Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The recitation of Surah Al-Fathiha in the funeral Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امام حسن بصری نے فرمایا کہ بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے پھر یہ دعا پڑھی جائے «اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا وأجرا» یا اللہ! اس بچے کو ہمارا امیر ساماں اور آگے چلنے والا ‘ ثواب دلانے والا کر دے۔
1335.
حضرت طلحہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں نے حضرت ابن عباس ؓ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ اس میں آپ نے سورہ فاتحہ کی قرآءت فرمائی۔ فراغت کے بعد فرمایا (کہ میں نے اس لیے پڑھی ہے) تاکہ تمھیں اس کے سنت ہونے کاعلم ہوجائے۔
تشریح:
(1) چونکہ جنازہ بھی ایک نماز ہے، جیسا کہ باب: 56 میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے، اس لیے دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:756) پھر مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے۔ سنن نسائی میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے ساتھ مزید ایک سورت بھی پڑھی اور اونچی آواز سے قراءت کی، جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1989) اس روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ سورہ فاتحہ پہلی تکبیر کے بعد پڑھی جائے۔ (2) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز جنازہ بآواز بلند پڑھنی جائز ہے۔ اس موقف کی تائید حضرت عوف بن مالک ؓ سے مروی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی تو ہم نے آپ کی پڑھی ہوئی دعا یاد کر لی۔ (مسند أحمد:23/6) نماز جنازہ آہستہ آواز سے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو امامہ بن سہل ؓ فرماتے ہیں: نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں اور آخری تکبیر کے ساتھ سلام پھیر دیا جائے۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1991) جمہور اہل علم کا یہ موقف ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے، البتہ امام مالک اور اہل کوفہ کا موقف ہے کہ نماز جنازہ میں کوئی قراءت نہیں، البتہ احناف نے سورہ فاتحہ بطور دعا پڑھنے کو مشروع قرار دیا ہے۔ (4) ایک حدیث میں نماز جنازہ کا مکمل طریقہ بایں الفاظ بیان ہوا ہے: ’’نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھا جائے، اس کے بعد خلوص نیت سے تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعا کرے۔‘‘ (المستدرك للحاکم:1/360) چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1298
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1335
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1335
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1335
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس اثر کو عبدالوہاب بن عطاء نے کتاب الجنائز میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/260)
اور امام حسن بصری نے فرمایا کہ بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے پھر یہ دعا پڑھی جائے «اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا وأجرا» یا اللہ! اس بچے کو ہمارا امیر ساماں اور آگے چلنے والا ‘ ثواب دلانے والا کر دے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت طلحہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں نے حضرت ابن عباس ؓ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ اس میں آپ نے سورہ فاتحہ کی قرآءت فرمائی۔ فراغت کے بعد فرمایا (کہ میں نے اس لیے پڑھی ہے) تاکہ تمھیں اس کے سنت ہونے کاعلم ہوجائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) چونکہ جنازہ بھی ایک نماز ہے، جیسا کہ باب: 56 میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے، اس لیے دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:756) پھر مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے۔ سنن نسائی میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے ساتھ مزید ایک سورت بھی پڑھی اور اونچی آواز سے قراءت کی، جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1989) اس روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ سورہ فاتحہ پہلی تکبیر کے بعد پڑھی جائے۔ (2) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز جنازہ بآواز بلند پڑھنی جائز ہے۔ اس موقف کی تائید حضرت عوف بن مالک ؓ سے مروی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی تو ہم نے آپ کی پڑھی ہوئی دعا یاد کر لی۔ (مسند أحمد:23/6) نماز جنازہ آہستہ آواز سے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو امامہ بن سہل ؓ فرماتے ہیں: نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں اور آخری تکبیر کے ساتھ سلام پھیر دیا جائے۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1991) جمہور اہل علم کا یہ موقف ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے، البتہ امام مالک اور اہل کوفہ کا موقف ہے کہ نماز جنازہ میں کوئی قراءت نہیں، البتہ احناف نے سورہ فاتحہ بطور دعا پڑھنے کو مشروع قرار دیا ہے۔ (4) ایک حدیث میں نماز جنازہ کا مکمل طریقہ بایں الفاظ بیان ہوا ہے: ’’نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھا جائے، اس کے بعد خلوص نیت سے تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعا کرے۔‘‘ (المستدرك للحاکم:1/360) چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ بچے کے جنازے پر امام سورہ فاتحہ پڑھے اور پھر دعا کرے : "اے اللہ!اسے ہمارے لیے میرکارواں ذخیر ہ آخرت اور باعث اجرو ثواب بنادے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے غندر ( محمد بن جعفر ) نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے اور ان سے طلحہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ کی اقتداء میں نماز ( جنازہ ) پڑھی ( دوسری سند ) ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے‘ انہوں نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس ؓ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورئہ فاتحہ ( ذرا پکار کر ) پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔
حدیث حاشیہ:
جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے جیسا کہ دوسری نمازوں میں کیونکہ حدیث: «لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ» ہر نماز کو شامل ہے۔ اس کی تفصیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث ؒ کے لفظوں میں یہ ہے۔ والحق والصواب أن قراءة الفاتحة في صلاة الجنازة واجبة، كما ذهب إليه الشافعي وأحمد وإسحاق وغيرهم؛ لأنهم أجمعوا على أنها صلاة، وقد ثبت حديث لا صلاة، إلا بفاتحة الكتاب، فهي داخلة تحت العموم، وإخراجها منه يحتاج إلى دليل، ولأنها صلاة يجب فيها القيام فوجبت فيها القراءة كسائر الصلوات، ولأنه ورد الأمر بقراءتها صريحاً، فقد روى ابن ماجه بإسناد فيه ضعف يسير عن أم شريك قالت: أمرنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن نقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب، وروى الطبراني في الكبير الكبير أيضاً من حديث أسماء بنت يزيد قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إذا صليتم على الجنازة فاقرؤا بفاتحة الكتاب. قال الهيثمي: وفيه معلى بن حمران ولم أجد من ذكره، وبقية رجاله موثقون وفي بعضهم كلام، هذا وقد صنف حسن الشرنبلالي من متأخري الحنفية في هذه المسألة رسالة سماها "النظم المستطاب لحكم القراءة في صلاة الجنازة بأم الكتاب"، وحقق فيها أن القراءة أولى من ترك القراءة، ولا دليل على الكراهة، وهو الذي اختاره الشيخ عبد الحي اللكنوي في تصانيفه كعمدة الرعاية والتعليق الممجد وإمام الكلام، ثم إنه استدل بحديث ابن عباس على الجهر بالقراءة في الصلاة على الجنازة؛ لأنه يدل على أنه جهر بها حتى سمع ذلك من صلى معه. وأصرح من ذلك ما ذكرنا من رواية النسائي بلفظ: صليت خلف ابن عباس على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة وجهر حتى أسمعنا، فلما فرغ أخذت بيده فسألته، فقال: سنة وحق. وفي رواية أخرى له أيضا: صليت خلف ابن عباس على جنازة فسمعته يقرأ فاتحة الكتاب الخ. ويدل على الجهر بالدعاء حديث عوف بن مالك الآتي، فإن الظاهر أنه حفظ الدعاء المذكور لما جهر به النبي - صلى الله عليه وسلم - في الصلاة على الجنازة. وأصرح منه حديث واثلة في الفصل الثاني. واختلف العلماء في ذلك، فذهب بعضهم إلى أنه يستحب الجهر بالقراءة والدعاء فيها. واستدلوا بالروايات التي ذكرناها آنفاً. وذهب الجمهور إلى أنه لا يندب الجهر بل يندب الإسرار. قال ابن قدامة: ويسر القراءة والدعاء في صلاة الجنازة، لا نعلم بين أهل العلم فيه خلافاً-انتهى. واستدلوا لذلك بما ذكرنا من حديث أبي أمامة قال: السنة في الصلاة على الجنازة أن يقرأ في التكبيرة الأولى بأم القرآن مخافتة. الحديث أخرجه النسائي، ومن طريقه ابن حزم في المحلى (ج5ص129) . قال النووي في شرح المهذب: رواه النسائي بإسناد على شرط الصحيحين، وقال: أبوأمامة هذا صحابي-انتهى. وبما روى الشافعي في الأم (ج1ص239) ، والبيهقي (ج4ص39 من طريقه) عن مطرف بن مازن عن معمر عن الزهري قال: أخبرني أبوأمامة بن سهل أنه أخبره رجل من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - أن السنة في الصلاة على الجنازة أن يكبر الإمام، ثم يقرأ بفاتحة الكتاب بعد التكبيرة الأولى سراً في نفسه-الحديث. وضعفت هذه الرواية بمطرف، لكن قواها البيهقي بما رواه في المعرفة والسنن من طريق عبيد الله بن أبي زياد الرصافي عن الزهري بمعنى رواية مطرف، وبما روى الحاكم (ج1ص359) ، والبيهقي من طريقه (ج4ص42) عن شرحبيل بن سعد قال: حضرت عبد الله بن عباس صلى على جنازة بالأبواء فكبر ثم قرأ بأم القرآن رافعاً صوته بها، صلى على النبي - صلى الله عليه وسلم -، ثم قال: اللهم عبدك وابن عبدك-الحديث. وفي آخره ثم انصرف, فقال: يا أيها الناس إني لم أقرأ علناً (أي جهراً) إلا لتعلموا أنها سنة. قال الحافظ في الفتح: وشرحبيل مختلف في توثيقه-انتهى. وأخرج ابن الجارود في المنتقى من طريق زيد بن طلحة التيمي قال: سمعت ابن عباس قرأ على جنازة فاتحة الكتاب وسورة وجهر بالقراءة، وقال: إنما جهرت لأعلمكم أنها سنة. وذهب بعضهم إلى أنه يخير بين الجهر والإسرار. وقال بعضهم أصحاب الشافعي: إنه يجهر بالليل كالليلية ويسر بالنهار. قال شيخنا في شرح الترمذي قول ابن عباس: إنما جهرت لتعلموا أنها سنة، يدل على أن جهره كان للتعليم أي لا لبيان أن الجهر بالقراءة سنة، قال: وأما قول بعض أصحاب الشافعي: يجهر بالليل كالليلية فلم أقف على رواية تدل على هذا-انتهى. وهذا يدل على أن الشيخ مال إلى قول الجمهور أن الإسرار بالقراءة مندوب، هذا ورواية ابن عباس عند النسائي بلفظ: فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة، تدل على مشروعية قراءة سورة مع الفاتحة في الجنازة. قال الشوكاني: لا محيص عن المصير إلى ذلك؛ لأنها زيادة خارجة من مخرج صحيح. قلت: ويدل عليه أيضاً ما ذكره ابن حزم في المحلى (ج5ص129) معلقاً عن محمد بن عمرو بن عطاء أن المسور بن مخرمة صلى على الجنازة، فقرأ في التكبيرة الأولى بفاتحة الكتاب وسورة قصيرة رفع بهما صوته فلما فرغ قال: لا أجهل أن تكون هذه الصلاة عجماء ولكن أردت أن أعلمكم أن فيها قراءة.۔ (مرعاة المفاتیح، ج:2ص:478 )حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری ؒ کے اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ جنازہ میں پڑھنی واجب ہے، جیسا کہ امام شافعی اور احمد اور اسحاق وغیر ہم کا مذہب ہے۔ ان سب کا اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی نماز ہے اور حدیث میں موجود ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ پس نماز جنازہ بھی اسی عموم کے تحت داخل ہے اور اسے اس عموم سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنازہ ایک نماز ہے جس میں قیام واجب ہے۔ پس دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی قرات واجب ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی قرات کا صریح حکم موجود ہے۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ام شریک سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں کچھ ضعف ہے مگر دیگر دلائل وشواہد کی بناپر اس سے استدلال درست ہے اور طبرانی میں بھی ام عفیف سے ایسا ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جمازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ طبرانی میں اسماء بنت یزید سے بھی ایسا ہی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔متاخرین حنفیہ میں ایک مولانا حسن شرنبلانی مرحوم نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ بنامالنظم المستطاب لحکم القراءة في صلوٰة الجنازة بأم الکتابلكھا ہے۔ جس میں ثابت کیا ہے کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کی کراہیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسا ہی مولانا عبدالحی لکھنؤى ؒ نے اپنی تصانیف عمدۃ الرعایہ اور تعلیق الممجد اور امام الکلام وغیرہ میں لکھا ہے۔ پھر حدیث ابن عباس سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے جہر پر دلیل پکڑی گئی ہے کہ وہ حدیث صاف دلیل ہے کہ انہوں نے اسے بالجہر پڑھا۔ یہاں تک کہ مقتدیوں نے اسے سنا اور اس سے بھی زیادہ صریح دلیل وہ ہے جسے نسائی نے روایت کیاہے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز حضرت ابن عباس ؓ کے پیچھے پڑھی۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ کو جہر کے ساتھ ہم کو سنا کر پڑھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ مسئلہ آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک یہی سنت اور حق ہے اور جنازہ کی دعاؤں کو جہر سے پڑھنے پر عوف بن مالک کی حدیث دلیل ہے۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کے بلند آواز سے پڑھنے پر سن سن کر ان دعاؤں کو حفظ ویاد کرلیا تھا اور اس سے بھی زیادہ صریح واثلہ کی حدیث ہے۔ اور علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے روایات مذکورہ کی بناپر جہر کو مستحب مانا ہے، جیسا کہ ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جمہور نے آہستہ پڑھنے کو مستحب گردانا ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث امامہ ہے جس میں آہستہ پڑھنے کو سنت بتایا گیا ہے۔ أخرجه النسائي۔ علامہ ابن حزم ؒ نے محلّٰی میں اور امام شافعی نے کتاب الام میں اور بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے ایک صحابی نے فرمایا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے۔شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پیچھے ایک جنازہ میں بمقام ابواء شریک ہوا۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور درود اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھا پھر فرمایا کہ میں جہر سے نہ پڑھتا مگر اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔ اور منتقی ابن جارود میں ہے کہ زید بن طلحہ تیمی نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورت کو بلند آواز سے پڑھا اور بعد میں فرمایا کہ میں نے اس لیے جہر کیا ہے تاکہ تم کو سکھلاؤں کہ یہ سنت ہے۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ جہر اور سرہردو کے لیے اختیار ہے۔ بعض شافعی حضرات نے کہا کہ رات کو جنازہ میں جہر اور دن میں سر کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری ؒ قول جمہور کی طرف ہیں اور فرماتے ہیں کہ قرات آہستہ ہی مستحب ہے اور نسائی والی روایات عبداللہ بن عباس ؓ میں دلیل ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا مشروع ہے۔ مسور بن مخرمہ نے ایک جنازہ میں پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ اور ایک مختصر سی سورت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ میں نے قرات جہر سے اس لیے کی ہے کہ تم جان لو کہ اس نماز میں بھی قرات ہے اور یہ نماز گونگی ( بغیر قراءت والی ) نہیں ہے۔انتهیمختصرا خلاصته المرام۔ یہ کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی ؒ نے اپنی مشہور کتاب مالا بدمنه میں اپنا وصیت نامہ بھی درج فرمایا ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جو اس میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ پس ثابت ہوا کہ جملہ اہل حق کا یہی مختار مسلک ہے۔ علمائے احناف کا فتوی! فاضل محترم صاحب تفہیم البخاری نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جائز ہے۔ جب دوسری دعاؤں سے اس میں جامعیت بھی زیادہ ہے تو اس کے پڑھنے میں حرج کیا ہوسکتا ہے۔ البتہ دعا اور ثناءکی نیت سے اسے پڑھنا چاہئے قرات کی نیت سے نہیں۔ ( تفہیم البخاری‘ پ5 ص:122 ) فاضل موصوف نے آخر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ صحیح نہیں، جب کہ سابقہ روایات مذکورہ میں اسے قرات کے طور پر پڑھنا ثابت ہے۔ پس اس فرق کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ بہر حال خدا کرے ہمارے محترم حنفی بھائی جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع فرمادیں، یہ بھی ایک نیک اقدام ہوگا۔ روایات بالا میں حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے اس کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ العالی ؒ نے یوں فرمائی ہے۔ والمراد بالسنة: الطريقة المألوفة عنه - صلى الله عليه وسلم - لا ما يقابل الفريضة، فإنه اصطلاح عرفي حادث. قال الأشرف: الضمير المؤنث لقراءة الفاتحة، وليس المراد بالسنة أنها ليست بواجبة بل ما يقابل البدعة، أي أنها طريقة مروية. وقال القسطلاني: إنها أي قراءة الفاتحة في الجنازة سنة. أي طريقة للشارع، فلا ينافي كونها واجبة. وقد علم أن قول الصحابي: من السنة كذا، حديث مرفوع عند الأكثر. قال الشافعي في الأم: وأصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - لا يقولون: السنة إلا لسنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إن شاء الله تعالى-انتهى.(مرعاة المفاتیح، ص:477) یعنی یہاں لفظ سنت سے طریقہ مالوفہ نبی کریم ﷺ مراد ہے نہ وہ سنت جو فرض کے مقابلہ پر ہوتی ہے۔ یہ ایک عرفی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یہ مراد نہیں کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ وہ سنت مراد ہے جو بدعت کے مقابلہ پر بولی جاتی ہے۔ یعنی یہ طریقہ مرویہ ہے اور قسطلانی نے کہا کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی سنت ہے یعنی شارع کا طریقہ ہے اور یہ واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام لفظ سنت کا استعمال سنت یعنی طریقہ رسول اللہ ﷺ پر کرتے تھے۔ اقوال صحابہ میں حدیث مرفوع پر بھی سنت کا لفظ بولا گیا ہے۔ بہرحال یہاں سنت سے مراد یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ نماز میں پڑھنا طریقہ نبوی ہے اور یہ واجب ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ تفصیل بالا میں بیان کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Talha bin 'Abdullah bin 'Auf (RA): I offered the funeral prayer behind Ibn Abbas (RA) and he recited Al-Fatiha and said, "You should know that it (i.e. recitation of Al-Fatiha) is the tradition of the Prophet (ﷺ) Muhammad.