باب: نبی کریم ﷺ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The graves of the Prophet (pbuh), Abu Bakr, and Umar Radiyallahu Anhu)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
1391.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو وصیت کی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ دفن نہ کرنا بلکہ مجھے میری دوسری سوکنوں کے ہمراہ بقیع(غرقد) میں دفن کرنا۔میں نہیں چاہتی کہ ان حضرات کی وجہ سے میری بھی تعریف ہواکرے۔
تشریح:
(1) حضرت عائشہ ؓ نے تواضع اور انکسار کے طور پر فرمایا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حجرہ مبارکہ میں دفن ہوئی تو لوگ آپ کے ساتھ میرا بھی ذکر کریں گے اور دوسری بیویوں پر مجھے ترجیح دیں گے جسے میں پسند نہیں کرتی، لہذا مجھے دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ بقیع غرقد میں دفن ہونا پسند ہے، چنانچہ آپ کو حسب وصیت بقیع میں دفن کیا گیا۔ (2) یہاں ایک اشکال ہے کہ آئندہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر ؓ سے آپ نے کہا تھا کہ حجرہ مبارکہ میں اپنے لیے جگہ رکھی تھی، تاکہ میں وہاں دفن ہوں، لیکن میں آپ کو ترجیح دیتی ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حجرہ مبارکہ میں صرف ایک قبر کی جگہ باقی تھی، حالانکہ مدت کے بعد جب حضرت عائشہ ؓ کی وفات ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے وہاں دفن نہ کرنا، میں اپنی بڑائی نہیں چاہتی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی وفات کے وقت بھی وہاں ایک قبر کی جگہ باقی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے حضرت عائشہ ؓ کا یہی خیال ہو گا کہ حضرت ابوبکر ؓ کے دفن کرنے کے بعد حجرہ مبارکہ میں صرف ایک قبر کی جگہ ہے۔ حضرت عمر ؓ کے دفن ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ ایک قبر کی مزید گنجائش ہے، تاہم جن روایات میں عیسیٰ ؑ کے نبی ﷺ کے ساتھ دفن ہونے کا ذکر ہے تو وہ تمام روایات ضعیف ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1355
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1391
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1391
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1391
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کی مناسبت سے قرآن میں آنے والے لفظ قبر کی لغوی تشریح کی ہے کہ اگر مزید فیہ استعمال ہو تو اس کے معنی قبر تیار کرنا اور اگر مجرد ہو تو اس کے معنی دفن کرنا ہیں۔ پھر ایک دوسرا لفظ جو اس معنی میں استعمال ہوتا ہے اس کی تشریح کی ہے۔ (فتح الباری:3/325)
اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو وصیت کی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ دفن نہ کرنا بلکہ مجھے میری دوسری سوکنوں کے ہمراہ بقیع(غرقد) میں دفن کرنا۔میں نہیں چاہتی کہ ان حضرات کی وجہ سے میری بھی تعریف ہواکرے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عائشہ ؓ نے تواضع اور انکسار کے طور پر فرمایا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حجرہ مبارکہ میں دفن ہوئی تو لوگ آپ کے ساتھ میرا بھی ذکر کریں گے اور دوسری بیویوں پر مجھے ترجیح دیں گے جسے میں پسند نہیں کرتی، لہذا مجھے دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ بقیع غرقد میں دفن ہونا پسند ہے، چنانچہ آپ کو حسب وصیت بقیع میں دفن کیا گیا۔ (2) یہاں ایک اشکال ہے کہ آئندہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر ؓ سے آپ نے کہا تھا کہ حجرہ مبارکہ میں اپنے لیے جگہ رکھی تھی، تاکہ میں وہاں دفن ہوں، لیکن میں آپ کو ترجیح دیتی ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حجرہ مبارکہ میں صرف ایک قبر کی جگہ باقی تھی، حالانکہ مدت کے بعد جب حضرت عائشہ ؓ کی وفات ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے وہاں دفن نہ کرنا، میں اپنی بڑائی نہیں چاہتی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی وفات کے وقت بھی وہاں ایک قبر کی جگہ باقی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے حضرت عائشہ ؓ کا یہی خیال ہو گا کہ حضرت ابوبکر ؓ کے دفن کرنے کے بعد حجرہ مبارکہ میں صرف ایک قبر کی جگہ ہے۔ حضرت عمر ؓ کے دفن ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ ایک قبر کی مزید گنجائش ہے، تاہم جن روایات میں عیسیٰ ؑ کے نبی ﷺ کے ساتھ دفن ہونے کا ذکر ہے تو وہ تمام روایات ضعیف ہیں۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اس نے اسے قبر میں رکھا۔ "عربی میں اقبرت الرجل کے معنی ہیں: میں نے آدمی کی قبر تیارکی۔ اورقبرته کے معنی ہیں: میں نے اسے دفن کیا۔ (ارشاد باری تعالیٰ ہے: کیا ہم نے زمین کو)"سمیٹ کر رکھنے والی"(نہیں بنایا؟) اس کا مطلب ہے کہ اس زمین میں لوگ زندگی بسر کریں گے اور مرنے کے بعد اس میں دفن کیے جائیں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہشام اپنے والد سے اور وہ عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے عبداللہ بن زبیر ؓ کو وصیت کی تھی کہ مجھے حضور اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ دفن نہ کرنا۔ بلکہ میری دوسری سوکنوں کے ساتھ بقیع غرقد میں مجھے دفن کرنا۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ ان کے ساتھ میری بھی تعریف ہوا کرے۔
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ ولید کی خلافت کے زمانہ میں اس نے عمر بن عبدالعزیز کو جو اس کی طرف سے مدینہ شریف کے عامل تھے‘ یہ لکھا کہ ازواج مطہرات کے حجرے گرا کر مسجد نبوی کو وسیع کردو اور آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک کی جانب دیوار بلند کردو کہ نماز میں ادھر منہ نہ ہو عمر بن عبدالعزیز نے یہ حجرے گرانے شروع کئے تو ایک پاؤں زمین سے نمودار ہوا جسے حضرت عروہ نے شناخت کیا اور بتلایا کہ یہ حضرت عمر ؓ کا پاؤں ہے جسے یوں ہی احترام سے دفن کیا گیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے اپنی کسر نفسی کے طورپر فرمایا تھا کہ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ حجرئہ مبارک میں دفن ہوں گی تو لوگ آپ کے ساتھ میرا بھی ذکر کریں گے اور دوسری بیویوں میں مجھ کو ترجیح دیں گے جسے میں پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا مجھے بقیع غرقد میں دفن ہونا پسند ہے جہاں میری بہنیں ازواج مطہرات مدفون ہیں اور میں اپنی یہ جگہ جو خالی ہے حضرت عمر ؓ کے لیے دے دیتی ہوں۔ سبحان اللہ کتنا بڑا ایثار ہے۔ سلام اللہ تعالیٰ علیهم أجمعین۔ حجرئہ مبارک کی دیواریں بلند کرنے کے بارے میں حضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ أَيْ حَائِطُ حُجْرَةِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي رِوَايَةِ الْحَمَوِيِّ عَنْهُمْ وَالسَّبَبُ فِي ذَلِكَ مَا رَوَاهُ أَبُو بَكْرٍ الْآجُرِّيُّ مِنْ طَرِيقِ شُعَيْبِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ إِلَى الْقَبْرِ فَأَمَرَ بِهِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرُفِعَ حَتَّى لَا يُصَلِّيَ إِلَيْهِ أَحَدٌ فَلَمَّا هُدِمَ بَدَتْ قَدَمٌ بِسَاقٍ وَرُكْبَةٍ فَفَزِعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَأَتَاهُ عُرْوَةُ فَقَالَ هَذَا سَاقُ عُمَرَ وَرُكْبَتُهُ فَسُرِّيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَرَوَى الْآجُرِّيُّ مِنْ طَرِيقِ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ قَالَ كَتَبَ الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَكَانَ قَدِ اشْتَرَى حُجَرَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِ اهْدِمْهَا وَوَسِّعْ بِهَا الْمَسْجِدَ فَقَعَدَ عُمَرُ فِي نَاحِيَةٍ ثُمَّ أَمَرَ بِهَدْمِهَا فَمَا رَأَيْتُهُ بَاكِيًا أَكْثَرَ مِنْ يَوْمَئِذٍ ثُمَّ بَنَاهُ كَمَا أَرَادَ فَلَمَّا أَنْ بَنَى الْبَيْتَ عَلَى الْقَبْرِ وَهَدَمَ الْبَيْتَ الْأَوَّلَ ظَهَرَتِ الْقُبُورُ الثَّلَاثَةُ وَكَانَ الرَّمْلُ الَّذِي عَلَيْهَا قَدِ انْهَارَ فَفَزِعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَأَرَادَ أَنْ يَقُومَ فَيُسَوِّيَهَا بِنَفْسِهِ فَقُلْتُ لَهُ أَصْلَحَكَ اللَّهُ إِنَّكَ إِنْ قُمْتَ قَامَ النَّاسُ مَعَكَ فَلَوْ أَمَرْتَ رَجُلًا أَنْ يُصْلِحَهَا وَرَجَوْتُ أَنَّهُ يَأْمُرُنِي بِذَلِكَ فَقَالَ يَا مُزَاحِمُ يَعْنِي مَوْلَاهُ قُمْ فَأَصْلِحْهَا قَالَ رَجَاءٌ وَكَانَ قَبْرُ أَبِي بَكْرٍ عِنْدَ وَسَطِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعُمَرَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ رَأْسُهُ عِنْدَ وَسَطِهِ۔ اس عبارت کا خلاصہ وہی مضمون ہے جو گزر چکا ہے) (فتح الباري: ج: 6 ص: 6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Aisha narrated that she made a will to `Abdullah bin Zubair, "Do not bury me with them (the Prophet (ﷺ) and his two companions) but bury me with my companions (wives of the Prophet (p.b.u.h) ) in Al-Baqi as I would not like to be looked upon as better than I really am (by being buried near the Prophet)”.