Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The sin of a person who does not pay Zakat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ براۃ میں) فرمایا کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آخر آیت «فذوقوا ما كنتم تكنزون» تک۔ یعنی اپنے مال کو گاڑنے کا مزہ چکھو۔آیت میں کنز کا لفظ ہے کنز اسی مال کو کہیں گئے جس کی زکوۃ نہ دی جائے۔اکثر صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے کہ آیت اہل کتاب اور مشرکین اور مومنین سب کو شامل ہے۔امام بخاری نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض صحابہ نے اس آیت کو کافروں کے ساتھ خاص کیا ہے۔(وحیدی)
1402.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:’’قیامت کے دن اونٹ پہلے سے زیادہ فربہ اور بہتر حالت میں اپنے مالک کے پاس آئیں گے جبکہ وہ مالک ان کا حق (زکاۃ) نہ ادا کرتا ہو، پھر وہ اسے اپنے پاؤں سے روندیں گے۔ اسی طرح بکریاں بھی پہلے سے زیادہ توانا اور بہتر حالت میں اپنے مالک کے پاس آئیں گی جبکہ وہ مالک ان کا حق (زکاۃ) نہ ادا کرتا ہو۔ وہ اسے اپنے کھروں سے کچلیں گی اور اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی۔‘‘آپ نے فرمایا:’’ان کا حق یہ بھی ہے کہ پانی کے گھاٹ پر ان سے دودھ حاصل کیا جائے اور محتاجوں کو پلایا جائے۔‘‘ نیز آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی قیامت کے دن بکری کو اپنی گردن پر سوار کر کے نہ لائے بایں حالت کہ وہ ممیارہی ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے: یا محمد!( ﷺ میری سفارش فرمائیے) اور میں کہوں گا:میں تیرے لیے کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا، میں تو اللہ کا حکم پہنچا چکا ہوں، اسی طرح کوئی شخص اونٹ کو اپنی گردن پر سوارکر کے نہ لائے بایں حالت کہ وہ بلبلا رہا ہو، وہ شخص مجھ سے کہے:یا محمد!( ﷺ میری شفاعت کیجیے ) اور میں کہہ دوں کہ میں تیرے لیے کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا، میں تو اللہ کا پیغام پہنچا چکا ہوں۔‘‘
تشریح:
(1) آیت کریمہ میں لفظ کنز سے مراد وہ مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہ کی جائے۔ جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ اکثر صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام کا یہی موقف ہے کہ یہ آیت کریمہ اہل کتاب مشرکین اور اہل ایمان سب کو شامل ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري:339/3) (2) صحیح مسلم میں ہے کہ اونٹوں کے مالک کو ایک کھلے اور چٹیل میدان میں گرا دیا جائے گا۔ اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور کثیر تعداد میں ہوں گے۔ ان میں سے کوئی بچہ بھی غائب نہیں ہو گا، چنانچہ وہ اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے اور اپنے دانتوں سے کاٹیں گے۔ جب اس پر سے پہلا دستہ گزر جائے گا، پھر اس پر سے دوسرا دستہ گزرے گا (یہ تسلسل) ایک روز تک قائم رہے گا جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے یہاں تک کہ انسانوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا، ہر شخص اپنا ٹھکانا دیکھ لے گا کہ جنت میں ہے یا دوزخ میں ہے۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2290(987)) (3) واضح رہے کہ مذکورہ عذاب ہر اس شخص کو دیا جائے گا جو اپنے حیوانات کی زکاۃ نہیں دے گا، خواہ انکار کرتے ہوئے زکاۃ نہ دے یا بخل کے طور پر اسے ادا نہ کرے۔ (فتح الباري:339/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1366
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1402
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1402
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1402
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ براۃ میں) فرمایا کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آخر آیت «فذوقوا ما كنتم تكنزون» تک۔ یعنی اپنے مال کو گاڑنے کا مزہ چکھو۔آیت میں کنز کا لفظ ہے کنز اسی مال کو کہیں گئے جس کی زکوۃ نہ دی جائے۔اکثر صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے کہ آیت اہل کتاب اور مشرکین اور مومنین سب کو شامل ہے۔امام بخاری نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض صحابہ نے اس آیت کو کافروں کے ساتھ خاص کیا ہے۔(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:’’قیامت کے دن اونٹ پہلے سے زیادہ فربہ اور بہتر حالت میں اپنے مالک کے پاس آئیں گے جبکہ وہ مالک ان کا حق (زکاۃ) نہ ادا کرتا ہو، پھر وہ اسے اپنے پاؤں سے روندیں گے۔ اسی طرح بکریاں بھی پہلے سے زیادہ توانا اور بہتر حالت میں اپنے مالک کے پاس آئیں گی جبکہ وہ مالک ان کا حق (زکاۃ) نہ ادا کرتا ہو۔ وہ اسے اپنے کھروں سے کچلیں گی اور اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی۔‘‘آپ نے فرمایا:’’ان کا حق یہ بھی ہے کہ پانی کے گھاٹ پر ان سے دودھ حاصل کیا جائے اور محتاجوں کو پلایا جائے۔‘‘ نیز آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی قیامت کے دن بکری کو اپنی گردن پر سوار کر کے نہ لائے بایں حالت کہ وہ ممیارہی ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے: یا محمد!( ﷺ میری سفارش فرمائیے) اور میں کہوں گا:میں تیرے لیے کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا، میں تو اللہ کا حکم پہنچا چکا ہوں، اسی طرح کوئی شخص اونٹ کو اپنی گردن پر سوارکر کے نہ لائے بایں حالت کہ وہ بلبلا رہا ہو، وہ شخص مجھ سے کہے:یا محمد!( ﷺ میری شفاعت کیجیے ) اور میں کہہ دوں کہ میں تیرے لیے کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا، میں تو اللہ کا پیغام پہنچا چکا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) آیت کریمہ میں لفظ کنز سے مراد وہ مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہ کی جائے۔ جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ اکثر صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام کا یہی موقف ہے کہ یہ آیت کریمہ اہل کتاب مشرکین اور اہل ایمان سب کو شامل ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري:339/3) (2) صحیح مسلم میں ہے کہ اونٹوں کے مالک کو ایک کھلے اور چٹیل میدان میں گرا دیا جائے گا۔ اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور کثیر تعداد میں ہوں گے۔ ان میں سے کوئی بچہ بھی غائب نہیں ہو گا، چنانچہ وہ اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے اور اپنے دانتوں سے کاٹیں گے۔ جب اس پر سے پہلا دستہ گزر جائے گا، پھر اس پر سے دوسرا دستہ گزرے گا (یہ تسلسل) ایک روز تک قائم رہے گا جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے یہاں تک کہ انسانوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا، ہر شخص اپنا ٹھکانا دیکھ لے گا کہ جنت میں ہے یا دوزخ میں ہے۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2290(987)) (3) واضح رہے کہ مذکورہ عذاب ہر اس شخص کو دیا جائے گا جو اپنے حیوانات کی زکاۃ نہیں دے گا، خواہ انکار کرتے ہوئے زکاۃ نہ دے یا بخل کے طور پر اسے ادا نہ کرے۔ (فتح الباري:339/3)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو لوگ سونے اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آپ انھیں دردناک عذاب کی خبردیں۔ جس روز سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا، پھر اس کے ساتھ ان کے چہروں، پہلوؤں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اور ان سے کہا جائے گا: ) یہ وہ ہے جس کو تم اپنی جانوں کے لیے خزانہ بناتے تھے اب تم خزانہ شدہ مال کا مزہ چکھو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابولیمان حکم بن نافع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا کہ عبدالرحمن بن ہر مزا عرج نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا‘ آپ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ ( قیامت کے دن ) اپنے مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کا حق ( زکوٰة ) نہ ادا کیا کہ اس سے زیادہ موٹے تازے ہوکر آئیں گے ( جیسے دنیا میں تھے ) اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گے۔ بکریاں بھی اپنے ان مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کے حق نہیں دئیے تھے پہلے سے زیادہ موٹی تازی ہوکر آئیں گی اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا حق یہ بھی ہے کہ اسے پانی ہی پر ( یعنی جہاں وہ چرا گاہ میں چر رہی ہوں ) دوہا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص قیامت کے دن اس طرح نہ آئے کہ وہ اپنی گردن پر ایک ایسی بکری اٹھائے ہوئے ہو جو چلارہی ہو اور وہ مجھ سے کہے کہ اے محمد ( ﷺ )! مجھے عذاب سے بچائیے میں اسے یہ جواب دوں کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کرسکتا ( میرا کام پہنچانا تھا ) سو میں نے پہنچا دیا۔ اسی طرح کوئی شخص اپنی گردن پر اونٹ لیے ہوئے قیامت کے دن نہ آ : ے کہ اونٹ چلارہا ہو اور وہ خود مجھ سے فریاد کرے‘ اے محمد ( ﷺ )! مجھے بچائےے اور میں یہ جواب دے دوں کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تجھ کو ( خدا کا حکم زکوٰة ) پہنچادیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ منہ سے کاٹیں گے۔ پچاس ہزار برس کا جو دن ہوگا اس دن یہی کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ بندوں کا فیصلہ کرے اور وہ اپنا ٹھکانا دیکھ لیں۔ ( بہشت میں یا دوزخ میں ) اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو تنبیہ فرمائی ہے کہ جو لوگ اپنے اموال اونٹ یا بکری وغیرہ میں سے مقررہ نصاب کے تحت زکوٰۃ نہیں ادا کریں گے، قیامت کے دن ان کا یہ حال ہوگا جو یہاں مذکور ہوا۔ فی الواقع وہ جانور ان حالات میں آئیں گے اور اس شخص کی گردن پر زبردستی سوار ہوجائیں گے۔ وہ حضور ﷺ کو مدد کے لیے پکارے گا مگر آپ کا یہ جواب ہوگا جو مذکور ہوا۔ بکری کو پانی پر دوہنے سے غرض یہ کہ عرب میں پانی پر اکثر غریب محتاج لوگ جمع رہتے ہیں، وہاں وہ دودھ نکال کر مساکین فقراء کو پلایا جائے۔ بعضوں نے کہا یہ حکم زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے تھا‘ جب زکوٰۃ فرض ہوگئی تو اب کوئی صدقہ یا حق واجب نہیں رہا۔ ایک حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ کے سوا مال میں دوسرا حق بھی ہے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اونٹوں کا بھی یہی حق ہے کہ ان کا دودھ پانی کے کنارے پر دوہا جائے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: وإنما خص الحلب بموضع المآء لیکون أسهل علی المحتاج من قصد المنازل وأرفق بالماشیة۔یعنی پانی پر دودھ دوہنے کے خصوص کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہاں محتاج اور مسافر لوگ آرام کے لیے قیام پذیر رہتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قیامت کے دن گناہ مثالی جسم اختیار کرلیں گے۔ وہ جسمانی شکلوں میں سامنے آئیں گے۔ اسی طرح نیکیاں بھی مثالی شکلیں اختیار کرکے سامنے لائی جائیں گی۔ ہر دو قسم کی تفصیلات بہت سی احادیث میں موجود ہیں۔ آئندہ حدیث میں بھی ایک ایسا ہی ذکر موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "(On the Day of Resurrection) camels will come to their owner in the best state of health they have ever had (in the world), and if he had not paid their Zakat (in the world) then they would tread him with their feet; and similarly, sheep will come to their owner in the best state of health they have ever had in the world, and if he had not paid their Zakat, then they would tread him with their hooves and would butt him with their horns." The Prophet (ﷺ) added, "One of their rights is that they should be milked while water is kept in front of them." The Prophet (ﷺ) added, "I do not want anyone of you to come to me on the Day of Resurrection, carrying over his neck a sheep that will be bleating. Such a person will (then) say, ' O Muhammad (ﷺ) ! (please intercede for me,) I will say to him. 'I can't help you, for I conveyed Allah's Message to you.' Similarly, I do not want anyone of you to come to me carrying over his neck a camel that will be grunting. Such a person (then) will say " O Muhammad (ﷺ) ! (please intercede for me)." I will say to him, "I can't help you for I conveyed Allah's message to you." ________