باب:اس بارے میں کہ ہلکا وضو کرنا بھی درست اورجائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To perform a light ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
138.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ سوئے، یہاں تک کہ خراٹے بھرنے لگے، پھر آپ نے (بیدار ہو کر) نماز پڑھی، کبھی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: نبی ﷺ کروٹ پر لیٹے، یہاں تک کہ سانس کی آواز آنے لگی، پھر بیدار ہو کر آپ نے نماز پڑھی۔ پھر حضرت سفیان نے اس روایت کو دوبارہ تفصیل سے بیان کیا کہ ابن عباسؓ نے فرمایا: میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر رات گزاری۔ نبی ﷺ رات کے کسی حصے میں بیدار ہوئے۔ جب کچھ رات گزر گئی تو آپ کھڑے ہوئے اور لٹکتے ہوئے مشکیزے سے ہلکا وضو فرمایا۔ عمرو (راوی) اس (وضو) کا ہلکا پن اور معمولی ہونا بیان کرتا ہے۔ اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی آپؐ ہی کی طرح وضو کیا، پھر میں آ کر آپؐ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ سفیان نے کبھی یسار کے بجائے شمال کا لفظ استعمال کیا۔ آپؐ نے مجھے پھیرا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ پھر آپؐ نے جس قدر اللہ کی توفیق میسر آئی، (تہجد کی) نماز ادا فرمائی، پھر کروٹ کے بل لیٹ کر سو گئے حتیٰ کہ خراٹے بھرنے لگے۔ پھر مؤذن آیا اور اس نے آپؐ کو نماز کی اطلاع دی۔ آپؐ اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ آپؐ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا۔ (سفیان کہتے ہیں) ہم نے (اپنے استاد) عمرو سے کہا: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نیند کا اثر رسول اللہ ﷺ کے دل پر نہیں، بلکہ صرف آنکھ پر ہوتا تھا۔ عمرو نے جواب دیا: میں نے عبید بن عمیر کو یہ کہتے سنا ہے کہ حضرات انبیاء ؑ کے خواب وحی ہوتے ہیں، پھر درج ذیل آیت کو بطور دلیل تلاوت فرمایا: ’’میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کی دو اقسام بیا ن کی ہیں:1۔ وضوئے خفیف۔ 2۔ وضوئے تام۔ وضوئے خفیف کی دو صورتیں ہیں:(الف)۔ اعضائے وضو کا ایک ایک بار دھونا۔ یہ وضو کا ادنیٰ درجہ ہے۔ (ب)۔ اعضائے وضو کو اچھی طرح دھونے کے بجائے صرف پانی بہا لیا جائے۔ وضوئے طعام اور وضوئے نوم کو بھی ہلکا وضو کہا جاتا ہے۔ وضوئے تام کی ایک ہی صورت ہے کہ اعضائے وضو کوتین تین بار اچھی طرح دھویا جائے۔ اس کی تفصیل آئندہ باب میں بیان ہوگی، نیز راوی حدیث نے وضوئے خفیف کے لیے دولفظ استعمال کیے ہیں۔ (ج)۔ تخفیف۔ اس سے کیفیت، یعنی میعار کی طرف اشارہ ہے پانی کے خرچ کے اعتبار سے تخفیف ہے۔ (د)۔ تقلیل۔ اس سے کمیت، یعنی مقدار کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک ایک مرتبہ دھونا، تقلیل ہے۔ لیکن وضوئے خفیف کی تفسیر احادیث میں بایں طور ہے کہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں، آپ نے بہترین وضو فرمایا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4571) دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے درمیانی طریقے سے وضو فرمایا، بکثرت پانی بھی نہیں بہایا، تمام اعضاء تک پانی بھی اچھی طرح پہنچایا۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6316) ان احادیث سے وضوئے خفیف کی تفسیر ہوتی ہے۔ 2۔ جب حدیث میں یہ ذکر ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے بیدار ہو کر وضو کیے بغیر نماز ادا کی تو تلامذہ میں سے کسی نے راوی حدیث حضرت عمرو سے پوچھا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک سوتی ہیں لیکن دل مبارک بیدار رہتا ہے، تو اس کی کیا حقیقت ہے؟ انھوں نے کہا:جب انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں اوروحی کا یاد رکھنا اور اس کی حفاظت دل کی بیداری پر موقوف ہے، اگر دل بیدار نہ ہوگا تو پھر وحی کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ جب وحی محفوظ نہ رہی ہو تو وہ شریعت کا مدار بھی نہیں بن سکے گی تو معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء علیہ السلام کے قلوب نیند میں بھی بیدار رہتے ہیں اور جب دل بیدار رہتا ہے تو وہ بدستور نیند کی حالت میں بھی ادراک کرتا رہے گا، لہذا محض نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹنے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، البتہ اگرریح کا خروج ہو تو وضو جاتا رہے گا۔ یہ وجہ ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کے بعد وضو فرمایا۔ اور مدار نقض بحالت نیند حقیقی خروج ہے نہ کہ صرف مظنہ خروج کیونکہ یہ عام لوگوں کے حق میں ہے۔ اس کی تائید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک خواب اور اس کے مطابق عملی اقدام پیش کیا گیا ہے، یعنی اگر انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی کے حکم میں نہ ہوتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب کی بنیاد پر ایک ایسے اقدام کے لیے تیار نہ ہوتے جس میں بظاہر قتل نفس اور قطع رحم ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
140
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
138
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
138
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
138
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ سوئے، یہاں تک کہ خراٹے بھرنے لگے، پھر آپ نے (بیدار ہو کر) نماز پڑھی، کبھی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: نبی ﷺ کروٹ پر لیٹے، یہاں تک کہ سانس کی آواز آنے لگی، پھر بیدار ہو کر آپ نے نماز پڑھی۔ پھر حضرت سفیان نے اس روایت کو دوبارہ تفصیل سے بیان کیا کہ ابن عباسؓ نے فرمایا: میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر رات گزاری۔ نبی ﷺ رات کے کسی حصے میں بیدار ہوئے۔ جب کچھ رات گزر گئی تو آپ کھڑے ہوئے اور لٹکتے ہوئے مشکیزے سے ہلکا وضو فرمایا۔ عمرو (راوی) اس (وضو) کا ہلکا پن اور معمولی ہونا بیان کرتا ہے۔ اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی آپؐ ہی کی طرح وضو کیا، پھر میں آ کر آپؐ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ سفیان نے کبھی یسار کے بجائے شمال کا لفظ استعمال کیا۔ آپؐ نے مجھے پھیرا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ پھر آپؐ نے جس قدر اللہ کی توفیق میسر آئی، (تہجد کی) نماز ادا فرمائی، پھر کروٹ کے بل لیٹ کر سو گئے حتیٰ کہ خراٹے بھرنے لگے۔ پھر مؤذن آیا اور اس نے آپؐ کو نماز کی اطلاع دی۔ آپؐ اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ آپؐ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا۔ (سفیان کہتے ہیں) ہم نے (اپنے استاد) عمرو سے کہا: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نیند کا اثر رسول اللہ ﷺ کے دل پر نہیں، بلکہ صرف آنکھ پر ہوتا تھا۔ عمرو نے جواب دیا: میں نے عبید بن عمیر کو یہ کہتے سنا ہے کہ حضرات انبیاء ؑ کے خواب وحی ہوتے ہیں، پھر درج ذیل آیت کو بطور دلیل تلاوت فرمایا: ’’میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کی دو اقسام بیا ن کی ہیں:1۔ وضوئے خفیف۔ 2۔ وضوئے تام۔ وضوئے خفیف کی دو صورتیں ہیں:(الف)۔ اعضائے وضو کا ایک ایک بار دھونا۔ یہ وضو کا ادنیٰ درجہ ہے۔ (ب)۔ اعضائے وضو کو اچھی طرح دھونے کے بجائے صرف پانی بہا لیا جائے۔ وضوئے طعام اور وضوئے نوم کو بھی ہلکا وضو کہا جاتا ہے۔ وضوئے تام کی ایک ہی صورت ہے کہ اعضائے وضو کوتین تین بار اچھی طرح دھویا جائے۔ اس کی تفصیل آئندہ باب میں بیان ہوگی، نیز راوی حدیث نے وضوئے خفیف کے لیے دولفظ استعمال کیے ہیں۔ (ج)۔ تخفیف۔ اس سے کیفیت، یعنی میعار کی طرف اشارہ ہے پانی کے خرچ کے اعتبار سے تخفیف ہے۔ (د)۔ تقلیل۔ اس سے کمیت، یعنی مقدار کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک ایک مرتبہ دھونا، تقلیل ہے۔ لیکن وضوئے خفیف کی تفسیر احادیث میں بایں طور ہے کہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں، آپ نے بہترین وضو فرمایا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4571) دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے درمیانی طریقے سے وضو فرمایا، بکثرت پانی بھی نہیں بہایا، تمام اعضاء تک پانی بھی اچھی طرح پہنچایا۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6316) ان احادیث سے وضوئے خفیف کی تفسیر ہوتی ہے۔ 2۔ جب حدیث میں یہ ذکر ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے بیدار ہو کر وضو کیے بغیر نماز ادا کی تو تلامذہ میں سے کسی نے راوی حدیث حضرت عمرو سے پوچھا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک سوتی ہیں لیکن دل مبارک بیدار رہتا ہے، تو اس کی کیا حقیقت ہے؟ انھوں نے کہا:جب انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں اوروحی کا یاد رکھنا اور اس کی حفاظت دل کی بیداری پر موقوف ہے، اگر دل بیدار نہ ہوگا تو پھر وحی کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ جب وحی محفوظ نہ رہی ہو تو وہ شریعت کا مدار بھی نہیں بن سکے گی تو معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء علیہ السلام کے قلوب نیند میں بھی بیدار رہتے ہیں اور جب دل بیدار رہتا ہے تو وہ بدستور نیند کی حالت میں بھی ادراک کرتا رہے گا، لہذا محض نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹنے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، البتہ اگرریح کا خروج ہو تو وضو جاتا رہے گا۔ یہ وجہ ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کے بعد وضو فرمایا۔ اور مدار نقض بحالت نیند حقیقی خروج ہے نہ کہ صرف مظنہ خروج کیونکہ یہ عام لوگوں کے حق میں ہے۔ اس کی تائید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک خواب اور اس کے مطابق عملی اقدام پیش کیا گیا ہے، یعنی اگر انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی کے حکم میں نہ ہوتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب کی بنیاد پر ایک ایسے اقدام کے لیے تیار نہ ہوتے جس میں بظاہر قتل نفس اور قطع رحم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے عمرو کے واسطے سے نقل کیا، انھیں کریب نے ابن عباس ؓ سے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ سوئے یہاں تک کہ آپﷺ خراٹے لینے لگے۔ پھر آپﷺ نے نماز پڑھی اور کبھی (راوی نے یوں) کہا کہ آپﷺ لیٹ گئے۔ پھر خراٹے لینے لگے۔ پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اس کے بعد نماز پڑھی۔ پھر سفیان نے ہم سے دوسری مرتبہ یہی حدیث بیان کی عمرو سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا کہ وہ کہتے تھے کہ (ایک مرتبہ) میں نے اپنی خالہ (ام المؤمنین) حضرت میمونہ ؓ کے گھر رات گزاری، تو (میں نے دیکھا کہ) رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھے۔ جب تھوڑی رات باقی رہ گئی۔ تو آپﷺ نے اٹھ کر ایک لٹکے ہوئے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا۔ عمرو اس کا ہلکا پن اور معمولی ہونا بیان کرتے تھے اور آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، تو میں نے بھی اسی طرح وضو کیا۔ جس طرح آپ ﷺ نے کیا تھا۔ پھر آ کر آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا اور کبھی سفیان نے عن یسارہ کی بجائے عن شمالہ کا لفظ کہا (مطلب دونوں کا ایک ہی ہے) پھر آپ ﷺ نے مجھے پھیر لیا اور اپنی داہنی جانب کر لیا۔ پھر نماز پڑھی جس قدر اللہ کو منظور تھا۔ پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے۔ حتی کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی۔ پھر آپ کی خدمت میں مؤذن حاضر ہوا اور اس نے آپ کو نماز کی اطلاع دی۔ آپ ﷺ اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ (سفیان کہتے ہیں کہ) ہم نے عمرو سے کہا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں سوتی تھیں، دل نہیں سوتا تھا۔ عمرو نے کہا میں نے عبید بن عمیر سے سنا، وہ کہتے تھے کہ انبیاء ؑ کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ پھر (قرآن کی یہ) آیت پڑھی۔"میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔"
حدیث حاشیہ:
رسول کریم نے رات کو جو وضو فرمایا تھا تو یا تو تین مرتبہ ہرعضو کو نہیں دھویا، یا دھویا تو اچھی طرح ملا نہیں، بس پانی بہا دیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ اس طرح بھی وضو ہو جاتا ہے۔ یہ بات صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی کہ نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ آپ کے علاوہ کسی بھی شخص کو لیٹ کر یوں غفلت کی نیند آجائے تواس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ تخفیف وضو کا یہ بھی مطلب ہے کہ پانی کم استعمال فرمایا اور اعضاء وضو پر زیادہ پانی نہیں ڈالا۔ آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول ہے جو انھوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا تھا۔ عبید نے ثابت کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خواب کو وحی ہی سمجھا اسی لیے وہ اپنے لخت جگر کی قربانی کے لیے مستعد ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا خواب بھی وحی الٰہی کا درجہ رکھتا ہے اور یہ کہ پیغمبر سوتے ہیں مگر ان کے دل جاگتے رہتے ہیں۔ عمرونے یہی پوچھا تھا۔ جسے عبید نے ثابت فرمایا۔ وضو میں ہلکا پن سے مراد یہ کہ ایک ایک دفعہ دھویا اور ہاتھ پیروں کو پانی سے زیادہ نہیں ملا۔ بلکہ صرف پانی بہانے پر اقتصار کیا۔ (فتح الباری)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Kuraib: Ibn 'Abbas (RA) said, "The Prophet (ﷺ) slept till he snored and then prayed (or probably lay till his breath sounds were heard and then got up and prayed)." Ibn 'Abbas (RA) added: "I stayed overnight in the house of my aunt, Maimuna, the Prophet (ﷺ) slept for a part of the night, (See Fateh-al-Bari page 249, Vol. 1), and late in the night, he got up and performed ablution from a hanging water skin, a light (perfect) ablution and stood up for the prayer. I, too, performed a similar ablution, then I went and stood on his left. He drew me to his right and prayed as much as Allah wished, and again lay and slept till his breath sounds were heard. Later on the Mua'dhdhin (callmaker for the prayer) came to him and informed him that it was time for Prayer. The Prophet (ﷺ) went with him for the prayer without performing a new ablution." (Sufyan said to 'Amr that some people said, "The eyes of Allah's Apostle (ﷺ) sleep but his heart does not sleep." 'Amr replied, "I heard 'Ubaid bin 'Umar saying that the dreams of Prophets were Divine Inspiration, and then he recited the verse: 'I (Abraham) see in a dream, (O my son) that I offer you in sacrifice (to Allah)." (37.102) (See Hadith No. 183)