باب: اس بارے میں کہ علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ اس خیال سے کہ اس کو سمجھ نہ آئیں(یہ عین مناسب ہے کیونکہ)
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whoever selected some people to teach them (religious) knowledge preferring them over others for fear that the others may not understand it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے کہ ”لوگوں سے وہ باتیں کرو جنھیں وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیں؟“تشریح:منشا یہ ہے کہ ہر شخص سے اس کے فہم کے مطابق بات کرنی چاہیے ‘اگر لوگوسے ایسی بات کی جائے جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اس کو تسلیم نہیں کریں گئے ‘اس لئے رسول اللہﷺ کی صاف صریح حدیثیں بیان کرو‘جو ان کی سمجھ کے مطابق ہوں۔تفصیلات کواہل علم کے لیے چھوڑ دو۔
129.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے بیان کیا گیا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے فرمایا: ’’جو شخص اللہ سے بایں حالت ملے گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ہو گا تو وہ یقیناً جنت میں داخل ہو گا۔‘‘ حضرت معاذ ؓ بولے: یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں کو اس بات کی بشارت نہ سنا دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جس نے آپ کو اس واقعے کی خبر دی۔ اسی طرح حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں بھی اس شخص کے نام کی صراحت نہیں ہے کیونکہ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو وفات کے وقت بیان کیا جبکہ آپ شام میں تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر دونوں مدینہ منورہ میں رہتے تھے یہ دونوں حضرات وفات کے وقت حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس نہ تھے۔ حضرت عمرو بن میمون یا عبد الرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خبر دی ہو گی کیونکہ اول الذکر وفات کے وقت وہاں موجود تھے اور ثانی الذکر بھی اس روایت کو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ (فتح الباري: 300/1) حضرت عمرو بن میمون بھی حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس روایت کو نقل کرتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد، حدیث: 2856) 2۔ اس حدیث میں صرف تو حید کا ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو شاید راوی نے حذف کردیا ہے۔ مرجیہ اس روایت کو اپنے موقف کے اثبات کے لیے پیش کرتے ہیں کہ ایمان کے بعد کسی قول و فعل کی ضرورت نہیں حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آخری وقت صدق دل سے (لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ) کہے گا۔ وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ اورجہنم اس پر حرام ہو گی۔ مشہور حدیث بطاقہ کا بھی یہی محمل ہے۔ یا اس کا وہ مطلب ہے جو وہب بن منبہ نے بیان فرمایا ہے کہ کلمہ توحید (لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ) جنت کی چابی ہے لیکن چابی کے دندانے ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے تالا کھولا جاتا ہے۔ دندانوں کے بغیر تالا نہیں کھولا جا سکتا۔ کلمہ تو حید کے لیے اعمال صالحہ دندانے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، باب 1) بشارت دینے کا معاملہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے انھیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 147)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
131
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
129
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
129
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
129
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے کہ ”لوگوں سے وہ باتیں کرو جنھیں وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیں؟“تشریح:منشا یہ ہے کہ ہر شخص سے اس کے فہم کے مطابق بات کرنی چاہیے ‘اگر لوگوسے ایسی بات کی جائے جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اس کو تسلیم نہیں کریں گئے ‘اس لئے رسول اللہﷺ کی صاف صریح حدیثیں بیان کرو‘جو ان کی سمجھ کے مطابق ہوں۔تفصیلات کواہل علم کے لیے چھوڑ دو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے بیان کیا گیا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے فرمایا: ’’جو شخص اللہ سے بایں حالت ملے گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ہو گا تو وہ یقیناً جنت میں داخل ہو گا۔‘‘ حضرت معاذ ؓ بولے: یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں کو اس بات کی بشارت نہ سنا دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جس نے آپ کو اس واقعے کی خبر دی۔ اسی طرح حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں بھی اس شخص کے نام کی صراحت نہیں ہے کیونکہ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو وفات کے وقت بیان کیا جبکہ آپ شام میں تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر دونوں مدینہ منورہ میں رہتے تھے یہ دونوں حضرات وفات کے وقت حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس نہ تھے۔ حضرت عمرو بن میمون یا عبد الرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خبر دی ہو گی کیونکہ اول الذکر وفات کے وقت وہاں موجود تھے اور ثانی الذکر بھی اس روایت کو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ (فتح الباري: 300/1) حضرت عمرو بن میمون بھی حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس روایت کو نقل کرتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد، حدیث: 2856) 2۔ اس حدیث میں صرف تو حید کا ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو شاید راوی نے حذف کردیا ہے۔ مرجیہ اس روایت کو اپنے موقف کے اثبات کے لیے پیش کرتے ہیں کہ ایمان کے بعد کسی قول و فعل کی ضرورت نہیں حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آخری وقت صدق دل سے (لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ) کہے گا۔ وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ اورجہنم اس پر حرام ہو گی۔ مشہور حدیث بطاقہ کا بھی یہی محمل ہے۔ یا اس کا وہ مطلب ہے جو وہب بن منبہ نے بیان فرمایا ہے کہ کلمہ توحید (لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ) جنت کی چابی ہے لیکن چابی کے دندانے ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے تالا کھولا جاتا ہے۔ دندانوں کے بغیر تالا نہیں کھولا جا سکتا۔ کلمہ تو حید کے لیے اعمال صالحہ دندانے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، باب 1) بشارت دینے کا معاملہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے انھیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 147)
ترجمۃ الباب:
حضرت علی ؓ نے فرمایا: لوگوں کے سامنے ایسی باتیں بیان کرو جنہیں وہ پہچانتے ہیں، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے؟
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدّد نے بیان کیا، ان سے معتمر نے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ سے سنا، انھوں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول کریم ﷺ نے ایک روز معاذ ؓ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ (یقیناً) جنت میں داخل ہو گا، معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے۔
حدیث حاشیہ:
اور اپنی غلط فہمی سے نیک اعمال میں سستی کریں گے۔ نجات اخروی کے اصل الاصول عقیدہ توحید ورسالت کا بیان کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا، جن کے ساتھ لازماً اعمال صالحہ کا ربط ہے۔ جن سے اس عقیدہ کی درستگی کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی لیے بعض روایت میں کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کو جنت کی کنجی بتلاتے ہوئے کنجی کے لیے دندانوں کا ہونا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اعمال صالح اس کنجی کے دندانے ہیں۔ بغیر دندانے والی کنجی سے قفل کھولنا محال ہے ایسے ہی بغیر اعمال صالحہ کے دعوائے ایمان و دخول جنت ناممکن، اس کے بعد اللہ ہر لغزش کو معاف کرنے والا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): I was informed that the Prophet (ﷺ) had said to Mu'adh, "Whosoever will meet Allah without associating anything in worship with Him will go to Paradise." Mu'adh asked the Prophet, "Should I not inform the people of this good news?" The Prophet (ﷺ) replied, "No, I am afraid, lest they should depend upon it (absolutely)."