باب: جو شخص مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ وہ غمگین دکھائی دے
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Whoever sat down and looked sad when afflicted with a calamity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1300.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب قراء شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک قنوت فرمائی۔ میں نےرسول اللہ ﷺ کو کبھی اس سے زیادہ غمناک نہیں دیکھا۔
تشریح:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، نہ تو غم و پریشانی کے وقت اپنے چہرے کو نوچنا شروع کر دے جو شریعت کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور نہ اس کے متعلق قساوتِ قلبی ہی کا مظاہرہ کرے کہ پریشانی کے اثرات ہی چہرے پر نمایاں نہ ہوں۔ ایسے حالات میں پریشان انسان کو چاہیے کہ پروقار ہو کر اور اطمینان سے بیٹھے اور چہرے پر غمگینی اور پریشانی کے اثرات ہوں تاکہ پتہ چلے کہ واقعی یہ انسان کسی بڑی مصیبت سے دوچار ہے۔ (فتح الباري: 213/3) (2) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کی طرف ستر (70) قراء بھیجے جو بڑے بہادر اور فاضل تھے، انہیں دھوکے سے شہید کر دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے مہینہ بھر ان قبائل کے لیے بددعا فرمائی جنہوں نے قراء حضرات کو قتل کیا تھا۔ اس وقت رسول الله ﷺ اس کیفیت سے دوچار ہوئے جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1265
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1300
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1300
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1300
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب قراء شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک قنوت فرمائی۔ میں نےرسول اللہ ﷺ کو کبھی اس سے زیادہ غمناک نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، نہ تو غم و پریشانی کے وقت اپنے چہرے کو نوچنا شروع کر دے جو شریعت کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور نہ اس کے متعلق قساوتِ قلبی ہی کا مظاہرہ کرے کہ پریشانی کے اثرات ہی چہرے پر نمایاں نہ ہوں۔ ایسے حالات میں پریشان انسان کو چاہیے کہ پروقار ہو کر اور اطمینان سے بیٹھے اور چہرے پر غمگینی اور پریشانی کے اثرات ہوں تاکہ پتہ چلے کہ واقعی یہ انسان کسی بڑی مصیبت سے دوچار ہے۔ (فتح الباري: 213/3) (2) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کی طرف ستر (70) قراء بھیجے جو بڑے بہادر اور فاضل تھے، انہیں دھوکے سے شہید کر دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے مہینہ بھر ان قبائل کے لیے بددعا فرمائی جنہوں نے قراء حضرات کو قتل کیا تھا۔ اس وقت رسول الله ﷺ اس کیفیت سے دوچار ہوئے جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمروبن علی نے بیان کیا‘ ان سے محمد بن فضیل نے بیان کیا‘ ان سے عاصم احول نے اور ان سے انس ؓ نے کہ جب قاریوں کی ایک جماعت شہید کردی گئی تو رسول کریم ﷺ ایک مہینہ تک قنوت پڑھتے رہے۔ میں نے آنحضور ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ ان دنوں سے زیادہ کبھی غمگین رہے ہوں۔
حدیث حاشیہ:
یہ شہدائے کرام قاریوں کی ایک معزز ترین جماعت تھی جو سترنفوس پر مشتمل تھی۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری ؒ کے لفظوں میں اس جماعت کا تعارف یہ ہے: وكانوا من أوزاع الناس ينزلون الصفة يتفقهون العلم ويتعلمون القرآن، وكانوا ردءاً للمسلمين إذا نزلت بهم نازلة وكانوا حقاً عمار المسجد وليوث الملاحم، بعثهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى أهل نجد من بني عامر ليدعوهم على الإسلام ويقرؤا عليهم القرآن، فلما نزلوا بئر معونة قصدهم عامر بن الطفيل في أحياء من بني سليم، وهو رعل وذكوان وعصية فقاتلوهم. (فأصيبوا) أي فقتلوا جميعاً. قيل: ولم ينج منهم إلا كعب بن زيد الأنصاري، فإنه تخلص وبه رمق وظنوا أنه مات، فعاش حتى استشهد يوم الخندق وأسر عمرو بن أمية الصغرى، وكان ذلك في السنة الرابعة من الهجرة أي في صفر على رأس أربعة أشهر من أحد، فحزن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حزناً شديداً، قال أنس: ما رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وجد على أحد ما وجد عليهم.(مرعاة ج:2ص222)یعنی بعض اصحاب صفہ میں سے یہ بہترین اللہ والے بزرگ تھے جو قرآن پاک اور دینی علوم میں مہارت حاصل کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ مصائب کے وقت ان کی دعائیں اہل اسلام کے لیے پشت پناہی کا کام دیتی تھی۔ یہ مسجد نبوی کے حقیقی طور پر آباد کرنے والے اہل حق لوگ تھے جو جنگ وجہاد کے مواقع پر بہادر شیروں کی طرح میدان میں کام کیا کرتے تھے۔ انہیں رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے قبیلہ بنو عامر میں تبلیغ اسلام اور تعلیم قرآن مجید کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ جب یہ بئر معونہ کے قریب پہنچے تو عامر بن طفیل نامی ایک غدار نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے بہت سے لوگوں کو ہمراہ لے کر ان پر حملہ کردیا اور یہ سب وہاں شہید ہوگئے۔ جن کا رسول کریم ﷺ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ ﷺ نے پورے ایک ماہ تک قبائل رعل وذکوان کے لیے قنوت نازلہ پڑھی۔ یہ 4ھ کا واقعہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ ان میں سے صرف ایک بزرگ کعب بن زید انصاری ؓ کسی طرح بچ نکلے۔ جسے ظالموں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ یہ بعد تک زندہ رہے۔ یہاں تک کہ جنگ خندق میں شہید ہوئے۔ رضي اللہ عنهم آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): When the reciters of Qur'an were martyred, Allah's Apostle (ﷺ) recited Qunut for one month and I never saw him (i.e. Allah's Apostle) (ﷺ) so sad as he was on that day. ________