Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The dead children of Muslims)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا کہ جس کے تین نابالغ بچے مر جائیں تو یہ بچے اس کے لیے دوزخ سے روک (رکاوٹ) بن جائیں گے یا یہ کہا کہ وہ جنت میں داخل ہو گا۔
1382.
حضرات براء بن عازب ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:جب (جگر گوشہ رسول ﷺ ) حضرت ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جنت میں اس کے لیے ایک دودھ پلانے والی کو تعینات کردیاگیا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) جگر گوشہ رسول حضرت ابراہیم ؓ شیر خوارگی کی عمر میں فوت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کی عظمت کے پیش نظر جنت میں ان کے لیے دودھ پلانے والی دایہ کا بندوبست کر دیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہو گی۔ (2) امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنا اس موقف کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہو گی۔ گویا آپ کو اس کے متعلق پہلے توقف تھا، پھر آپ نے اس کے متعلق اپنے رجحان کو جزم و وثوق سے بیان کیا۔ (فتح الباري:311/3) (3) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں قیاس سے بھی کام لیا ہے کہ جب بچہ والدین کے لیے آگ سے حجاب بن سکتا ہے تو وہ خود آگ سے محجوب کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی نابالغ اولاد جنتی ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1343
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1382
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1382
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1382
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
یہ مطلق روایت انہی الفاظ کے ساتھ متصل سند سے ہمیں کسی کتاب میں دستیاب نہیں ہو سکی۔ مسند امام احمد کی ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے: "جس مسلمان ماں باپ کے تین نابالغ بچے فوت ہو جائیں اللہ انہیں بچوں سمیت محض اپنے فضل سے جنت میں داخل فرمائے گا۔" (مسنداحمد:2/511) صحیح مسلم میں ہے کہ ایک عورت جس کے تین بچے دفن ہو چکے تھے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو نے جہنم سے بچنے کے لیے بہت مضبوط باڑ قائم کی ہے۔" (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6703(2636)) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ فوت ہوا تو انہوں نے گہرے رنج و الم کا اظہار کیا۔ انہیں تسلی دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کے تین نابالغ بچے فوت ہو جائیں وہ قیامت کے دن اس کے لیے جہنم سے رکاوٹ بن جائیں گے۔" (فتح الباری:3/311)
اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا کہ جس کے تین نابالغ بچے مر جائیں تو یہ بچے اس کے لیے دوزخ سے روک (رکاوٹ) بن جائیں گے یا یہ کہا کہ وہ جنت میں داخل ہو گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرات براء بن عازب ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:جب (جگر گوشہ رسول ﷺ ) حضرت ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جنت میں اس کے لیے ایک دودھ پلانے والی کو تعینات کردیاگیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) جگر گوشہ رسول حضرت ابراہیم ؓ شیر خوارگی کی عمر میں فوت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کی عظمت کے پیش نظر جنت میں ان کے لیے دودھ پلانے والی دایہ کا بندوبست کر دیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہو گی۔ (2) امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنا اس موقف کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہو گی۔ گویا آپ کو اس کے متعلق پہلے توقف تھا، پھر آپ نے اس کے متعلق اپنے رجحان کو جزم و وثوق سے بیان کیا۔ (فتح الباري:311/3) (3) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں قیاس سے بھی کام لیا ہے کہ جب بچہ والدین کے لیے آگ سے حجاب بن سکتا ہے تو وہ خود آگ سے محجوب کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی نابالغ اولاد جنتی ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو ہریرۃ ؓعنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا؛ "جس شخص کے تین نابالغ بچے فوت ہوجائیں تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے حجاب بن جائیں گے یا فرمایا کہ وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے عدی بن ثابت نے بیان کیا انہوں نے براءبن عازب ؓ سے سنا‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے ) کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بہشت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں داخل ہوگی۔ آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے کے لیے اللہ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ چونکہ آپ نے حالت رضاعت میں انتقال فرمایا تھا، لہٰذا اللہ پاک نے ان کو دودھ پلانے کے لیے جنت میں ایک انا کو مقرر فرما دیا۔ اللهم صلی علی محمد وعلی آل محمد وبارك وسلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara': When Ibrahim (the son of Prophet) expired, Allah's Apostle (ﷺ) said, "There is a wet-nurse for him in Paradise."