باب: کس طرح کے نوحہ و بکا سے منع کرنا اور اس پر جھڑکنا چاہیے۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The forbiddance of wailing and crying aloud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1305.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب زید بن حارثہ، جعفرطیار اور عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے شہید ہونے کہ خبر پہنچی تو نبی ﷺ بیٹھے اور آپکی ذات گرامی سے حزن و رنج ظاہر ہو رہا تھا۔ میں اس منظر کو دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !جعفرطیار ؓ کی عورتیں رورہی ہیں۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ انھیں رونے سے منع کرے وہ شخص گیا اور واپس آکر کہنے لگا:میں نے انھیں منع کیا ہے، لیکن وہ باز نہیں آتیں۔ آپ نے اسے دوبارہ فرمایا کہ وہ انھیں منع کرے۔ وہ دوبارہ گیا اور واپس آکر کہنے لگا:اللہ کی قسم!وہ مجھ پر غالب آگئیں ۔۔۔یا ہم پر غالب آگئیں ۔ محمد بن عبد اللہ بن حو شب نے الفاظ کے متعلق شک کا اظہار کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:’’جاؤ ان کے منہ میں خاک جھونک دو۔‘‘ میں نے کہا: اللہ تیری ناک خاک آلود کرے۔ !جس کام کا تجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے وہ بھی نہیں کرتا اور بار بار آکر رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینے سے بھی باز نہیں آتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1270
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1305
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1305
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1305
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب زید بن حارثہ، جعفرطیار اور عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے شہید ہونے کہ خبر پہنچی تو نبی ﷺ بیٹھے اور آپکی ذات گرامی سے حزن و رنج ظاہر ہو رہا تھا۔ میں اس منظر کو دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !جعفرطیار ؓ کی عورتیں رورہی ہیں۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ انھیں رونے سے منع کرے وہ شخص گیا اور واپس آکر کہنے لگا:میں نے انھیں منع کیا ہے، لیکن وہ باز نہیں آتیں۔ آپ نے اسے دوبارہ فرمایا کہ وہ انھیں منع کرے۔ وہ دوبارہ گیا اور واپس آکر کہنے لگا:اللہ کی قسم!وہ مجھ پر غالب آگئیں ۔۔۔یا ہم پر غالب آگئیں ۔ محمد بن عبد اللہ بن حو شب نے الفاظ کے متعلق شک کا اظہار کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:’’جاؤ ان کے منہ میں خاک جھونک دو۔‘‘ میں نے کہا: اللہ تیری ناک خاک آلود کرے۔ !جس کام کا تجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے وہ بھی نہیں کرتا اور بار بار آکر رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینے سے بھی باز نہیں آتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبوالوہاب ثقفی نے‘ ان سے یحیٰی بن سعید انصاری نے‘ کہا کہ مجھے عمرہ بنت عبدالرحمن انصاری نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ جب زید بن حارثہ‘ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت کی خبرآئی تو حضور اکرم ﷺ اس طرح بیٹھے کہ غم کے آثارآپ کے چہرے پر نمایاں تھے، میں دروازے کے ایک سراخ سے آپ ﷺ کو دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! جعفر کے گھرکی عورتیں نوحہ اور ماتم کررہی ہیں۔ آنحضور ﷺ نے روکنے کے لیے کہا۔ وہ صاحب گئے لیکن پھر واپس آگئے اور کہا کہ وہ نہیں مانتیں۔ آپ نے دوبارہ روکنے کے لیے بھیجا۔ وہ گئے اور پھر واپس چلے آئے۔ کہا کہ بخدا وہ تو مجھ پر غالب آگئی ہیں یا یہ کہا کہ ہم پر غالب آگئی ہیں۔ شک محمد بن حوشب کو تھا۔ ( عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ) میرا یقین یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میری زبان سے نکلا کہ اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے تونہ تو وہ کام کرسکا جس کا آنحضرت ﷺ نے حکم دیا تھا اور نہ آپ کو تکلیف دینا چھوڑتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
زید بن حارثہ کی والدہ کا نام سعدیٰ اور باپ کا نام حارثہ اور ابواسامہ کنیت تھی۔ بنی قضاعہ کے چشم وچراغ تھے جو یمن کا ایک معزز قبیلہ تھا۔ بچپن میں قزاق آپ کو اٹھاکر لے گئے۔ بازار عکاظ میں غلام بن کرچار سودر ہم میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت ہوکر ان کی پھوپھی ام المؤمنین خدیجہ ؓ کی خدمت میں پہنچ گئے اور وہاں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آگئے۔ ان کے والد کو یمن میں خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور دربار نبوت میں ان کی واپسی کے لیے درخواست کی۔ آنحضرت ﷺ نے زید بن حارثہ کو کلی اختیار دے دیا کہ اگر وہ گھرجانا چاہیں تو خوشی سے اپنے والد کے ساتھ چلے جائیں اور اگر چاہیں تو میرے پاس رہیں۔ زید بن حارثہ ؓ نے اپنے گھر والوں پر آنحضرت ﷺ کو ترجیح دی اور والد اور چچا کے ہمراہ نہیں گئے۔ اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کے احسانات اور اخلاق فاضلہ ان کے دل میں گھر کر چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد آنحضرت ﷺ ان کو مقام حجر میں لے گئے اور حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! گواہ رہو میں نے زید کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ وہ میرے وارث ہیں اور میں اس کا وارث ہوں۔ اس کے بعد وہ زید بن محمد پکارے جانے لگے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ متبنٰی لڑکوں کو ان کے والدین کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ اللہ کے یہاں انصاف کی بات ہے۔ پھر وہ زیدبن حارثہ کے نام سے پکارے جانے لگے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کا نکاح ام ایمن اپنی آزاد کردہ لونڈی سے کرادیا تھا۔ جن کے بطن سے ان کا لڑکا اسامہ پیدا ہوا۔ ان کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں ایک آیت میں ان کا نام لے کر ان کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جب کہ قرآن مجید میں کسی بھی صحابی کا نام لے کر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ غزوئہ موتہ 8ھ میں یہ بہادرانہ شہید ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 55 سال کی تھی۔ ان کے بعد فوج کی کمان حضرت جعفر طیار ؓ نے سنبھالی۔ یہ نبی کریم ﷺ کے محترم چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ یہ شروع ہی میں اکتیس آدمیوں کے ساتھ اسلام لے آئے تھے۔ حضرت علی ؓ سے دس سال بڑے تھے۔ صورت اور سیرت میں رسول اللہ ﷺ سے بہت ہی مشابہ تھے۔ قریش کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ میں یہ بھی شریک ہوئے اور نجاشی کے دربار میں انہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں ایسی پُرجوش تقریر کی کہ شاہ حبش مسلمان ہوگیا۔ 7ھ میں یہ اس وقت مدینہ تشریف لائے جب فرزندان توحید نے خیبر کو فتح کیا۔ آپ نے ان کو اپنے گلے سے لگالیا اور فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے تمہارے آنے سے زیادہ خوشی حاصل ہوئی ہے یافتح خیبر سے ہوئی ہے۔ غزوئہ موتہ میں یہ بھی بہادرانہ شہید ہوئے اور اس خبر سے آنحضرت ﷺ کو سخت ترین صدمہ ہوا۔ حضرت جعفر ؓ کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اسی موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن ابی رواحہ ؓ نے فوج کی کمان سنبھالی۔ بیعت عقبہ میں یہ موجود تھے۔ بدر‘ احد‘ خندق اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں سوائے فتح مکہ اور بعد والے غزوات میں یہ شریک رہے۔ بڑے ہی فرمانبردار اطاعت شعار صحابی تھے۔ قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا۔ لیلتہ العقبہ میں اسلام لاکر بنوحارثہ کے نقیب مقرر ہوئے اور حضرت مقداد بن اسود کندی ؓ سے سلسلہ مؤاخات قائم ہوا۔ فتح بدرکی خوشخبری مدینہ میں سب سے پہلے لانے والے آپ ہی تھے۔ جنگ موتہ میں بہادرانہ جام شہادت نوش فرمایا۔ ان کے بعد آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق اللہ کی تلوار حضرت خالد ؓ نے قیادت سنبھالی اور ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت فرمایا کہ پکارکر‘ بیان کرکرکے مرنے والوں پر نوحہ وماتم کرنا یہاں تک ناجائز ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جعفر ؓ کے گھر والوں کے لیے اس حرکت نازیبا نوحہ وماتم کرنے کی وجہ سے ان کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا جو آپ ﷺ کی خفگی کی دلیل ہے اور یہ ایک محاورہ ہے جو انتہائی ناراضگی پر دلالت کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): When the news of the martyrdom of Zaid bin Haritha, Ja'far and 'Abdullah bin Rawaha came, the Prophet (ﷺ) sat down looking sad, and I was looking through the chink of the door. A man came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The women of Ja'far," and then he mentioned their crying . The Prophet (ﷺ) ordered h im to stop them from crying. The man went and came back and said, "I tried to stop them but they disobeyed." The Prophet (ﷺ) ordered him for the second time to forbid them. He went again and came back and said, "They did not listen to me, (or "us": the sub-narrator Muhammad bin Haushab is in doubt as to which is right). " ( 'Aisha (RA) added: The Prophet (ﷺ) said, "Put dust in their mouths." I said (to that man), "May Allah stick your nose in the dust (i.e. humiliate you)." By Allah, you could not (stop the women from crying) to fulfill the order, besides you did not relieve Allah's Apostle (ﷺ) from fatigue." ________