Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The completion (or perfection) of ablution (one should wash all the parts perfectly))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول ہے کہ وضو کا پورا کرنا اعضاء وضو کا صاف کرنا ہے ”
139.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ اترے، پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا لیکن وضو پورا نہ کیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت قریب ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نماز آگے چل کر پڑھیں گے۔‘‘ پھر آپ سوار ہوئے، جب مزدلفہ آئے تو اترے اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور آپ نے مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ہر شخص نے اپنا اونٹ اپنے مقام پر بٹھایا، پھر عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپ نے نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔
تشریح:
1۔ مکمل وضو سے مراد وہ وضو ہے جس میں تمام فرائض و واجبات اورآداب و سنن کا خیال رکھا گیا ہو۔ دوسرے الفاظ میں مرات کے اعتبار سے تثلیث اور عمل کے لحاظ سے اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسباغ کی تفسیر انقاء سے کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا چاہیے تاکہ وہ اچھی طرح صاف ہو جائیں۔ اس سے اسراف سے اجتناب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کیونکہ مقصد انقاء اور صفائی ہے۔ تکرار اتنی نہیں ہونی چاہیے کہ اسراف کی حد میں پہنچ جائے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس تعلیق کو مصنف عبدالرزاق میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ ان کے متعلق مروی ہے کہ اپنے پاؤں کو سات مرتبہ دھویا کرتے تھے۔ (الأوسط لإبن المنذر، حدیث: 401) کیونکہ اہل عرب عام احوال میں ننگے پاؤں رہنے کے عادی تھے، اس لیے پاؤں کا دیگر اعضاء کے مقابلے میں زیادہ میلا ہو جانا ایک طبعی چیز ہے۔ (فتح الباري: 316/1) 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے وضو کے بعد نماز ادا نہیں کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ باوضو رہنے کے عادی تھے۔ اس سے ان حضرات کی بھی تردید ہوتی ہے جو اس وضو سے استنجا مراد لیتے ہیں کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ میں دوران وضو میں آپ کے اعضاء شریفہ پر پانی ڈالتا تھا، نیز مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کے پانی سے وضو فرمایا۔ (زوائد مسند أحمد: 76/1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمزم کا پانی پینے کے علاوہ دوسرے کاموں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 316/1) اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث كتاب الحج میں بیان ہوں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
141
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
139
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
139
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
139
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول ہے کہ وضو کا پورا کرنا اعضاء وضو کا صاف کرنا ہے ”
حدیث ترجمہ:
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ اترے، پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا لیکن وضو پورا نہ کیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت قریب ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نماز آگے چل کر پڑھیں گے۔‘‘ پھر آپ سوار ہوئے، جب مزدلفہ آئے تو اترے اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور آپ نے مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ہر شخص نے اپنا اونٹ اپنے مقام پر بٹھایا، پھر عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپ نے نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مکمل وضو سے مراد وہ وضو ہے جس میں تمام فرائض و واجبات اورآداب و سنن کا خیال رکھا گیا ہو۔ دوسرے الفاظ میں مرات کے اعتبار سے تثلیث اور عمل کے لحاظ سے اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسباغ کی تفسیر انقاء سے کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا چاہیے تاکہ وہ اچھی طرح صاف ہو جائیں۔ اس سے اسراف سے اجتناب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کیونکہ مقصد انقاء اور صفائی ہے۔ تکرار اتنی نہیں ہونی چاہیے کہ اسراف کی حد میں پہنچ جائے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس تعلیق کو مصنف عبدالرزاق میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ ان کے متعلق مروی ہے کہ اپنے پاؤں کو سات مرتبہ دھویا کرتے تھے۔ (الأوسط لإبن المنذر، حدیث: 401) کیونکہ اہل عرب عام احوال میں ننگے پاؤں رہنے کے عادی تھے، اس لیے پاؤں کا دیگر اعضاء کے مقابلے میں زیادہ میلا ہو جانا ایک طبعی چیز ہے۔ (فتح الباري: 316/1) 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے وضو کے بعد نماز ادا نہیں کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ باوضو رہنے کے عادی تھے۔ اس سے ان حضرات کی بھی تردید ہوتی ہے جو اس وضو سے استنجا مراد لیتے ہیں کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ میں دوران وضو میں آپ کے اعضاء شریفہ پر پانی ڈالتا تھا، نیز مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کے پانی سے وضو فرمایا۔ (زوائد مسند أحمد: 76/1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمزم کا پانی پینے کے علاوہ دوسرے کاموں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 316/1) اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث كتاب الحج میں بیان ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا ارشاد ہے: وضو پورا کرنے کا مطلب، اچھی طرح صاف کرنا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک ؓ نے موسیٰ بن عقبہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انھوں نے اسامہ بن زید ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ میدان عرفات سے واپس ہوئے۔ جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ ﷺ اتر گئے۔ آپ ﷺ نے (پہلے) پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور خوب اچھی طرح نہیں کیا۔ تب میں نے کہا، یا رسول اللہ! نماز کا وقت (آ گیا) آپ ﷺ نے فرمایا: نماز، تمہارے آگے ہے (یعنی مزدلفہ چل کر پڑھیں گے) جب مزدلفہ میں پہنچے تو آپ نے خوب اچھی طرح وضو کیا، پھر جماعت کھڑی کی گئی، آپ ﷺ نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنی جگہ بٹھلایا، پھر عشاء کی جماعت کھڑی کی گئی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
پہلی مرتبہ آپ نے وضو صرف پاکی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔ دوسری مرتبہ نماز کے لیے کیا توخوب اچھی طرح کیا، ہر اعضائے وضو کو تین تین باردھویا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو ملا کر پڑھنا چاہئیے۔ اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آب زمزم سے وضو کیا تھا۔ جس سے آبِ زمزم سے وضو کرنا بھی ثابت ہوا۔ (فتح الباری)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid: Allah's Apostle (ﷺ) proceeded from 'Arafat till when he reached the mountain pass, he dismounted, urinated and then performed ablution but not a perfect one. I said to him, ("Is it the time for) the prayer, O Allah's Apostle?" He said, "The (place of) prayer is ahead of you." He rode till when he reached Al-Muzdalifa, he dismounted and performed ablution and a perfect one, The (call for) Iqama was pronounced and he led the Maghrib prayer. Then everybody made his camel kneel down at its place. Then the Iqama was pronounced for the 'Isha' prayer which the Prophet (ﷺ) led and no prayer was offered in between the two . prayers ('Isha' and Maghrib).