Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The legal way of offering the funeral prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا جو شخص جنازے پر نماز پڑھے اور آپ ﷺنے صحابہ سے فرمایا تم اپنے ساتھی پر نماز جنازہ پڑھ لو۔ اور آپ ﷺنے فرمایا کہ نجاشی پر نماز پڑھو۔ اس کو نماز کہا اس میں نہ رکوع ہے نہ سجدہ اور نہ اس میں بات کی جا سکتی ہے اور اس میں تکبیر ہے اور سلام ہے۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جنازے کی نماز نہ پڑھتے جب تک باوضو نہ ہوتے اور سورج نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نہ پڑھتے اور جنازے کی نماز میں رفع یدین کرتے اور امام حسن بصری نے کہا کہ میں نے بہت سے صحابہ اور تابعین کو پایا وہ جنازے کی نماز میں امامت کا زیادہ حقدار اسی کو جانتے جس کو فرض نماز میں امامت کا زیادہ حقدار سمجھتے اور جب عید کے دن یا جنازے پر وضو نہ ہو تو پانی ڈھونڈھے ‘ تیمم نہ کرے اور جب جنازے پر اس وقت پہنچے کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو اللہ اکبر کہہ کر شریک ہو جائے۔ اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا رات ہو یا دن ‘ سفر ہو یا حضر جنازے میں چار تکبیریں کہے۔ اور انس ؓ نے کہا پہلی تکبیر جنازے کی نماز شروع کرنے کی ہے اور اللہ جل جلالہ نے (سورۃ التوبہ میں) فرمایا ان منافقوں میں جب کوئی مر جائے تو ان پر کبھی نماز نہ پڑھیو۔ اور اس میں صفیں ہیں اور امام ہوتا ہے۔
1322.
حضرت شعبی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: مجھے اس شخص نے خبر دی جس کا نبی ﷺ کے ہمراہ ایک ایسی قبر سے گزر ہوا جو دوسری قبروں سے الگ تھلگ ایک طرف تھی۔(انھوں نے کہا کہ) آپ ﷺ نے ہماری امامت کرائی اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی (اور آپ کے ہمراہ نماز جنازہ ادا کی) ہم نے کہا: اے ابو عمرو! تم سے کس شخص نے یہ حدیث بیان کی تھی؟انھوں نے جواب د یا: حضرت ابن عباس ؓ نے۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے اس روایت سے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ جنازے پر نماز کا اطلاق درست ہے اور اس کی شرائط میں سے طہارت، ستر پوشی اور استقبال قبلہ وغیرہ ہیں۔ ان کے بغیر نماز جنازہ صحیح نہیں، اگرچہ اس میں رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 245/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1286
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1322
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1322
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1322
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس عنوان کا حاصل یہ ہے کہ نماز جنازہ کے وہی آداب و شرائط اور ارکان و واجبات ہیں جو دوسری نمازوں کے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لفظ نماز سے تعبیر کیا ہے اگرچہ اس میں رکوع یا سجدہ نہیں ہوتا۔ اس کی شرائط یہ ہیں کہ اسے وضو کے بغیر ادا کرنا جائز نہیں، اسی طرح ستر پوشی اور استقبال قبلہ بھی ضروری ہے اور اس کے ارکان تکبیریں کہنا ہے۔ الغرض جنازہ پر نماز کا اطلاق درست ہے اور یہ اطلاق حقیقت شرعیہ ہے۔ ٭ (من صلی۔۔) ان الفاظ کو امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے کہ جو کوئی نماز جنازہ پڑھے اور اس کے دفن میں شریک نہ ہو اسے ایک قیراط اور جو دفن میں بھی شریک ہو اسے دو قیراط ثواب ملے گا۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پر لفظ صلی کا اطلاق کیا ہے، یعنی جو نماز جنازہ پڑھے، صرف دعا کرنے پر اکتفا نہیں کیا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2192 (945) و عمدۃ القاری: 6/169) ٭ (صلوا علیٰ۔۔۔) یہ بھی ایک طویل روایت کا حصہ ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی موصول بیان کیا ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک میت کو لایا گیا۔ آپ نے پوچھا: اس پر قرض تو نہیں؟ بتایا گیا کہ تین دینار قرض ہے تو آپ نے فرمایا: "تم خود ہی اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔" اس حدیث میں بھی جنازہ پر نماز کا اطلاق ہوا ہے اور آپ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (عمدۃ القاری: 6/169) ٭ (صلوا علی النجاشي) اسے بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس مقام پر بھی صیغہ امر کے ساتھ جنازہ پر نماز کا اطلاق کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاری، الجنائز، حدیث: 1320) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے آثار میں بتایا گیا ہے کہ نماز کی شرائط کا جنازے پر اطلاق ہوتا ہے، چنانچہ اسے وضو کے بغیر ادا نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق صراحت ہے کہ وہ نماز جنازہ وضو کے بغیر نہیں پڑھتے تھے۔ اسے امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (عمدۃ القاری: 6/169) اسی طرح آپ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت بھی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے جیسا کہ دیگر نمازوں کے لیے بھی یہ شرط ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (287/3) میں بیان کیا گیا ہے۔نماز جنازہ میں ہر تکبیر کے وقت رفع الیدین سے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو امام بخاری رحمہ اللہ نے "جزء رفع الیدین اور "الادب المفرد" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ طبرانی اوسط میں اس عمل کو مرفوعا بھی بیان کیا گیا ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ (الموطا لامام مالک، الجنائز: 1/215) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کتاب العلل میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے میں ہر تکبیر کے وقت رفع الیدین کرتے تھے، تاہم انہوں نے موقوف ہونے کی تصویب فرمائی ہے کیونکہ عمر بن شبہ کے علاوہ کسی بھی راوی نے اسے مرفوع ذکر نہیں کیا۔ ہمارے نزدیک اس علت کی طرف التفات کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ عمر بن شبہ ثقہ راوی ہیں اور اس کے مرفوع بیان کرنے کو قبول کرنا چاہیے۔ اس کے لیے کوی امر مانع نہیں، اس لیے نماز جنازہ میں ہر تکبیر کے وقت رفع الیدین کرنا مشروع ہے۔ والله أعلم ٭ حضرت حسن بصری کے بیان کردہ اثر کا فائدہ یہ ہے کہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز جنازہ کا الحاق دیگر فرض نمازوں کے ساتھ کرتے تھے جن کی جماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مذکورہ اثر متصل سند سے دستیاب نہیں ہو سکا۔ (فتح الباری: 3/244) (إذا أحدث يوم العيد۔۔۔اور و أذا انتهیٰ إلی الجنازة) یہ دونوں اثر بھی حسن بصری کے ہیں۔ پہلے اثر کو امام ابن ابی شیبہ نے (503/4) موصولا ذکر کیا ہے، اسی طرح دوسرے اثر کو بھی مصنف ابن ابی شیبہ (505/4) موصولا ذکر کیا ہے۔ اگر جنازے کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو تیمم سے نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت بعض متقدمین سے منقول ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ پانی تلاش کرے اور تیمم کر کے فورا شامل ہونے کی کوشش نہ کرے۔ قرآن کریم نے بھی تیمم کے جواز کو پانی کے نہ ملنے سے مشروط کیا ہے اور حدیث میں بھی ہے کہ اس زمین کی مٹی کو ہمارے لیے طہارت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ ہمیں پانی نہ مل سکے، اس لیے نماز جنازہ کے لیے بھی پانی کو تلاش کرنا ہو گا اور اگر نہ مل سکے تو تیمم سے پڑھ لینے میں چنداں حرج نہیں۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے دیگر نمازوں کے ساتھ ہی ملحق کیا ہے۔ اس کے احکام و فرائض وہی ہیں جو دوسری فرض نمازوں کے ہیں۔ ان میں فرق کرنے کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں۔ والله أعلم۔ ابن مسیب رحمہ اللہ کا اثر متصل سند سے دستیاب نہیں ہو سکا، البتہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے موقوفا اس کے ہم معنی اثر ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "المصنف" میں بیان کیا ہے۔ (فتح الباری: 3/244) ٭ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے اثر کو سعید بن منصور نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ رزیق بن کریم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ ایک آدمی نماز جنازہ میں تین تکبیریں کہتا ہے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اصل تو نماز جنازہ کی تین ہی تکبیریں ہیں، پہلی تکبیر تو آغاز نماز کی ہے جو باقی نمازوں کے لیے بھی ہے۔ (فتح الباری: 3/245) ٭ اس آیت کریمہ (وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ) میں اللہ تعالیٰ نے جنازے کے لیے لفظ صلاة ہی استعمال کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رکوع و سجود نہ ہونے کے باوجود اس کے احکام دیگر نمازوں جیسے ہیں۔ آخری جملہ وفيه صفوف۔۔۔، امام بخاری رحمہ اللہ کا ہے۔ وہ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نماز کی طرح جنازے میں بھی صف بندی ہوتی ہے اور امام کی اقتدا میں اسے ادا کیا جاتا ہے۔ یہ امور اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ جنازے پر نماز کا اطلاق درست ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ پیش کردہ آثار و دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ نماز جنازہ میں اگرچہ رکوع و سجود نہیں ہوتے لیکن اس کے آداب و فرائض اور شرائط و ارکان دیگر نمازوں جیسے ہیں، مثلا: جنازے کو نماز کا نام جاتا ہے اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ ٭ جنازے میں گفتگو کرنا منع ہے اور اسے تکبیر تحریمہ سے شروع کیا جاتا ہے اور سلام سے اس کا اختتام ہوتا ہے۔ ٭ وضو کے بغیر اور مکروہ اوقات میں اس کا ادا کرنا صحیح نہیں۔ ٭ تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔ اور اس کی امامت کا وہی حقدار ہے جو دوسری نمازوں کا ہوتا ہے۔ ٭ نماز جنازہ کے لیے وضو شرط ہے اور اگر بے وضو ہو جائے تو طہارت کے لیے پانی تلاش کرنا ضروری ہے۔ ٭ نماز جنازہ کے لیے صف بندی ہوتی ہے اور اسے امام کی زیر اقتدا ادا کیا جاتا ہے۔ مذکورہ امور سے ثابت ہوا کہ جنازے کی نماز دیگر نمازوں کی طرح ہے اور اس پر نماز کا اطلاق حقیقت شرعیہ ہے۔
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا جو شخص جنازے پر نماز پڑھے اور آپ ﷺنے صحابہ سے فرمایا تم اپنے ساتھی پر نماز جنازہ پڑھ لو۔ اور آپ ﷺنے فرمایا کہ نجاشی پر نماز پڑھو۔ اس کو نماز کہا اس میں نہ رکوع ہے نہ سجدہ اور نہ اس میں بات کی جا سکتی ہے اور اس میں تکبیر ہے اور سلام ہے۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جنازے کی نماز نہ پڑھتے جب تک باوضو نہ ہوتے اور سورج نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نہ پڑھتے اور جنازے کی نماز میں رفع یدین کرتے اور امام حسن بصری نے کہا کہ میں نے بہت سے صحابہ اور تابعین کو پایا وہ جنازے کی نماز میں امامت کا زیادہ حقدار اسی کو جانتے جس کو فرض نماز میں امامت کا زیادہ حقدار سمجھتے اور جب عید کے دن یا جنازے پر وضو نہ ہو تو پانی ڈھونڈھے ‘ تیمم نہ کرے اور جب جنازے پر اس وقت پہنچے کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو اللہ اکبر کہہ کر شریک ہو جائے۔ اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا رات ہو یا دن ‘ سفر ہو یا حضر جنازے میں چار تکبیریں کہے۔ اور انس ؓ نے کہا پہلی تکبیر جنازے کی نماز شروع کرنے کی ہے اور اللہ جل جلالہ نے (سورۃ التوبہ میں) فرمایا ان منافقوں میں جب کوئی مر جائے تو ان پر کبھی نماز نہ پڑھیو۔ اور اس میں صفیں ہیں اور امام ہوتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت شعبی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: مجھے اس شخص نے خبر دی جس کا نبی ﷺ کے ہمراہ ایک ایسی قبر سے گزر ہوا جو دوسری قبروں سے الگ تھلگ ایک طرف تھی۔(انھوں نے کہا کہ) آپ ﷺ نے ہماری امامت کرائی اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی (اور آپ کے ہمراہ نماز جنازہ ادا کی) ہم نے کہا: اے ابو عمرو! تم سے کس شخص نے یہ حدیث بیان کی تھی؟انھوں نے جواب د یا: حضرت ابن عباس ؓ نے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس روایت سے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ جنازے پر نماز کا اطلاق درست ہے اور اس کی شرائط میں سے طہارت، ستر پوشی اور استقبال قبلہ وغیرہ ہیں۔ ان کے بغیر نماز جنازہ صحیح نہیں، اگرچہ اس میں رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 245/3)
ترجمۃ الباب:
نبیﷺ نے فرمایا: "جو کوئی نماز جنازہ پڑھے۔۔۔ "آپ ﷺ نے فرمایا: "اپنے ساتھی کی نمازپڑھو۔ "آپ ﷺ نے فرمایا: "نجاشی پر نماز جنازہ پڑھو۔ "ان تمام روایات میں رسول اللہ ﷺ نے جنازہ کو نماز کے نام سے تعبیر کیا ہے، حالانکہ اس میں رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا، اس میں گفتگو کرنا بھی منع ہے، نیز اس میں بھی تکبیر تحریمہ اور اسلام ہوتا ہے۔
حضرت ابن عمرؓ وضو کے بغیر نماز جنازہ نہیں پڑھتےتھے اور نہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب ہی کے وقت اسے ادا کرتے تھے، نیز وہ(تکبیرات میں)رفع الیدین بھی کرتے تھے۔
حضرت حسن بصری نے فرمایا: میں نے لوگوں کو پایا ہے کہ وہ نماز جنازہ کی امامت کا زیادہ حق دار اس کو جانتے تھے جس کو وہ نماز فرض میں امام بنانا پسند کرتے تھے۔
جب کوئی نماز عید یا نماز جنازہ میں بے وضو ہو جائے تو وہ پانی تلاش کرے اور تیمم نہ کرے۔ جب کوئی دوران جنازہ میں آئے تو تکبیر کہہ کر ان کے ساتھ شامل ہو جائے۔
حضرت ابن مسیب کہتے ہیں کہ رات ہو یا دن، سفرہو یا نمازجنازہ میں چار تکبیریں کہے۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ پہلی تکبیر نماز جنازہ شروع کرنے کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر منافقین میں سے کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔ "اس نماز میں صفیں اور امام ہوتا
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے‘ ان سے شیبانی نے اور ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے اس صحابی نے خبر دی تھی جو نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر پر سے گزرا۔ وہ کہتا تھا کہ آپ ﷺ نے ہماری امامت کی اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ ہم نے پوچھا کہ ابو عمرو ( یہ شعبی کی کنیت ہے ) یہ آپ سے بیان کرنے والے کون صحابی ہیں؟ فرمایا کہ عبداللہ بن عباس ؓ
حدیث حاشیہ:
اس باب کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نماز جنازہ بھی نماز ہے اور تمام نمازوں کی طرح اس میں وہی چیزیں ضروری ہیں جو نمازوں کے لیے ہونی چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے حدیث اور اقوال صحابہ وتابعین کے بہت سے ٹکڑے ایسے بیان کئے ہیں جن میں نماز جنازہ کے لیے ’’نماز‘‘ کا لفظ ثابت ہوا اور حدیث واردہ میں بھی اس پر نماز ہی کا لفظ بولا گیا جب کہ آنحضرت ﷺ امام ہوئے اور آپ ﷺ کے پیچھے صحابہ ﷺ نے صف باندھی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان جس پر نماز جنازہ پڑھنی ضروری تھی اور اس کو بغیر نماز پڑھائے دفن کردیا گیا تو اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ash-Shaibani (RA): Ash-Sha'bi said, "Somebody who passed along with your Prophet (ﷺ) by a grave that was separate from the other graves informed me (saying), "The Prophet (ﷺ) led us (in the prayer) and we aligned behind him." We said, "O Abu 'Amr! Who told you this narration?" He replied, " Ibn Abbas (RA) ." ________