باب: مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھنا
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To offer the (funeral) Salat on the grave after the burial of the deceased)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1337.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام (مردیا عورت) مسجد میں رہتا اور جھاڑودیا کرتا تھا۔ اس کا انتقال ہوگیا اور نبی ﷺ کو اس کی موت کا علم نہ ہوسکا۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر فرمایا اور دریافت کیا:’’وہ شخص کہاں ہے؟‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اس کی وفات ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا:’’تم لوگوں نے مجھے مطلع کیوں نہ کیا؟‘‘ انھوں نے عرض کیا:حضرت اس کاقصہ تو اس طرح ہے گویا انھوں نے اس کا معاملہ اتنا اہم نہ سمجھا ۔آپ نے فرمایا:’’مجھے اس کی قبر سے آگاہ کرو۔‘‘ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح:
حضرت یزید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی قبر پر جا کر اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:48/4) ایک روایت میں ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے حتی کہ اس عورت کی قبر کے پاس کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اس طرح صفیں درست کیں، جیسا کہ نماز جنازہ کے لیے صفیں درست کی جاتی ہیں، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:48/4) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دفن کیے جانے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن بعض حضرات کا خیال ہے کہ ایسا کرنا غیر مشروع ہے اور رسول اللہ ﷺ کا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا آپ کی خصوصیت ہے، کیونکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ یہ قبریں اہل قبور کے لیے اندھیروں سے بھری ہوئی ہیں اور میری دعا سے ان کی قبروں میں روشنی ہو جاتی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:46/4) امام ابن حبان نے اس کا جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں پر کوئی انکار نہیں کیا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہیں بلکہ امت کے لیے بھی جائز ہے۔ (صحیح ابن حبان:36/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1300
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1337
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1337
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1337
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام (مردیا عورت) مسجد میں رہتا اور جھاڑودیا کرتا تھا۔ اس کا انتقال ہوگیا اور نبی ﷺ کو اس کی موت کا علم نہ ہوسکا۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر فرمایا اور دریافت کیا:’’وہ شخص کہاں ہے؟‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اس کی وفات ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا:’’تم لوگوں نے مجھے مطلع کیوں نہ کیا؟‘‘ انھوں نے عرض کیا:حضرت اس کاقصہ تو اس طرح ہے گویا انھوں نے اس کا معاملہ اتنا اہم نہ سمجھا ۔آپ نے فرمایا:’’مجھے اس کی قبر سے آگاہ کرو۔‘‘ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز جنازہ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت یزید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی قبر پر جا کر اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:48/4) ایک روایت میں ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے حتی کہ اس عورت کی قبر کے پاس کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اس طرح صفیں درست کیں، جیسا کہ نماز جنازہ کے لیے صفیں درست کی جاتی ہیں، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:48/4) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دفن کیے جانے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن بعض حضرات کا خیال ہے کہ ایسا کرنا غیر مشروع ہے اور رسول اللہ ﷺ کا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا آپ کی خصوصیت ہے، کیونکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ یہ قبریں اہل قبور کے لیے اندھیروں سے بھری ہوئی ہیں اور میری دعا سے ان کی قبروں میں روشنی ہو جاتی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:46/4) امام ابن حبان نے اس کا جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں پر کوئی انکار نہیں کیا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہیں بلکہ امت کے لیے بھی جائز ہے۔ (صحیح ابن حبان:36/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن فضل نے کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے بیان کیا‘ ان سے ابو رافع نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ کالے رنگ کا ایک مرد یا ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھیں‘ ان کی وفات ہوگئی لیکن نبی کریم ﷺ کو ان کی وفات کی خبر کسی نے نہیں دی۔ ایک دن آپ نے خود یاد فرمایا کہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ( ﷺ )! ان کا تو انتقال ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ وجوہ تھیں ( اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی ) گویا لوگوں نے ان کو حقیر جان کر قابل توجہ نہیں سمجھا، لیکن آپ نے فرمایا کہ چلو مجھے ان کی قبر بتادو۔ چنانچہ آپ ﷺ اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
یہ کالا مرد یا کالی عورت مسجد نبوی کی جاروب کش بڑے بڑے بادشاہان ہفت اقلیم سے اللہ کے نزدیک مرتبہ اور درجہ میں زائد تھی۔ حبیب خدا ﷺ نے ڈھونڈ کر اس کی قبر پر نماز پڑھی۔ واہ رے قسمت! آپ کی کفش برداری اگر ہم کو بہشت میں نصیب ہوجائے تو ایسی دنیا کی لاکھوں سلطنتیں اس پر تصدق کردیں۔ (وحیدي) حضرت امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت فرمایا کہ اگر کسی مسلمان مرد یا عورت کا جنازہ نہ پڑھا گیا ہو تو قبر پر دفن کرنے کے بعد بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ بعض نے اسے نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص بتلایا ہے مگر یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A black person, a male or a female used to clean the Mosque and then died. The Prophet (ﷺ) did not know about it . One day the Prophet (ﷺ) remembered him and said, "What happened to that person?" The people replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! He died." He said, "Why did you not inform me?" They said, "His story was so and so (i.e. regarded him as insignificant)." He said, "Show me his grave." He then went to his grave and offered the funeral prayer. ________