Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To seek refuge from the punishment in the grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1375.
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے ،انھوں نےفرمایا:ایک دن غروب آفتاب کے بعد نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ نے ایک ہولناک آواز سنی۔ اس وقت آپ نےفرمایا:’’یہود کو ان کی قبروں میں عذاب دیاجارہا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس آواز کے متعلق تین احتمال ہیں: ٭ ملائکہ عذاب کی آواز تھی۔ ٭ یہودیوں کی آواز تھی جنہیں عذاب دیا جا رہا تھا۔ ٭ خود عذاب کی آواز تھی۔ چنانچہ طبرانی کی ایک روایت میں وضاحت ہے، حضرت ابو ایوب ؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غروب آفتاب کے بعد نکلا، میرے پاس پانی کا ایک برتن تھا، رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ واپس آئے تو میں نے آپ کو وضو کرایا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ’’تو کوئی آواز سنتا ہے جیسے میں سن رہا ہوں؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں یہود کی آوازیں سن رہا ہوں جنہیں قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘(المعجم الکبیرللطبراني:120/4 ،121، حدیث:3857، طبع دارإحیاءالتراث العربي، و فتح الباري:306/3) (2) مصنف نے حسب عادت یہ ثابت کیا ہے کہ ایسے مواقع پر اللہ سے پناہ طلب کرنی چاہیے، نیز جب یہودیوں کے لیے عذاب قبر ثابت ہوا تو مشرکین کے لیے بھی ہو گا، کیونکہ ان کا کفر یہودیوں کے کفر سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ (3) مصنف نے اس حدیث کے بعد حضرت نضر کے حوالے سے اس کی ایک دوسری سند بیان کی ہے جس میں عون کی اپنی باپ سے اور ان کے باپ کی حضرت براء بن عازب ؓ سے تصریح سماع ہے۔ اسحاق بن راہویہ نے اپنی سند میں اس کا متن بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ یہود ہیں جنہیں قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1336
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1375
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1375
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1375
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے ،انھوں نےفرمایا:ایک دن غروب آفتاب کے بعد نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ نے ایک ہولناک آواز سنی۔ اس وقت آپ نےفرمایا:’’یہود کو ان کی قبروں میں عذاب دیاجارہا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس آواز کے متعلق تین احتمال ہیں: ٭ ملائکہ عذاب کی آواز تھی۔ ٭ یہودیوں کی آواز تھی جنہیں عذاب دیا جا رہا تھا۔ ٭ خود عذاب کی آواز تھی۔ چنانچہ طبرانی کی ایک روایت میں وضاحت ہے، حضرت ابو ایوب ؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غروب آفتاب کے بعد نکلا، میرے پاس پانی کا ایک برتن تھا، رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ واپس آئے تو میں نے آپ کو وضو کرایا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ’’تو کوئی آواز سنتا ہے جیسے میں سن رہا ہوں؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں یہود کی آوازیں سن رہا ہوں جنہیں قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘(المعجم الکبیرللطبراني:120/4 ،121، حدیث:3857، طبع دارإحیاءالتراث العربي، و فتح الباري:306/3) (2) مصنف نے حسب عادت یہ ثابت کیا ہے کہ ایسے مواقع پر اللہ سے پناہ طلب کرنی چاہیے، نیز جب یہودیوں کے لیے عذاب قبر ثابت ہوا تو مشرکین کے لیے بھی ہو گا، کیونکہ ان کا کفر یہودیوں کے کفر سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ (3) مصنف نے اس حدیث کے بعد حضرت نضر کے حوالے سے اس کی ایک دوسری سند بیان کی ہے جس میں عون کی اپنی باپ سے اور ان کے باپ کی حضرت براء بن عازب ؓ سے تصریح سماع ہے۔ اسحاق بن راہویہ نے اپنی سند میں اس کا متن بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ یہود ہیں جنہیں قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے‘ کہا ہم سے شعبہ نے‘ کہا کہ مجھ سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد ابو حجیفہ نے‘ ان سے براءبن عازب نے اور ان سے ابوایوب انصاری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے سورج غروب ہوچکا تھا‘ اس وقت آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ ( یہودیوں پر عذاب قبر کی ) پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہودی پر اس کی قبر میں عذاب ہورہا ہے۔ اور نضربن شمیل نے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ، ان سے عون نے بیان کیا‘ انہوں نے اپنے باپ ابوحجیفہ سے سنا‘ انہوں نے براءسے سنا‘ انہوں نے ابوایوب انصاری ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abi Aiyub (RA): Once the Prophet (ﷺ) went out after sunset and heard a dreadful voice, and said, "The Jews are being punished in their graves."