باب: جو شخص مصیبت کے وقت (اپنے نفس پر زور ڈال کر) اپنا رنج ظاہر نہ کرے
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Whoever shows no signs of grief and sorrow on the falling of a calamity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور محمد بن کعب قرظی نے کہا کہ جزع اس کو کہتے ہیں کہ بری بات منہ سے نکالنا اور پروردگار سے بدگمانی کرنا ‘ اور یعقوب ؑ نے کہا تھا إنما أشكو بثي وحزني إلى الله میں تو اس بےقراری اور رنج کا شکوہ اللہ ہی سے کرتا ہوں۔ (سورۃ یوسف)
1301.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا:حضرت ابو طلحہ ؓ کا ایک بیٹا بیمارتھا وہ فوت ہو گیا جبکہ حضرت ابوطلحہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ ان کی بیوی نے بچےکو غسل وکفن دے کر اسے گھر کے ایک گوشے میں رکھ دیا۔ جب حضرت ابوطلحہ ؓ گھر تشریف لائے تو پوچھا:لڑکے کا کیا حال ہے؟ان کی بیوی نے جواب دیا:اسے آرام ہے اور مجھے امید ہے کہ اسے سکون میسر ہوا ہے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں (بچہ اب ٹھیک ہے) پھر وہ رات بھر اپنی بیوی کے پاس رہے اور صبح کو غسل کر کے باہر جانے لگے تو بیوی نے انھیں بتایا کہ لڑکا تو فوت ہو چکا ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے نبی ﷺ کے ہمرا صبح کی نماز ادا کی، پھر رات کے ماجرے کی نبی ﷺ کو خبردی جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ تم دونوں میاں بیوی کو تمھاری اس رات میں برکت دے گا۔‘‘ ایک انصاری شخص کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابوطلحہ ؓ (کی نسل) سے نولڑکے دیکھے جو سارے کے سارے حافظ قرآن تھے۔
تشریح:
(1) یہ حضرت ام سلیم ؓ کے صبر و استقلال اور ان کی کامل تسلیم و رضا کا نتیجہ تھا کہ اس رات حمل ٹھہرنے سے جو بچہ پیدا ہوا اس کی پشت سے نو بچے حافظ قرآن پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ چار صابرہ شاکرہ بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں۔ حضرت ابو طلحہ ؓ کے ہاں عبداللہ پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے گھٹی دی تھی۔ اور جو بیٹا فوت ہوا اس کا نام ابو عمیر تھا جس نے اپنے گھر میں ایک سرخ بلبل رکھی ہوئی تھی، جب وہ مر گئی تو رسول اللہ ﷺ اسے مذاق کرتے ہوئے کہتے تھے: ’’اے ابو عمیر! تیری چڑیا کو کیا ہوا؟‘‘(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6129) (2) حضرت ام سلیم ؓ نے اپنے بچے کے متعلق لفظ سکون استعمال فرمایا۔ اس سے مراد سکون نفس، یعنی موت تھی، جبکہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے اس سے نفس سکون مراد لیا کہ بچہ بیماری سے نجات پا کر آرام کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچے کی صورت میں جو انعام دیا وہ صبر کی بدولت تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت رنج و غم کا اظہار نہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر معاملات کو اللہ کے حوالے کر دینا عزیمت ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 218/3) (3) قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہمیں اپنا رنج و صدمہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہی پیش کرنا چاہیے۔ حضرات انبیائے ؑ کا یہی طریقہ رہا ہے۔ اسے قرآن مجید میں "صبر جمیل" سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت یعقوب ؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔ (سورة یوسف:18/12، 83)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1266
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1301
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1301
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1301
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
حضرت محمد بن کعب قرظی کے قول سے ممنوع جزع کی تحدید مقصود ہے، یعنی مصیبت کے وقت زبان سے بری بات نکالنا جو صبر و شکر کے خلاف ہو اور بدگمانی کا اظہار کرنا جو اللہ تعالیٰ سے حسن ظن کے منافی ہو۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا قول بھی اسی لیے پیش کیا گیا ہے، انہوں نے یہ کلمات حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق اظہار افسوس کے بعد ارشاد فرمائے کہ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ تسلیم و رضا کا یہ آخری مرحلہ ہے کہ انسان مصیبت کے وقت اللہ کے فیصلے کو دل کی خوشی سے قبول کرے اور کسی بندہ بشر سے اس کا اظہار نہ کرے جس کی ایک جھلک مندرجہ ذیل حدیث میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اور محمد بن کعب قرظی نے کہا کہ جزع اس کو کہتے ہیں کہ بری بات منہ سے نکالنا اور پروردگار سے بدگمانی کرنا ‘ اور یعقوب ؑ نے کہا تھا إنما أشكو بثي وحزني إلى الله میں تو اس بےقراری اور رنج کا شکوہ اللہ ہی سے کرتا ہوں۔ (سورۃ یوسف)
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا:حضرت ابو طلحہ ؓ کا ایک بیٹا بیمارتھا وہ فوت ہو گیا جبکہ حضرت ابوطلحہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ ان کی بیوی نے بچےکو غسل وکفن دے کر اسے گھر کے ایک گوشے میں رکھ دیا۔ جب حضرت ابوطلحہ ؓ گھر تشریف لائے تو پوچھا:لڑکے کا کیا حال ہے؟ان کی بیوی نے جواب دیا:اسے آرام ہے اور مجھے امید ہے کہ اسے سکون میسر ہوا ہے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں (بچہ اب ٹھیک ہے) پھر وہ رات بھر اپنی بیوی کے پاس رہے اور صبح کو غسل کر کے باہر جانے لگے تو بیوی نے انھیں بتایا کہ لڑکا تو فوت ہو چکا ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے نبی ﷺ کے ہمرا صبح کی نماز ادا کی، پھر رات کے ماجرے کی نبی ﷺ کو خبردی جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ تم دونوں میاں بیوی کو تمھاری اس رات میں برکت دے گا۔‘‘ ایک انصاری شخص کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابوطلحہ ؓ (کی نسل) سے نولڑکے دیکھے جو سارے کے سارے حافظ قرآن تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حضرت ام سلیم ؓ کے صبر و استقلال اور ان کی کامل تسلیم و رضا کا نتیجہ تھا کہ اس رات حمل ٹھہرنے سے جو بچہ پیدا ہوا اس کی پشت سے نو بچے حافظ قرآن پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ چار صابرہ شاکرہ بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں۔ حضرت ابو طلحہ ؓ کے ہاں عبداللہ پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے گھٹی دی تھی۔ اور جو بیٹا فوت ہوا اس کا نام ابو عمیر تھا جس نے اپنے گھر میں ایک سرخ بلبل رکھی ہوئی تھی، جب وہ مر گئی تو رسول اللہ ﷺ اسے مذاق کرتے ہوئے کہتے تھے: ’’اے ابو عمیر! تیری چڑیا کو کیا ہوا؟‘‘(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6129) (2) حضرت ام سلیم ؓ نے اپنے بچے کے متعلق لفظ سکون استعمال فرمایا۔ اس سے مراد سکون نفس، یعنی موت تھی، جبکہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے اس سے نفس سکون مراد لیا کہ بچہ بیماری سے نجات پا کر آرام کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچے کی صورت میں جو انعام دیا وہ صبر کی بدولت تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت رنج و غم کا اظہار نہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر معاملات کو اللہ کے حوالے کر دینا عزیمت ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 218/3) (3) قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہمیں اپنا رنج و صدمہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہی پیش کرنا چاہیے۔ حضرات انبیائے ؑ کا یہی طریقہ رہا ہے۔ اسے قرآن مجید میں "صبر جمیل" سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت یعقوب ؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔ (سورة یوسف:18/12، 83)
ترجمۃ الباب:
محمد بن کعب قرظی بیان کرتے ہیں کہ"جزع"بری بات اور برے گمان دونوں کو کہا جاتا ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے فرمایا: (جیسا کہ ارشادباری ہے)"میں اپنے رنج و غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشربن حکم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا‘ کہ انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا‘ آپ نے بتلایا کہ ابوطلحہ ؓ کا ایک بچہ بیمار ہوگیا انہوں نے کہا کہ اس کا انتقال بھی ہوگیا۔ اس وقت ابو طلحہ ؓ گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی بیوی ( ام سلیم ) نے جب دیکھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے کچھ کھانا تیار کیا اور بچے کو گھر کے ایک کونے میں لٹا دیا۔ جب ابو طلحہ ؓ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا کہ بچے کی طبیعت کیسی ہے؟ ام سلیم نے کہا کہ اسے آرام مل گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اب وہ آرام ہی کررہا ہوگا۔ ابو طلحہ ؓ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں۔ ( اب بچہ اچھا ہے ) پھر ابو طلحہ ؓ نے ام سلیم کے پاس رات گزاری اور جب صبح ہوئی تو غسل کیا، لیکن جب باہر جانے کا ارادہ کیا تو بیوی ( ام سلیم ) نے اطلاع دی کہ بچے کا انتقال ہوچکا ہے۔ پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ سے ام سلیم کا حال بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کو اس رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انصار کے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ابوطلحہ ؓ کی انہیں بیوی سے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب قرآن کے عالم تھے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو طلحہ ؓ کی نیک ترین صالحہ صابرہ بیوی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا ہے اور اب وہ پورے سکون کے ساتھ لیٹا ہوا ہے۔ لیکن حضرت ابوطلحہ ؓ نے یہ سمجھا کہ بچے کو افاقہ ہوگیا ہے اور اب وہ آرام سے سورہا ہے۔ اس لیے وہ خود بھی آرام سے سوئے‘ ضروریات سے فارغ ہوئے اور بیوی کے ساتھ ہم بستر بھی ہوئے اور اس پر آنحضور ﷺ نے برکت کی بشارت دی۔ یہ کہ ان کے غیر معمولی صبروضبط اور خدا وند تعالیٰ کی حکمت پر کامل یقین کا ثمرہ تھا۔ بیوی کی اس ادا شناسی پر قربان جائیے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شوہر کو ایک ذہنی کوفت سے بچالیا۔ محدث علی بن مدینی نے حضرت ابوطلحہ ؓ کے ان نولڑکوں کے نام نقل کئے ہیں جو سب عالم قرآن ہوئے اور اللہ نے ان کو بڑی ترقی بخشی۔ وہ نو بچے یہ تھے۔ اسحاق‘ اسماعیل‘ یعقوب‘ عمیر‘ عمر‘ محمد ‘ عبداللہ‘ زید اور قاسم۔ انتقال کرنے والے بچے کو ابوعمیر کہتے تھے۔ آنحضرت ﷺ اس کو پیار سے فرمایا کرتے تھے ابوعمیر تمہاری نغیر یعنی چڑیا کیسی ہے؟ یہ بچہ بڑا خوبصورت اور وجیہ تھا۔ ابو طلحہ ؓ اس سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ بچے کی ماں ام سلیم کے استقلال کو دیکھئے کہ منہ پر تیوری نہ آنے دی اور رنج کو ایسا چھپایا کہ ابو طلحہ ؓ سمجھے واقعی بچہ اچھا ہوگیا ہے۔ پھر یہ دیکھئے کہ ام سلیم نے بات بھی ایسی کہی کہ جھوٹ نہ ہو کیونکہ موت درحقیقت راحت ہے۔ وہ معصوم جان تھی اس کے لیے تو مرنا آرام ہی آرام تھا۔ ادھر بیماری کی تکلیف گئی۔ ادھر دنیا کے فکروں سے جو مستقبل میں ہوتے نجات پائی۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ ام سلیم نے رنج اور صدمہ کو پی لیا بالکل ظاہر نہ ہونے دیا۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ ام سلیم نے اپنے خاوند سے کہا کہ اگر کچھ لوگ عاریت کی چیزلیں، پھر واپس دینے سے انکار کریں تو کیسا ہے؟ اس پو ابوطلحہ ؓ بولے کہ ہرگز انکار نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ عاریت کی چیز واپس کردینا چاہیے، تب ام سلیم نے کہا کہ یہ بچہ بھی اللہ کا تھا۔ آپ کو عاریتہ ملا ہوا تھا‘ اللہ نے اسے لے لیا تو آپ کو رنج نہ کرنا چاہیے۔ اللہ نے ان کو صبرو استقلال کے بدلے نولڑکے عطا کئے جو سب عالم قرآن ہوئے۔ سچ ہے کہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): One of the sons of Abu Talha became sick and died and Abu Talha at that time was not at home. When his wife saw that he was dead, she prepared him (washed and shrouded him) and placed him somewhere in the house. When Abu Talha came, he asked, "How is the boy?" She said, "The child is quiet and I hope he is in peace." Abu Talha thought that she had spoken the truth. Abu Talha passed the night and in the morning took a bath and when he intended to go out, she told him that his son had died, Abu Talha offered the (morning) prayer with the Prophet (ﷺ) and informed the Prophet (ﷺ) of what happened to them. Allah's Apostle (ﷺ) said, "May Allah bless you concerning your night. (That is, may Allah bless you with good offspring)." Sufyan said, "One of the Ansar said, 'They (i.e. Abu Talha and his wife) had nine sons and all of them became reciters of the Qur'an (by heart).' " ________