باب: قبر کے پاس عالم کا بیٹھنا اور لوگوں کو نصیحت کرنا اور لوگوں کا اس کے اردگرد بیٹھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Preacher delivering a lecture at a grave and the sitting of his com anions around him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورۃ القمر میں آیت «يخرجون من الأجداث» میں «أجداث» سے قبریں مراد ہیں۔ اور سورۃ انفطار میں «بعثرت» کے معنے اٹھائے جانے کے ہیں۔ عربوں کے قول میں «بعثرت حوضي» کا مطلب یہ کہ حوض کا نچلا حصہ اوپر کر دیا۔ «إيفاض» کے معنے جلدی کرنا۔ اور اعمش کی قرآت میں «إلى نصب» ( «بفتح نون») ہے یعنی ایک «شىء منصوب» کی طرف تیزی سے دوڑے جا رہے ہیں تاکہ اس سے آگے بڑھ جائیں۔ «نصب» ( «بضم نون») واحد ہے اور «نصيب» ( «بفتح نون») مصدر ہے اور سورۃ ق میں «يوم الخروج» سے مراد مردوں کا قبروں سے نکلنا ہے۔ اور سورۃ انبیاء میں «ينسلون» «يخرجون» کے معنے میں ہے۔
1362.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا:ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد میں تھے کہ نبی کریم ﷺ ہمارے قریب تشریف لاکر بیٹھ گئے اور ہم لوگ بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے اپنا سر جھکا لیا اور چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی ایسا جاندار نہیں جس کی جگہ جنت یا دوزخ میں نہ لکھی گئی ہو اور ہرشخص کا نیک بخت یا بدنصیب ہونابھی لکھا گیا ہے۔‘‘ اس پر ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ ! پھر ہم اس نوشتے(لکھے ہوئے) پر اعتماد کرکے عمل چھوڑ نہ دیں، کیونکہ ہم میں سے جو شخص خوش نصیب ہوگا وہ اہل سعادت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا اور جو شخص بدبخت ہوگا وہ اہل شقاوت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا۔آپ نے فرمایا:’’سعید کو عمل سعادت کی توفیق دی جاتی ہے۔ اور شقی کے لیے عمل شقاوت آسان کردیا جاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’پھر جو شخص صدقہ دے گا اور پرہیز گاری اختیار کرے گا، نیز عمدہ بات کی تصدیق کرے گا(تو ہم اسے ضرور آسانی (عمل سعادت) کی توفیق دیں گے)۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر کے پاس وعظ و نصیحت کی مجلس قائم کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا اذکار و عبادات کے حکم میں نہیں جو کہ قبر کے پاس مکروہ ہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص قبر کے پاس جا کر بیٹھے تو اسے انذار و تحذیر کی باتیں کرنی چاہئیں، کیونکہ قبرونشر بالکل قریب ہے، اس کی تیاری میں مصروف رہنا چاہیے۔ (2) یہ حدیث اثبات تقدیر کے لیے ایک عظیم دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ ہم چونکہ اللہ کے بندے ہیں، لہذا بندگی اور اس کے احکام کی بجا آوری ہمارا کام ہونا چاہیے۔ اللہ کی تقدیر کا ہمیں علم نہیں کہ اس کے سہارے عمل ترک کر دیا جائے، پھر عمل کو چھوڑا بھی کیسے جا سکتا ہے؟ کیونکہ اچھے اور برے اعمال تو طے شدہ ہیں اور انجام کا مدار انہی اعمال پر ہے۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے توکل کرتے ہوئے ترک عمل کا سوال کرنے والوں کو بطور اسلوب حکیم جواب دیا ہے کہ وہ اس خیال کر ترک کر کے اپنی عبودیت اور بندگی بجا لانے کا راستہ اختیار کریں اور امور الٰہیہ میں تصرف و دخل اندازی کا راستہ اختیار نہ کریں، اسی طرح عبادت اور ترک عبادت کو دخول جنت اور ورود جہنم کا مستقل سبب خیال نہ کریں بلکہ انہیں صرف علامات کے طور پر اختیار کریں، یعنی عبادات اور نیک اعمال اختیار کرنے والے جنت کے راستے پر گامزن ہیں اور بے عمل و بدکردار جہنم کی سمت چل رہے ہیں۔ (فتح الباري:288/3) تقدیر کے متعلق مکمل مباحث کتاب القدر (حدیث: 6605) کے فوائد میں بیان ہوں گے۔ بإذن الله۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1324
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1362
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1362
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1362
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ ان کے قائم کردہ عنوان یا پیش کردہ حدیث کے مناسب جو قرآنی الفاظ ہوتے ہیں ان کی بعض اوقات تفسیر کر دیتے ہیں۔ مذکورہ تفاسیر کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ ان الفاظ کا قبر اور وعظ دونوں سے تعلق ہے۔ علامہ زین بن منیر نے فرمایا ہے کہ عنوان میں ان آیات کا لانا اس مقصد کے پیش نظر ہے کہ قبر کے پاس بیٹھنے والے کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنا کلام اس حد تک بیان کرے جس سے لوگوں کو ڈرانا مقصود ہو، یعنی انہوں نے عنقریب قبروں میں جانا ہے پھر ان سے نکل کر محاسبے کے لیے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ (فتح الباری:3/288)
سورۃ القمر میں آیت «يخرجون من الأجداث» میں «أجداث» سے قبریں مراد ہیں۔ اور سورۃ انفطار میں «بعثرت» کے معنے اٹھائے جانے کے ہیں۔ عربوں کے قول میں «بعثرت حوضي» کا مطلب یہ کہ حوض کا نچلا حصہ اوپر کر دیا۔ «إيفاض» کے معنے جلدی کرنا۔ اور اعمش کی قرآت میں «إلى نصب» ( «بفتح نون») ہے یعنی ایک «شىء منصوب» کی طرف تیزی سے دوڑے جا رہے ہیں تاکہ اس سے آگے بڑھ جائیں۔ «نصب» ( «بضم نون») واحد ہے اور «نصيب» ( «بفتح نون») مصدر ہے اور سورۃ ق میں «يوم الخروج» سے مراد مردوں کا قبروں سے نکلنا ہے۔ اور سورۃ انبیاء میں «ينسلون» «يخرجون» کے معنے میں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت علی ؓ سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا:ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد میں تھے کہ نبی کریم ﷺ ہمارے قریب تشریف لاکر بیٹھ گئے اور ہم لوگ بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے اپنا سر جھکا لیا اور چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی ایسا جاندار نہیں جس کی جگہ جنت یا دوزخ میں نہ لکھی گئی ہو اور ہرشخص کا نیک بخت یا بدنصیب ہونابھی لکھا گیا ہے۔‘‘ اس پر ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ ! پھر ہم اس نوشتے(لکھے ہوئے) پر اعتماد کرکے عمل چھوڑ نہ دیں، کیونکہ ہم میں سے جو شخص خوش نصیب ہوگا وہ اہل سعادت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا اور جو شخص بدبخت ہوگا وہ اہل شقاوت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا۔آپ نے فرمایا:’’سعید کو عمل سعادت کی توفیق دی جاتی ہے۔ اور شقی کے لیے عمل شقاوت آسان کردیا جاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’پھر جو شخص صدقہ دے گا اور پرہیز گاری اختیار کرے گا، نیز عمدہ بات کی تصدیق کرے گا(تو ہم اسے ضرور آسانی (عمل سعادت) کی توفیق دیں گے)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر کے پاس وعظ و نصیحت کی مجلس قائم کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا اذکار و عبادات کے حکم میں نہیں جو کہ قبر کے پاس مکروہ ہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص قبر کے پاس جا کر بیٹھے تو اسے انذار و تحذیر کی باتیں کرنی چاہئیں، کیونکہ قبرونشر بالکل قریب ہے، اس کی تیاری میں مصروف رہنا چاہیے۔ (2) یہ حدیث اثبات تقدیر کے لیے ایک عظیم دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ ہم چونکہ اللہ کے بندے ہیں، لہذا بندگی اور اس کے احکام کی بجا آوری ہمارا کام ہونا چاہیے۔ اللہ کی تقدیر کا ہمیں علم نہیں کہ اس کے سہارے عمل ترک کر دیا جائے، پھر عمل کو چھوڑا بھی کیسے جا سکتا ہے؟ کیونکہ اچھے اور برے اعمال تو طے شدہ ہیں اور انجام کا مدار انہی اعمال پر ہے۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے توکل کرتے ہوئے ترک عمل کا سوال کرنے والوں کو بطور اسلوب حکیم جواب دیا ہے کہ وہ اس خیال کر ترک کر کے اپنی عبودیت اور بندگی بجا لانے کا راستہ اختیار کریں اور امور الٰہیہ میں تصرف و دخل اندازی کا راستہ اختیار نہ کریں، اسی طرح عبادت اور ترک عبادت کو دخول جنت اور ورود جہنم کا مستقل سبب خیال نہ کریں بلکہ انہیں صرف علامات کے طور پر اختیار کریں، یعنی عبادات اور نیک اعمال اختیار کرنے والے جنت کے راستے پر گامزن ہیں اور بے عمل و بدکردار جہنم کی سمت چل رہے ہیں۔ (فتح الباري:288/3) تقدیر کے متعلق مکمل مباحث کتاب القدر (حدیث: 6605) کے فوائد میں بیان ہوں گے۔ بإذن الله۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس دن وہ پرانی قبروں سے نکلیں گے۔ " أَجْدَاثِ سے مراد قبریں ہیں۔ "(جب قبریں) اکھیڑ دی جائیں گی۔ " بُعْثِرَتْکے معنی اکھیڑنا ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ بُعْثِرَتْ حوضيمیں نے حوض کا نچلا حصہ اوپر کردیا۔ ايفاضکے معنی ہیں: تیز دوڑنا۔ امام اعمش نے ارشاد باری: "وہ آستانوں کی طرف تیز دوڑ رہے ہوں گے"کے معنی یہ کیے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے سبقت کررہے ہوں گے۔ نَصَبٌ واحد ہے اور نَصَبٌمصدر ہے۔
يَوْمُ الْخُرُوجِ سے مراد قبروں سے نکلنے کا دن ہے۔ يَنسِلُونَکے معنی ہیں: وہ اپنی قبروں سے نکلیں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان ابن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے جریر نے بیان کیا‘ ان سے منصور بن معتمر نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن عبیدہ نے‘ ان سے ابوعبدالرحمن عبداللہ بن حبیب نے اور ان سے حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے پاس ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کرید نے لگے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں یا کوئی جان ایسی نہیں جس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ دونوں جگہ نہ لکھا گیا ہو اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگی یا بدبخت۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کرلیں اور عمل چھوڑ دیں، کیونکہ جس کا نام نیک دفتر میں لکھا ہے وہ ضرور نیک کام کی طرف رجوع ہوگا اور جس کا نام بدبختوں میں لکھا ہے وہ ضرور بدی کی طرف جائے گا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جن کا نام نیک بختوں میں ہے ان کو اچھے کام کرنے میں ہی آسانی معلوم ہوتی ہے اور بدبختوں کو بُرے کاموں میں آسانی نظرآتی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی ﴿ فأَمامَن أَعطی واتقی الخ ﴾
حدیث حاشیہ:
یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا اور پرہیز گاری اختیارکی اور اچھے دین کو سچا مانا اس کو ہم آسانی کے گھر یعنی بہشت میں پہنچنے کی توفیق دیں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی شرح وَاللیلِ میں آئے گی۔ اور یہ حدیث تقدیر کے اثبات میں ایک اصل عظیم ہے۔ آپ کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ عمل کرنا اور محنت اٹھانا ضروری ہے۔ جیسے حکیم کہتا ہے کہ دوا کھائے جاؤ حالانکہ شفا دینا اللہ کا کام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA): " We were accompanying a funeral procession in Baqi-I-Gharqad. The Prophet (ﷺ) came to us and sat and we sat around him. He had a small stick in his hand then he bent his head and started scraping the ground with it. He then said, "There is none among you, and not a created soul, but has place either in Paradise or in Hell assigned for him and it is also determined for him whether he will be among the blessed or wretched." A man said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Should we not depend on what has been written for us and leave the deeds as whoever amongst us is blessed will do the deeds of a blessed person and whoever amongst us will be wretched, will do the deeds of a wretched person?" The Prophet (ﷺ) said, "The good deeds are made easy for the blessed, and bad deeds are made easy for the wretched." Then he recited the Verses:-- "As for him who gives (in charity) and is Allah-fearing And believes in the Best reward from Allah. " (92.5-6)