باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: A property from which the Zakat is paid is not Al-Kanz (hoarded-money))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
1406.
حضرت زید بن وہب سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ربذہ سے گزرا تو وہاں حضرت ابو ذر ؓ دکھائی دیے ،میں نے ان سے دریافت کیا:آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: میں شام میں تھا، میرا اور حضرت معاویہ ؓ کا اس آیت کریمہ کے متعلق اختلاف ہوگیا:’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر دو۔‘‘ حضرت معاویہ ؓ کا کہنا ہے کہ یہ آیت اہل کتاب کے متعلق نازل ہوئی جبکہ میرا موقف ہے کہ مذکورہ آیت ہمارے اور اہل کتاب دونوں کے متعلق ہے۔ اس آیت کے متعلق اختلاف کے نتیجے میں ہمارے درمیان کچھ تلخی پیدا ہوگئی تو انھوں نے حضرت عثمان ؓ کو بذریعہ خط میری شکایت کی، حضرت عثمان نے مجھے خط لکھا کہ تم مدینہ چلے آؤ، چنانچہ میں مدینہ چلاآیا تو میرے ہاں لوگوں کا اس قدر ہجوم ہونے لگا گویا انھوں نے مجھے پہلے کبھی دیکھا ہی نہ تھا، پھر میں نے حضرت عثمان ؓ سے لوگوں کے ہجوم کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: اگر تم مناسب خیال کرو تو مدینہ سے ہٹ کر کسی دوسری قریبی جگہ الگ قیام اختیارکرلو۔ بس یہی بات مجھے یہاں (ربذہ) لے آئی ہے۔ اگر وہ کسی حبشی کو بھی میرا امیر مقرر کردیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔
تشریح:
(1) حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے زہد و تقویٰ کی وجہ سے دنیا کے مال و متاع کے متعلق بہت شدید موقف رکھتے تھے، مگر دیگر صحابہ کرام ؓ نے ان کے موقف سے اتفاق نہیں کیا، نہ اس کے متعلق ان سے کوئی تعرض کرنا پسند کیا۔ ان کی بزرگ شخصیت کے پیش نظر لوگ خواہ مخواہ ان کے پاس جمع ہو جاتے۔ حضرت معاویہ ؓ نے یہ محسوس کیا کہ مبادا کوئی فتنہ و فساد کھڑا ہو جائے، ان سے الجھنے کے بجائے خلیفہ سوم حضرت عثمان ؓ کو ان کے متعلق خط لکھا، انہوں نے وہاں سے مدینہ بلا بھیجا تو فورا سمع و طاعت کرتے ہوئے مدینہ چلے آئے۔ مدینہ آئے تو شام سے بھی زیادہ ان کے پاس لوگ جمع ہونے لگے۔ حضرت عثمان ؓ کو بھی وہی اندیشہ لاحق ہوا جو حضرت معاویہ ؓ کو ہوا تھا، انہیں اپنے پاس بلا کر سمجھایا، لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور کہنے لگے کہ مجھے ربذہ جانے کی اجازت دیجیے۔ وہ اس مقام پر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آتے جاتے تھے۔ پھر آپ وہیں چلے گئے اور تادم وفات وہیں مقیم رہے۔ آپ کی قبر بھی اسی جگہ پر ہے۔ (2) حضرت ابوذر ؓ نے وضاحت فرمائی کہ میں خارجی نہیں ہوں، اپنے سر سے کپڑا اتار کر دکھایا کہ ان کی علامت تو سر منڈوانا ہے، میں تو خلیفہ وقت کی اطاعت کو فرض سمجھتا ہوں۔ اگر وہ مجھے کھڑا رہنے کا حکم دیں تو میں کبھی نہیں بیٹھوں گا۔ اہل کوفہ نے آپ کو اشتعال دلانے کی بہت کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ آپ ہمیشہ انہیں یہی جواب دیتے کہ اگر حضرت عثمان ؓ مجھے مشرق سے مغرب تک چلنے کا حکم دیں تو میں ان کی اطاعت کروں گا۔ حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابوذر ؓ کو جو حکم دیا تو اس میں مصلحت یہ تھی کہ اگر وہ مدینہ میں رہیں گے تو ان کے پاس بکثرت لوگ آئیں گے اور متنازعہ مسئلہ میں ان سے اسی شدت کا اثر لیں گے، اس لیے آپ نے انہیں ربذہ جانے کی اجازت دے دی۔ (فتح الباري:346/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1370
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1406
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1406
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1406
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
عنوان کے الفاظ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک موقوف حدیث ہے، آپ نے فرمایا کہ ہر وہ خزانہ جس کی زکاۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں اگرچہ وہ ساتوں زمینوں کے نیچے مدفون ہو۔ اور جس مال کی زکاۃ ادا نہ کی جائے وہ کنز ہے اگرچہ وہ زمین کے اوپر ہی پڑا ہو۔ (فتح الباری:3/344) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ سونے کے کنگن پہنا کرتی تھیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا یہ کنز ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے وعید سنائی ہے؟ آپ نے فرمایا: "اگر ان کی زکاۃ ادا کر دی جائے تو کنز نہیں ہے۔" (سنن ابی داؤد،الزکاۃ،حدیث:1564) یہ روایت اس موقف کی دلیل ہے کہ اگر کسی مال سے اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے تو وہ کنز نہیں جس پر قرآن مجید میں دھمکی آئی ہے، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا حوالہ دیا ہے کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ممنوع کنز وہ ہے جس پر قرآن کریم میں وعید آئی ہے۔ اس کے لیے دو شرطیں ہیں: ٭ وہ مال نصاب کو پہنچ جائے۔ ٭ اس کی زکاۃ نہ ادا کی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مال نصاب سے کم ہے تو وہ ممنوع کنز نہیں، اسے اپنے پاس رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جو مال نصاب کو پہنچ جائے اور اس سے زکاۃ ادا کر دی جائے تو وہ بھی کنز نہیں، لہذا مستحقِ عذاب نہیں ہو گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس مال میں زکاۃ واجب نہیں وہ قابل معافی ہے، اسے کنز کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اور جس مال سے زکاۃ ادا کر دی جائے وہ بھی قابل معافی ہے کیونکہ اس کا حق ادا کر دیا گیا ہے۔ اسے بھی کنز نہیں کہا جائے گا جس پر قرآن کریم میں وعید آئی ہے۔ (فتح الباری:3/344) واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش کردہ ارشاد نبوی کو خود ہی آگے متصل سند سے بیان کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا۔ دیکھیے: (حدیث: 1405)
کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت زید بن وہب سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ربذہ سے گزرا تو وہاں حضرت ابو ذر ؓ دکھائی دیے ،میں نے ان سے دریافت کیا:آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: میں شام میں تھا، میرا اور حضرت معاویہ ؓ کا اس آیت کریمہ کے متعلق اختلاف ہوگیا:’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر دو۔‘‘ حضرت معاویہ ؓ کا کہنا ہے کہ یہ آیت اہل کتاب کے متعلق نازل ہوئی جبکہ میرا موقف ہے کہ مذکورہ آیت ہمارے اور اہل کتاب دونوں کے متعلق ہے۔ اس آیت کے متعلق اختلاف کے نتیجے میں ہمارے درمیان کچھ تلخی پیدا ہوگئی تو انھوں نے حضرت عثمان ؓ کو بذریعہ خط میری شکایت کی، حضرت عثمان نے مجھے خط لکھا کہ تم مدینہ چلے آؤ، چنانچہ میں مدینہ چلاآیا تو میرے ہاں لوگوں کا اس قدر ہجوم ہونے لگا گویا انھوں نے مجھے پہلے کبھی دیکھا ہی نہ تھا، پھر میں نے حضرت عثمان ؓ سے لوگوں کے ہجوم کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: اگر تم مناسب خیال کرو تو مدینہ سے ہٹ کر کسی دوسری قریبی جگہ الگ قیام اختیارکرلو۔ بس یہی بات مجھے یہاں (ربذہ) لے آئی ہے۔ اگر وہ کسی حبشی کو بھی میرا امیر مقرر کردیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے زہد و تقویٰ کی وجہ سے دنیا کے مال و متاع کے متعلق بہت شدید موقف رکھتے تھے، مگر دیگر صحابہ کرام ؓ نے ان کے موقف سے اتفاق نہیں کیا، نہ اس کے متعلق ان سے کوئی تعرض کرنا پسند کیا۔ ان کی بزرگ شخصیت کے پیش نظر لوگ خواہ مخواہ ان کے پاس جمع ہو جاتے۔ حضرت معاویہ ؓ نے یہ محسوس کیا کہ مبادا کوئی فتنہ و فساد کھڑا ہو جائے، ان سے الجھنے کے بجائے خلیفہ سوم حضرت عثمان ؓ کو ان کے متعلق خط لکھا، انہوں نے وہاں سے مدینہ بلا بھیجا تو فورا سمع و طاعت کرتے ہوئے مدینہ چلے آئے۔ مدینہ آئے تو شام سے بھی زیادہ ان کے پاس لوگ جمع ہونے لگے۔ حضرت عثمان ؓ کو بھی وہی اندیشہ لاحق ہوا جو حضرت معاویہ ؓ کو ہوا تھا، انہیں اپنے پاس بلا کر سمجھایا، لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور کہنے لگے کہ مجھے ربذہ جانے کی اجازت دیجیے۔ وہ اس مقام پر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آتے جاتے تھے۔ پھر آپ وہیں چلے گئے اور تادم وفات وہیں مقیم رہے۔ آپ کی قبر بھی اسی جگہ پر ہے۔ (2) حضرت ابوذر ؓ نے وضاحت فرمائی کہ میں خارجی نہیں ہوں، اپنے سر سے کپڑا اتار کر دکھایا کہ ان کی علامت تو سر منڈوانا ہے، میں تو خلیفہ وقت کی اطاعت کو فرض سمجھتا ہوں۔ اگر وہ مجھے کھڑا رہنے کا حکم دیں تو میں کبھی نہیں بیٹھوں گا۔ اہل کوفہ نے آپ کو اشتعال دلانے کی بہت کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ آپ ہمیشہ انہیں یہی جواب دیتے کہ اگر حضرت عثمان ؓ مجھے مشرق سے مغرب تک چلنے کا حکم دیں تو میں ان کی اطاعت کروں گا۔ حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابوذر ؓ کو جو حکم دیا تو اس میں مصلحت یہ تھی کہ اگر وہ مدینہ میں رہیں گے تو ان کے پاس بکثرت لوگ آئیں گے اور متنازعہ مسئلہ میں ان سے اسی شدت کا اثر لیں گے، اس لیے آپ نے انہیں ربذہ جانے کی اجازت دے دی۔ (فتح الباري:346/3)
ترجمۃ الباب:
ارشاد نبوی ہے: "پانچ اوقیہ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن ابی ہاشم نے بیان کیا‘ انہوں نے ہشیم سے سنا‘ کہا کہ ہمیں حصین نے خبر دی ‘ انہیں زید بن وہب نے کہا کہ میں مقام ربذہ سے گزر رہا تھا کہ ابوذر ؓ دکھائی دیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو معاویہ ؓ سے میرا اختلاف ( قرآن کی آیت ) ’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔‘‘ کے متعلق ہوگیا۔ معاویہ کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے عثمان ؓ ( جو ان دنوں خلیفة المسلمین تھے ) کے یہاں میری شکایت لکھی۔ عثمان ؓ نے مجھے لکھا کہ میں مدینہ چلا آؤں۔ چنانچہ میں چلا آیا۔ ( وہاں جب پہنچا ) تو لوگوں کا میرے یہاں اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق عثمان ؓ سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کرلو۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں ( ربذہ ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کردیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوذر غفاری ؓ بڑے عالی شان صحابی اور زہد ودرویشی میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے‘ ایسی بزرگ شخصیت کے پاس خواہ مخواہ لوگ بہت جمع ہوتے ہیں۔ حضرت معاویہ نے ان سے یہ اندیشہ کیا کہ کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔ حضرت عثمان ؓ نے ان کو وہاں سے بلا بھیجا تو فوراً چلے آئے۔ خلیفہ اور حاکم اسلام کی اطاعت فرض ہے۔ ابوذر نے ایسا ہی کیا۔ مدینہ آئے تو شام سے بھی زیادہ ان کے پاس مجمع ہونے لگا۔ حضرت عثمان ؓ کو بھی وہی اندیشہ ہوا جو معاویہ ؓ کو ہوا تھا۔ انہوں نے صاف تو نہیں کہا کہ تو مدینہ سے نکل جاؤ مگر اصلاح کے طورپر بیان کیا۔ ابوذر نے ان کی مرضی پاکر مدینہ کو بھی چھوڑا۔ اور وہ ربذہ نامی ایک گاؤں میں جاکر رہ گئے اور تادم وفات وہیں مقیم رہے۔ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔ امام احمد اور ابویعلیٰ نے مرفوعاً نکالا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابوذر سے فرمایا تھا جب تو مدینہ سے نکالا جائے گا تو کہاں جائے گا؟ تو انہوں نے کہا شام کے ملک میں۔ آپ نے فرمایا کہ جب تو وہاں سے بھی نکالا جائے گا؟ انہوں نے کہا کہ میں پھر مدینہ شریف میں آجاؤں گا۔ آپ نے فرمایا جب پھر وہاں سے نکالا جائے گا تو کیاکرے گا۔ ابوذر نے کہا میں اپنی تلوار سنبھال لوں گا اور لڑوں گا۔ آپ نے فرمایا بہتر بات یہ ہے کہ امام وقت کی بات سن لینا اور مان لینا۔ وہ تم کو جہاں بھیجیں چلے جانا۔ چنانچہ حضرت ابوذر نے اسی ارشاد پر عمل کیا اور دم نہ مارا اور آخردم تک ربذہ ہی میں رہے۔ جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ کی بیوی جو ساتھ تھیں اس موت غربت کا تصور کرکے رونے لگیں۔ کفن کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ آخر ابوذر کو ایک پیش گوئی یا دآئی اور بیوی سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد اس ٹیلے پر جابیٹھنا کوئی قافلہ آئے گا وہی میرے کفن کا انتظام کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اچانک ایک قافلہ کے ساتھ ادھر سے گزرے اور صورت حال معلوم کرکے رونے لگے‘ پھر کفن دفن کا انتظام کیا۔ کفن میں اپنا عمامہ ان کو دے دیا (رضي اللہ عنهم) علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: وَفِي الْحَدِيثِ مِنَ الْفَوَائِدِ غَيْرِ مَا تَقَدَّمَ أَنَّ الْكُفَّارَ مُخَاطَبُونَ بِفُرُوعِ الشَّرِيعَةِ لِاتِّفَاقِ أَبِي ذَرٍّ وَمُعَاوِيَةَ عَلَى أَنَّ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِ مُلَاطَفَةُ الْأَئِمَّةِ لِلْعُلَمَاءِ فَإِنَّ مُعَاوِيَةَ لَمْ يَجْسُرْ عَلَى الْإِنْكَارِ عَلَيْهِ حَتَّى كَاتَبَ مَنْ هُوَ أَعْلَى مِنْهُ فِي أَمْرِهِ وَعُثْمَانُ لَمْ يَحْنَقْ عَلَى أَبِي ذَرٍّ مَعَ كَوْنِهِ كَانَ مُخَالِفًا لَهُ فِي تَأْوِيلِهِ وَفِيهِ التَّحْذِيرُ مِنَ الشِّقَاقِ وَالْخُرُوجِ عَلَى الْأَئِمَّةِ وَالتَّرْغِيبُ فِي الطَّاعَةِ لِأُولِي الْأَمْرِ وَأَمْرُ الْأَفْضَلِ بِطَاعَةِ الْمَفْضُولِ خَشْيَةَ الْمَفْسَدَةِ وَجَوَازُ الِاخْتِلَافِ فِي الِاجْتِهَادِ وَالْأَخْذُ بِالشِّدَّةِ فِي الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَإِنْ أَدَّى ذَلِكَ إِلَى فِرَاقِ الْوَطَنِ وَتَقْدِيمِ دَفْعِ الْمَفْسَدَةِ عَلَى جَلْبِ الْمَصْلَحَةِ لِأَنَّ فِي بَقَاءِ أَبِي ذَرٍّ بِالْمَدِينَةِ مَصْلَحَةٌ كَبِيرَةٌ مِنْ بَثِّ عِلْمِهِ فِي طَالِبِ الْعِلْمِ وَمَعَ ذَلِكَ فَرَجَحَ عِنْدَ عُثْمَانَ دَفْعُ مَا يُتَوَقَّعُ مِنَ الْمَفْسَدَةِ مِنَ الْأَخْذِ بِمَذْهَبِهِ الشَّدِيدِ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ وَلَمْ يَأْمُرْهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِالرُّجُوعِ عَنْهُ لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا كَانَ مُجْتَهِدًا۔یعنی اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں حضرت ابوذر اور حضرت معاویہ یہاں تک متفق تھے کہ یہ آیت اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی ہے پس معلوم ہوا کہ شریعت کے فروعی احکامات کے کفار بھی مخاطب ہیں اور اس سے یہ بھی نکلا کہ حکام اسلام کو علماءکے ساتھ مہربانی سے پیش آنا چاہیے۔ حضرت معاویہ نے یہ جسارت نہیں کی کہ کھلم کھلا حضرت ابوذر کی مخالفت کریں بلکہ یہ معاملہ حضرت عثمان تک پہنچادیا جو اس وقت مسلمانوں کے خلیفہ برحق تھے اور واقعات معلوم ہونے پر حضرت عثمان ؓ نے بھی حضرت ابوذر ؓ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی حالانکہ وہ ان کی تاویل کے خلاف تھے۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ اہل اسلام کو باہمی نفاق وشقاق سے ڈرنا ہی چاہیے اور ائمہ برحق پر خروج نہ کرنا چاہیے بلکہ اولوالا مرکی اطاعت کرنی چاہیے اور اجتہادی امور میں اس سے اختلاف کا جواز بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ امربالمعروف کرنا ہی چاہیے خواہ اس کے لیے وطن چھوڑنا پڑے اور فساد کی چیز کو دفع ہی کرنا چاہیے اگرچہ وہ نفع کے خلاف بھی ہو۔ حضرت عثمان ؓ نے جو حضرت ابوذر ؓ کو حکم فرمایا‘ اس میں بڑی مصلحت تھی کہ یہ یہاں مدینہ میں رہیں گے تو لوگ ان کے پاس بکثرت علم حاصل کرنے آئیں گے اور اس مسئلہ متنازعہ میں ان سے اسی شدت کا اثر لیں گے۔ حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابوذر ؓ کو اس شدت سے رجوع کرنے کا بھی حکم نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ یہ سب مجتہد تھے اور ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد کا خود ذمہ دار ہے۔ خلاصہ الکلام یہ کہ حضرت ابوذر اپنے زہد وتقویٰ کی بناپر مال کے متعلق بہت شدت برتتے تھے اور وہ اپنے خیال پر اٹل تھے۔ مگر دیگر اکابر نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور نہ ان سے زیادہ تعرض کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خود ان کی مرضی دیکھ کر ان کو ربذہ میں آباد فرمایا تھا‘ باہمی ناراضگی نہ تھی جیسا کہ بعض خوارج نے سمجھا۔ تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Wahab (RA): I passed by a place called Ar-Rabadha and by chance I met Abu Dhar (RA) and asked him, "What has brought you to this place?" He said, "I was in Sham and differed with Muawiyah on the meaning of (the following verses of the Qur'an): 'They who hoard up gold and silver and spend them not in the way of Allah.' (9:34). Muawiyah said, 'This verse is revealed regarding the people of the scriptures." I said, It was revealed regarding us and also the people of the scriptures." So we had a quarrel and Mu'awiya sent a complaint against me to 'Uthman. 'Uthman wrote to me to come to Medina, and I came to Medina. Many people came to me as if they had not seen me before. So I told this to 'Uthman who said to me, "You may depart and live nearby if you wish." That was the reason for my being here for even if an Ethiopian had been nominated as my ruler, I would have obeyed him . ________