ترجمة الباب:
وقال النبي ﷺ: كلكم راع ومسئول عن رعيته فإذا لم يكن من سنته فهو كما قالت عائشة ؓ : لا تزر وازرة وزر اخرى وهو كقوله : وإن تدع مثقلة ذنوبا إلى حملها لا يحمل منه شيء وما يرخص من البكاء في غير نوح , وقال النبي ﷺ: لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الاول كفل من دمها وذلك لانه اول من سن القتل .
باب: نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے یعنی جب رونا ماتم کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The deceased is punished because of the weeping of his relatives)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ التحریم میں فرمایا کہ اپنے نفس کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو برے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تم میں ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنے ماتحتوں سے پوچھا جائے گا اور اگر یہ رونا پیٹنا اس کے خاندان کی رسم نہ ہو اور پھر اچانک کوئی اس پر رونے لگے تو عائشہ ؓ کا دلیل لینا اس آیت سے صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کو بلائے تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور بغیر نوحہ چلائے پیٹے رونا درست ہے۔ اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر اس خون کا کچھ وبال پڑتا ہے کیونکہ ناحق خون کی بنا سب سے پہلے اسی نے ڈالی۔
1289.
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمان سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ کو ہی فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہود یہ عورت کے پاس سے گزرے جبکہ اس کے گھر والے اس پر رورہے تھے،آپ نےفرمایا:’’یہ تو اس پر رورہے ہیں،حالانکہ اسے قبر میں عذاب دیاجارہا ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1254
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1289
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1289
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1289
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہو گا جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ایسا کرنا عدل و انصاف کے خلاف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مشہور اختلاف کے درمیان تطبیق کی ایک صورت پیدا کی ہے اور طویل بحث کی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ گھر والوں کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اس وقت عذاب ہو گا جب کسی شخص کی عادت نوحہ کرنے کی ہو اور اس کے گھر والے اس کی اقتدا کریں۔ اس صورت میں گویا اپنے اہل خانہ کے نوحہ کرنے کا سبب وہ خود ہو گا کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں انہیں وعظ کر کے آگ سے نہ بچایا جبکہ وہ اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچانے پر مامور تھا۔ تو اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل خانہ کے نوحہ کرنے سے اسے عذاب دیا جائے گا۔ حدیث سے استدلال اس طرح ہے کہ جب اس نے نوحہ کیا تو اس نے اپنے نفس کی نگہبانی کی نہ اپنے گھر والوں ہی کی کیونکہ انہوں نے نوحہ کرنا خود اس سے سیکھا اور اس کی اقتدا کی۔ تو ان کے نوحہ کرنے کا سبب وہ خود ہوا، اس لیے اسے عذاب ہو گا۔ اور یہ ممکن ہے کہ سنت سے مراد وصیت ہو، یعنی مرتے وقت نوحہ کرنے کی وصیت کر جائے تو اسے اہل خانہ کے نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہو گا۔ اگر رونا دھونا اس کی عادت نہ تھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کے مطابق کسی کے گناہ کا عذاب دوسرے کو نہیں ہو گا، یعنی کسی نفس کا مؤاخذہ کسی دوسرے کے گناہ کی بنا پر نہیں ہو گا۔ اس عنوان کا حاصل یہ ہے کہ جس رونے سے میت کو عذاب ہو گا اس سے مراد بین کر کے رونا ہے۔ اس سے میت کو عذاب اس وقت ہو گا جب وہ اپنی زندگی میں نوحہ کرنے کا عادی ہو کیونکہ اس کا فعل اس کے اہل خانہ کے لیے طریقہ ہو جاتا ہے اور وہ اس طریقے کا سبب ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی میں ایسا کام نہیں کرتا تھا تو وہ ان کے طریقے کا سبب نہیں ہو گا۔ اس بنا پر ان کے رونے پیٹنے سے میت کو عذاب نہیں ہو گا۔ باب میں مذکور تعلیقات کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی صحیح میں مختلف مقامات پر موصولا بیان کیا ہے۔
کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ التحریم میں فرمایا کہ اپنے نفس کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو برے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تم میں ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنے ماتحتوں سے پوچھا جائے گا اور اگر یہ رونا پیٹنا اس کے خاندان کی رسم نہ ہو اور پھر اچانک کوئی اس پر رونے لگے تو عائشہ ؓ کا دلیل لینا اس آیت سے صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کو بلائے تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور بغیر نوحہ چلائے پیٹے رونا درست ہے۔ اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر اس خون کا کچھ وبال پڑتا ہے کیونکہ ناحق خون کی بنا سب سے پہلے اسی نے ڈالی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمان سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ کو ہی فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہود یہ عورت کے پاس سے گزرے جبکہ اس کے گھر والے اس پر رورہے تھے،آپ نےفرمایا:’’یہ تو اس پر رورہے ہیں،حالانکہ اسے قبر میں عذاب دیاجارہا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔ "نیز ارشاد نبوی ہے: "تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اپنی رعیت کے متعلق سوال ہوگا۔ "اورجب نوحہ کرنا اس کی عادت نہ ہوتو وہ حضرت عائشہ ؓ کے فرمان کے مطابق ہے: "کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا۔ : "نیز وہ فرمان الٰہی کے مطابق ہے کہ: "اگرکوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسرے کو بوجھ اٹھانے کے لیے بلائے تو اس سے کوئی چیز نہ اٹھائی جائے گی۔ "اور نوحہ کے بغیر رونے کی اجازت دی گئی ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "کوئی جان بھی ناحق قتل ہوتی ہے تو حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے(قابیل) پر اس خون ناحق کا بوجھ ہوگا کیونکہ اس نے قتل ناحق کا طریقہ رائج کیا تھا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی بیوی حضرت عائشہ ؓ سے سنا۔ آپ نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی بیوی حضرت عائشہ ؓ سے سنا۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کا گزر ایک یہودی عورت پر ہوا جس کے مرنے پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں حالانکہ اس کو قبر میں عذاب کیا جارہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی اس کے گھر والوں کے رونے سے یا اس کے کفر کی وجہ سے دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ تو اس رنج میں ہیں کہ ہم سے جدائی ہوگئی اور اس کی جان عذاب میں گرفتار ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے حضرت عمر ؓ کی اگلی حدیث کی تفسیر کی کہ آنحضرت ﷺ کی مراد وہ میت ہے جو کافر ہے۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے اس کو عام سمجھا اور اسی لیے صہیب ؓ پر انکار کیا۔ (وحیدي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aishah (RA): (the wife of the Prophet) Once Allah's Apostle (ﷺ) passed by (the grave of) a Jewess whose relatives were weeping over her. He said, "They are weeping over her and she is being tortured in her grave."