقدمة (14)) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے طریقہ تالیف کے خلاف پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول پیش کیا اس کے بعد سند کا حوالہ دیا ہے۔ شارح بخاری نے اس کی کئی ایک توجیہات بیان کی ہیں۔ (1)۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ تفنن ہے۔ 2۔ سند بعد میں دستیاب ہوئی۔ 3۔ حدیث رسول اور اثر صحابہ کے درمیان فرق کرنے کے لیے ایسا کیا ہے یعنی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سند پہلے اور متن بعد میں اور آثار صحابہ کے لیے اسناد بعد میں لاتے ہیں۔ لیکن اس قانون کا اہتمام ہر جگہ نہیں کیا بلکہ بعض مقامات پر ایسا کرتے ہیں۔ (عمدۃ القاری:290/2) پہلا اور دوسرا جواب زیادہ قرین قیاس ہے۔ واللہ أعلم۔ (3)۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص بھی توحید و رسالت کی اس طرح شہادت دے کہ زبان کے ساتھ دل بھی مخلصانہ طور پراس کا معترف ہو تو اللہ تعالیٰ اسے آگ پر حرام کردے گا۔ اس پر اشکال ہے کہ بے شمار روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ فساق مومنین آگ میں جائیں گے تو پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ اس اشکال کے درج ذیل جوابات ہیں۔ (1)۔ یہ بشارت ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایمان کی شہادت کے ساتھ اعمال صالحہ بھی کیے ہوں چنانچہ ترمذی میں اقرار شہادتین کے ساتھ نماز، روزہ اور حج کا بھی ذکر ہے۔ (2)۔ یہ بشارت ان حضرات کے لیے ہے جنھوں نے آخری وقت شہادتین کا اقرار کیا پھر موت آ گئی، ایسی صورت میں برے اعمال توبہ سے معاف ہو گئے، پھر ان کو موقع ہی نہیں ملا کہ موت نے آ لیا۔ (3)۔ اس سے مخصوص آگ مراد ہے یعنی وہ آگ جو عذاب کفار کے لیے تیار کی گئی ہے اور جس میں گرنے کے بعد دوبارہ نکلنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ایسے شخص کا جنت میں داخلہ ناممکن ہے۔ رہی وہ آگ جو اہل ایمان کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کے لیے ہے تاکہ انھیں دخول جنت کے قابل بنایا جائے۔ وہ الگ آگ ہے۔ حدیث میں مذکور آگ سے مراد کفار کے لیے تیار کی گئی آگ ہے۔ (4)۔ اس تحریم سے مراد تحریم مؤبد ہے یعنی ایسا شخص ہمیشہ آگ میں نہیں رہے گا کچھ دنوں کے لیے جا سکتا ہے۔ (5)۔ حدیث میں کلمہ شہادت کی ایک تاثیر بیان ہوئی ہے لیکن اس تاثیر کے لیے کچھ شرائط اور موانع ہیں۔ اگر شرائط پائی گئیں اور رکاوٹیں حائل نہ ہوئیں تو کلمہ شہادت لازمی طور پر اپنی تاثیر دکھائے گا۔ اس کے برعکس اگر شرائط کا لحاظ نہ رکھا یا رکاوٹیں حائل ہو گئیں تو کلمہ شہادت کا یہ اثر کمزور یا ختم ہو سکتا ہے۔ 4۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام امتناعی کی دو قسمیں ہیں (1)۔ نہی تحریم (2)۔ نہی تنزیہ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نہی کو نہی تنزیہ پر محمول کیا اگر نہی تحریم ہوتی تو حضرت معاذ اس کی بالکل خبر نہ دیتے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس تاثر کی خبر ایسے شخص نے دی جو ان کی موت کے وقت وہاں موجود تھا۔ (فتح الباري: 300/1) چلتے چلتے صاحبان’’تدبر‘‘کی بھی سنتے جائیں فرماتے ہیں۔ باقی رہ گئی یہ بات کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات اپنی موت کے قریب کتمان علم کے گناہ سے بچنے کے لیے بتائی تو یہ راوی کا اپنا تاثر ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس کا عام چرچا نہ کیا لیکن اہل علم میں وہ اس کو بیان کرتے رہے ہوں گے۔ اتنی بڑی بات آخر معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے راز رکھ سکتے تھے۔ (تدبر حدیث: 229/1) یعنی اصلاحی صاحب ہر جگہ اپنے قیاس و تاثر کی دخل اندازی کو ضروری سمجھتے ہیں :﴿إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
130
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
128
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
128
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
128
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے کہ ”لوگوں سے وہ باتیں کرو جنھیں وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیں؟“تشریح:منشا یہ ہے کہ ہر شخص سے اس کے فہم کے مطابق بات کرنی چاہیے ‘اگر لوگوسے ایسی بات کی جائے جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اس کو تسلیم نہیں کریں گئے ‘اس لئے رسول اللہﷺ کی صاف صریح حدیثیں بیان کرو‘جو ان کی سمجھ کے مطابق ہوں۔تفصیلات کواہل علم کے لیے چھوڑ دو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ حضرت معاذ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سواری پر پیچھے بیٹھے تھے، آپ نے فرمایا: ’’اے معاذ بن جبل!‘‘ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’اے معاذ!‘‘ انہوں نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ تین مرتبہ ایسا ہوا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جو کوئی سچے دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں تو اللہ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘ حضرت معاذ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں میں اس کی تشہیر نہ کروں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: ’’ایسا کرے گا تو انہیں اسی پر بھروسا ہو جائے گا۔‘‘ پھر حضرت معاذ ؓ نے (اپنی وفات کے قریب، کتمان علم کے) گناہ سے بچنے کے لیے یہ حدیث لوگوں کو بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم و تبلیغ کے وقت حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ سامعین کی ذہنی سطح کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے، ہر بات مجمع عام میں بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کچھ حضرات سمجھ سکتے ہیں جبکہ وہی باتیں دوسروں کی ذہنی سطح سے اونچی ہوتی ہیں ایسا کرنے سے دہ نقصان ہوتے ہیں: (1)۔علم کا ضیاع (2)۔ اندیشہ انکار وتکذیب۔ جہلاء کی عادت ہے کہ جس بات کو وہ نہیں سمجھتے، اس کا انکار کر دیتے ہیں اور بات کہنے والے کو جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ قائل کی تکذیب گویا اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ اس طرح انسان کا ایمان بھی خطرے میں پڑجاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کا یہی مطلب ہے۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہنا ہے کہ جب بھی تم کسی قوم کے سامنے کوئی ایسی بات کرو گے جو ان کی عقل سے بالاتر ہوگی تو وہ بعض کے لیے فتنے کا باعث بن جائے گی۔ (صحیح مسلم، المقدمة (14)) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے طریقہ تالیف کے خلاف پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول پیش کیا اس کے بعد سند کا حوالہ دیا ہے۔ شارح بخاری نے اس کی کئی ایک توجیہات بیان کی ہیں۔ (1)۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ تفنن ہے۔ 2۔ سند بعد میں دستیاب ہوئی۔ 3۔ حدیث رسول اور اثر صحابہ کے درمیان فرق کرنے کے لیے ایسا کیا ہے یعنی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سند پہلے اور متن بعد میں اور آثار صحابہ کے لیے اسناد بعد میں لاتے ہیں۔ لیکن اس قانون کا اہتمام ہر جگہ نہیں کیا بلکہ بعض مقامات پر ایسا کرتے ہیں۔ (عمدۃ القاری:290/2) پہلا اور دوسرا جواب زیادہ قرین قیاس ہے۔ واللہ أعلم۔ (3)۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص بھی توحید و رسالت کی اس طرح شہادت دے کہ زبان کے ساتھ دل بھی مخلصانہ طور پراس کا معترف ہو تو اللہ تعالیٰ اسے آگ پر حرام کردے گا۔ اس پر اشکال ہے کہ بے شمار روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ فساق مومنین آگ میں جائیں گے تو پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ اس اشکال کے درج ذیل جوابات ہیں۔ (1)۔ یہ بشارت ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایمان کی شہادت کے ساتھ اعمال صالحہ بھی کیے ہوں چنانچہ ترمذی میں اقرار شہادتین کے ساتھ نماز، روزہ اور حج کا بھی ذکر ہے۔ (2)۔ یہ بشارت ان حضرات کے لیے ہے جنھوں نے آخری وقت شہادتین کا اقرار کیا پھر موت آ گئی، ایسی صورت میں برے اعمال توبہ سے معاف ہو گئے، پھر ان کو موقع ہی نہیں ملا کہ موت نے آ لیا۔ (3)۔ اس سے مخصوص آگ مراد ہے یعنی وہ آگ جو عذاب کفار کے لیے تیار کی گئی ہے اور جس میں گرنے کے بعد دوبارہ نکلنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ایسے شخص کا جنت میں داخلہ ناممکن ہے۔ رہی وہ آگ جو اہل ایمان کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کے لیے ہے تاکہ انھیں دخول جنت کے قابل بنایا جائے۔ وہ الگ آگ ہے۔ حدیث میں مذکور آگ سے مراد کفار کے لیے تیار کی گئی آگ ہے۔ (4)۔ اس تحریم سے مراد تحریم مؤبد ہے یعنی ایسا شخص ہمیشہ آگ میں نہیں رہے گا کچھ دنوں کے لیے جا سکتا ہے۔ (5)۔ حدیث میں کلمہ شہادت کی ایک تاثیر بیان ہوئی ہے لیکن اس تاثیر کے لیے کچھ شرائط اور موانع ہیں۔ اگر شرائط پائی گئیں اور رکاوٹیں حائل نہ ہوئیں تو کلمہ شہادت لازمی طور پر اپنی تاثیر دکھائے گا۔ اس کے برعکس اگر شرائط کا لحاظ نہ رکھا یا رکاوٹیں حائل ہو گئیں تو کلمہ شہادت کا یہ اثر کمزور یا ختم ہو سکتا ہے۔ 4۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام امتناعی کی دو قسمیں ہیں (1)۔ نہی تحریم (2)۔ نہی تنزیہ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نہی کو نہی تنزیہ پر محمول کیا اگر نہی تحریم ہوتی تو حضرت معاذ اس کی بالکل خبر نہ دیتے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس تاثر کی خبر ایسے شخص نے دی جو ان کی موت کے وقت وہاں موجود تھا۔ (فتح الباري: 300/1) چلتے چلتے صاحبان’’تدبر‘‘کی بھی سنتے جائیں فرماتے ہیں۔ باقی رہ گئی یہ بات کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات اپنی موت کے قریب کتمان علم کے گناہ سے بچنے کے لیے بتائی تو یہ راوی کا اپنا تاثر ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس کا عام چرچا نہ کیا لیکن اہل علم میں وہ اس کو بیان کرتے رہے ہوں گے۔ اتنی بڑی بات آخر معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے راز رکھ سکتے تھے۔ (تدبر حدیث: 229/1) یعنی اصلاحی صاحب ہر جگہ اپنے قیاس و تاثر کی دخل اندازی کو ضروری سمجھتے ہیں :﴿إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾
ترجمۃ الباب:
حضرت علی ؓ نے فرمایا: لوگوں کے سامنے ایسی باتیں بیان کرو جنہیں وہ پہچانتے ہیں، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے؟
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، اس نے کہا کہ میرے باپ نے قتادہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت معاذ بن جبل رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے (سہ بار) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو (دوزخ کی) آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تا کہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا (اگر تم یہ خبر سناؤ گے) تو لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے (اور عمل چھوڑ دیں گے) حضرت معاذ ؓ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): "Once Mu'adh was along with Allah's Apostle (ﷺ) as a companion rider. Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Mu'adh bin Jabal." Mu'adh replied, "Labbaik and Sa'daik. O Allah's Apostle! (ﷺ) " Again the Prophet (ﷺ) said, "O Mu'adh!" Mu'adh said thrice, "Labbaik and Sa'daik, O Allah's Apostle! (ﷺ) " Allah's Apostle (ﷺ) said, "There is none who testifies sincerely that none has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is his Apostle, except that Allah will save him from the Hell-fire." Mu'adh said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Should I not inform the people about it so that they may have glad tidings?" He replied, "When the people hear about it, they will solely depend on it." Then Mu'adh narrated the above-mentioned Hadith just before his death, being afraid of committing sin (by not telling the knowledge).