باب:اس بارے میں کہ ہرحال میں بسم اللہ پڑھنا یہاں تک کہ جماع کے وقت بھی ضروری ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To recite "In the name of Allah," during every action and on having sexual relations with one's wife)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
141.
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی ﷺ تک پہنچاتے تھے، آپؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو کہے: ’’اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عنایت فرمائے۔‘‘ پھر ان دونوں کو اگر کوئی اولاد نصیب ہو تو شیطان اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ جو وضو میں اللہ کا نام نہیں لیتا، اس کا وضو نہیں ہے۔ (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 25) چونکہ یہ روایت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انھوں نے اس کے اثبات کے لیے ایک نئی راہ نکالی جو ان کی دقت نظر اور جلالت قدر کی ایک واضح دلیل ہے، فرماتےہیں کہ تسمیہ (بسم اللہ پڑھنا) تو ہرحال میں مطلوب ہے اور انہی حالات میں ایک حالت جماع بھی ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر اس وقت اللہ کا نام لینا مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ایک تو برہنگی کی صورت ہے، پھر خالص قضاء شہوت کا شغل ہے لیکن شریعت میں اس حالت کے لیے بھی ایک مخصوص دعا منقول ہے۔ جب اس حالت میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو وضوء سے پہلے تو بدرجہ اولیٰ ہونا چاہیے کیونکہ وضو خود بھی عبادت ہے اور ایک بڑی عبادت کا پیش خیمہ بھی ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکور دعا کو بوقت جماع پڑھنا چاہیے۔ بعض طرق میں صراحت ہے کہ جماع کا ارادہ کرتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ (فتح الباري: 318/1) صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا، اگر کوئی عربی زبان میں یہ دعا نہ پڑھ سکتا ہو تو کیا اسے فارسی میں یہ کلمات کہنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا:’’ہاں‘‘۔ (شرح الكرماني: 183/2) 3۔ عام طور پر بیوی سے صحبت کے بعد استنجا کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آگے آداب خلا(قضائے حاجت) بیان کیے جا رہے ہیں، جس طرح جماع کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے بچہ شیطانی ضرر سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح بیت الخلا جاتے وقت تسمیہ کا عمل انسان کے پوشیدہ اعضاء کو شیاطین کے شر سے محفوظ کر دیتا ہے۔ اس سے علامہ کرمانی کااعتراض بھی ختم ہوجاتا ہے کہ بخاری ابواب قائم کرنے میں حسن ترتیب کی رعایت نہیں کرتے، وہ فن حدیث میں مہارت رکھتے ہیں اور ان کی کوشش کا محور صرف صحیح احادیث کا جمع کردینا ہے۔ (شرح الکرماني: 183/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
143
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
141
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
141
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
141
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی ﷺ تک پہنچاتے تھے، آپؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو کہے: ’’اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عنایت فرمائے۔‘‘ پھر ان دونوں کو اگر کوئی اولاد نصیب ہو تو شیطان اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ جو وضو میں اللہ کا نام نہیں لیتا، اس کا وضو نہیں ہے۔ (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 25) چونکہ یہ روایت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انھوں نے اس کے اثبات کے لیے ایک نئی راہ نکالی جو ان کی دقت نظر اور جلالت قدر کی ایک واضح دلیل ہے، فرماتےہیں کہ تسمیہ (بسم اللہ پڑھنا) تو ہرحال میں مطلوب ہے اور انہی حالات میں ایک حالت جماع بھی ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر اس وقت اللہ کا نام لینا مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ایک تو برہنگی کی صورت ہے، پھر خالص قضاء شہوت کا شغل ہے لیکن شریعت میں اس حالت کے لیے بھی ایک مخصوص دعا منقول ہے۔ جب اس حالت میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو وضوء سے پہلے تو بدرجہ اولیٰ ہونا چاہیے کیونکہ وضو خود بھی عبادت ہے اور ایک بڑی عبادت کا پیش خیمہ بھی ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکور دعا کو بوقت جماع پڑھنا چاہیے۔ بعض طرق میں صراحت ہے کہ جماع کا ارادہ کرتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ (فتح الباري: 318/1) صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا، اگر کوئی عربی زبان میں یہ دعا نہ پڑھ سکتا ہو تو کیا اسے فارسی میں یہ کلمات کہنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا:’’ہاں‘‘۔ (شرح الكرماني: 183/2) 3۔ عام طور پر بیوی سے صحبت کے بعد استنجا کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آگے آداب خلا(قضائے حاجت) بیان کیے جا رہے ہیں، جس طرح جماع کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے بچہ شیطانی ضرر سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح بیت الخلا جاتے وقت تسمیہ کا عمل انسان کے پوشیدہ اعضاء کو شیاطین کے شر سے محفوظ کر دیتا ہے۔ اس سے علامہ کرمانی کااعتراض بھی ختم ہوجاتا ہے کہ بخاری ابواب قائم کرنے میں حسن ترتیب کی رعایت نہیں کرتے، وہ فن حدیث میں مہارت رکھتے ہیں اور ان کی کوشش کا محور صرف صحیح احادیث کا جمع کردینا ہے۔ (شرح الکرماني: 183/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے روایت کیا، انھوں نے سالم ابن ابی الجعد سے نقل کیا، وہ کریب سے، وہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں، وہ اس حدیث کو نبی ﷺ تک پہنچاتے تھے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے: ’’اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔‘‘ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنا اہل حدیث کے نزدیک ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں ذکر کردہ حدیث میں یہی ثابت فرمایا کہ جب جماع کے شروع میں بسم اللہ کہنا مشروع ہے تو وضو میں کیوں کر مشروع نہ ہوگا وہ توایک عبادت ہے۔ ایک روایت میں ہے «لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ» جو بسم اللہ نہ پڑھے اس کا وضو نہیں۔ یہ روایت حضرت امام بخاری کی شرائط کے موافق نہ تھی اس لیے آپ نے اسے چھوڑکر اس حدیث سے استدلال فرما کر ثابت کیا کہ وضو کے شروع میں بسم اللہ ضروری ہے۔ ابن جریر نے جامع الآثار میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب کوئی مرداپنی بیوی سے جماع کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان بھی اس کی عورت سے جماع کرتا ہے۔ آیت قرآنی ﴿لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ﴾ (الرحمن: 56) میں اسی کی نفی ہے۔ (قسطلانی رحمہ اللہ) استاد العلماء شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری حدیث «لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ» کے ذیل میں فرماتے ہیں: أي لا يصح الوضوء ولا يوجد شرعاً إلا بالتسمية، إذ الأصل في النفي الحقيقة، ونفى الصحة أقرب إلى الذات، وأكثر لزوماً للحقيقة فيستلزم عدمها عدم الذات، وما ليس بصحيح لا يجزئ ولا يعتد به فالحديث نص على افتراض التسمية عند ابتداء الوضوء، وإليه ذهب أحمد في رواية، وهو قول أهل الظاهر. وذهبت الشافعية، والحنفية، ومن وافقهم إلى أن التسمية سنة فقط، واختار ابن الهمام من الحنفية وجوبها۔ ( مرعاۃ ) اس بیان کا خلاصہ یہی ہے کہ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا فرض ہے۔ امام احمد اور اصحاب ظواہر کا یہی مذہب ہے۔ حنفی و شافعی وغیرہ اسے سنت مانتے ہیں۔ مگرحنفیہ میں سے ایک بڑے عالم امام ابن ہمام اس کے واجب ہونے کے قائل ہیں۔ علامہ ابن قیم نے اعلام میں بسم اللہ کے واجب ہونے پر پچاس سے بھی زائد دلائل پیش کئے ہیں۔ صاحب انوارالباری کا تبصرہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب انوارالباری نے ہر اختلافی مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تنقیص کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مگرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت علمی ایسی حقیقت ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ کے کٹر مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ بحث مذکورہ میں صاحب انوارالباری کا تبصرہ اس کا ایک روشن ثبوت ہے۔ چنانچہ آپ استاد محترم حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ امام بخاری کا مقام رفیع: یہاں یہ چیز قابل لحاظ ہے کہ امام بخاری نے باوجود اپنے رجحان مذکور کے بھی ترجمۃ الباب میں وضو کے لیے تسمیہ کا ذکر نہیں کیا تاکہ اشارہ ان احادیث کی تحسین کی طرف نہ ہو جائے۔ جو وضو کے بارے میں مروی ہیں حتیٰ کہ انھوں نے حدیث ترمذی کو بھی ترجمۃ الباب میں ذکر کرنا موزوں نہیں سمجھا۔ اس سے امام بخاری کی ’’جلالت قدر ورفعت مکانی‘‘ معلوم ہوتی ہے کہ جن احادیث کو دوسرے محدثین تحت الابواب ذکر کرتے ہیں۔ ان کو امام اپنے تراجم اور عنوانات ابواب میں بھی ذکر نہیں کرتے۔ پھر یہاں چونکہ ان کے رجحان کے مطابق کوئی معتبر حدیث ان کے نزدیک نہیں تھی تو انھوں نے عمومات سے تمسک کیا اور وضو کو ان کے نیچے داخل کیا اور جماع کا بھی ساتھ ذکر کیا۔ تاکہ معلوم ہوکہ خدا کا اسم معظم ذکر کرنا جماع سے قبل مشروع ہوا تو بدرجہ اولیٰ وضو سے پہلے بھی مشروع ہونا چاہئیے۔ گویا یہ استدلال نظائر سے ہوا۔ (انوار الباری، ج4، ص: 161) مخلصانہ مشورہ: صاحب انوارالباری نے جگہ جگہ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں لب کشائی کرتے ہوئے آپ کو غیرفقیہ، زودرنج وغیرہ وغیرہ طنزیات سے یاد کیا۔ کیا اچھا ہو کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیان بالا کے مطابق آپ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں تنقیص سے پہلے ذرا سوچ لیا کریں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی جلالت قدر ورفعت مکانی ایک اظہر من الشمس حقیقت ہے۔ جس سے انکار کرنے والے خود اپنی ہی تنقیص کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ہمارے محترم ناظرین میں سے شاید کوئی صاحب ہمارے بیان کو مبالغہ سمجھیں، اس لیے ہم ایک دو مثالیں پیش کردیتے ہیں۔ جن سے اندازہ ہوسکے گا کہ صاحب انوارالباری کے قلب میں حضرت امام المحدثین قدس سرہ کی طرف سے کس قدر تنگی ہے۔ بخاری و مسلم میں مبتدعین و اصحاب اہواء کی روایات: آج تک دنیائے اسلام یہی سمجھتی چلی آرہی ہے کہ صحیح بخاری اور پھر صحیح مسلم نہایت ہی معتبر کتابیں ہیں۔ خصوصاً قرآن مجید کے بعد اصح الکتب بخاری شریف ہے۔ مگرصاحب انوارالباری کی رائے میں بخاری ومسلم میں بعض جگہ مبتدعین و اہل اہواء جیسے بدترین قسم کے لوگوں کی روایات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کسی بدعتی سے خواہ وہ کیسا ہی پاک باز و راست باز ہو حدیث کی روایت کے روادار نہیں برخلاف اس کے بخاری و مسلم میں مبتدعین اور بعض اصحاب اہواء کی روایات بھی لی گئی ہیں۔ اگرچہ ان میں ثقہ اور صادق اللہجہ ہونے کی شرط و رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔‘‘ (انوارالباری،ج4،ص: 53) مقام غورہے کہ سادہ لوح حضرات صاحب انورالباری کے اس بیان کے نتیجہ میں بخاری ومسلم کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ نے محض غلط بیانی کی ہے، آگے اگر آپ بخاری و مسلم کے مبتدعین اور اہل اہواء کی کوئی فہرست پیش کریں گے تو اس بارے میں تفصیل سے لکھا جائے گا اور آپ کے افتراء پر وضاحت سے روشنی ڈالی جائے گی۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور آپ کی جامع کا مقام گرانے کی ایک اور مذموم کوشش: حبك الشئی یعمی ویصم کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت انسان کواندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ صد افسوس کہ صاحب انوارالباری نے اس حدیث نبوی کی بالکل تصدیق فرما دی ہے۔ بخاری شریف کا مقام گرانے اور حضرت امیرالمحدثین کی نیت پر حملہ کرنے کے لیے آپ بڑے ہی محققانہ انداز میں فرماتے ہیں: ’’ہم نے ابھی بتلایا کہ امام اعظم کی کتاب الآثار مذکور میں صرف احادیث کی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے، اس کے مقابلہ میں جامع صحیح بخاری کے تمام ابواب غیر مکرر موصول احادیث مرویہ کی تعداد 2353حسب تصریح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہے۔ اور مسلم شریف کی کل ابواب کی احادیث مرویہ چارہزار ہیں۔ ابوداؤد کی 4800 اور ترمذی شریف کی پانچ ہزار۔ اس سے معلوم ہوا کہ احادیث احکام کا سب سے بڑا ذخیرہ کتاب الآثار امام اعظم پھر ترمذی و ابوداؤد میں ہے۔ مسلم میں ان سے کم، بخاری میں ان سب سے کم ہے۔ جس کی وجہ یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ صرف اپنے اجتہاد کے موافق احادیث ذکر کرتے ہیں۔‘‘ (انوارالباری، ج4، ص: 53) حضرت امام بخاری کا مقام رفیع اور ان کی جلالت قدر و رفعت مکانی کا ذکر بھی آپ صاحب انوار الباری کی قلم سے ابھی پڑھ چکے ہیں اور جامع الصحیح اور خود حضرت امام بخاری کے متعلق آپ کا یہ بیان بھی ناظرین کے سامنے ہے۔ جس میں آپ نے کھلے لفظوں میں بتلایا کہ امام بخاری نے صرف اپنے اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنی حسب منشاء احادیث نبوی جمع کی ہیں۔ صاحب انوار الباری کا یہ حملہ اس قدر سنگین ہے کہ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاہم متانت و سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے ہم کوئی منتقمانہ انکشاف نہیں کریں گے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ "الإناء یترشح بما فیه" برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی اس سے ٹپکتا ہے۔ حضرت والا خود ذخائر احادیث نبوی کو اپنے مفروضات مسلکی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کمربستہ ہوئے ہیں۔ سو آپ کو حضرت امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ سچ ہے "المرء یقیس علی نفسه"۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "If anyone of you on having sexual relations with his wife said (and he must say it before starting) 'In the name of Allah. O Allah! Protect us from Satan and also protect what you bestow upon us (i.e. the coming offspring) from Satan, and if it is destined that they should have a child then, Satan will never be able to harm that offspring."