باب: اس بارے میں کہ بیت الخلاء جانے کے وقت کیا دعا پڑھنی چاہیے؟
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: What to say while going to the lavatory (water closet))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
142.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب بیت الخلا جاتے تو فرماتے: ’’اے اللہ! میں ناپاک چیزوں اور ناپاکیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ ابن عرعرہ نے اس حدیث کی شعبہ سے بیان کرنے میں متابعت کی ہے۔ اور غندر نے شعبہ سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: جب آپ بیت الخلا کے لیے آتے۔ (دخل کے بجائے أتى کا لفظ استعمال کیا۔) اور موسیٰ نے حماد کے واسطے سے بیان کیا: جب داخل ہوتے۔ اور سعید بن زید نے کہا: ہمیں عبدالعزیز نے بیان کیا کہ جب آپ بیت الخلا جانے کا ارادہ فرماتے (تو مذکورہ دعا پڑھتے)۔
تشریح:
1۔ اس دعا کا دوسرا ترجمہ یہ ہے: ’’ اے اللہ میں خبیث جنوں اور جننیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ واضح رہے کہ یہ ا لفاظ کہنے میں کچھ تفصیل ہے: اگر قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا جانا ہے تو جانے سے پہلے اس دعا کو پڑھنا چاہیے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے بعد متابعت میں اس کی صراحت کردی ہے نیز الادب المفرد میں بھی’’جب بیت الخلا میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے‘‘ کی صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ پھر اگر کھلے میدان میں اس کی نوبت آئے تو چونکہ وہاں گندگی نہیں ہوتی اور نہ وہاں شیاطین ہی کا اجتماع ہوتا ہے، اس لیے وہاں بیٹھتے وقت کپڑا اٹھانے سے پہلے پڑھنا چاہیے، البتہ جب انسان قضائے حاجت میں مصروف ہوجائے تو دعائیہ کلمات نہیں پڑھنے چاہییں۔ (فتح الباري: 321/1) 2۔ بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اگر دعا پڑھنا بھول جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ دل میں پڑھے؟ زبان سے پڑھ لے یا کچھ نہ پڑھے؟ اس بارے میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں: سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ قضائے حاجت کی جگہ ذکر کرنے کے جواز کے قائل ہیں، گویا ان کے نزدیک زبان سے بھی دعا پڑھنی جائز ہو گی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، عطاء اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک قضائے حاجت کے وقت اور جگہ پر اللہ کا ذکر کرنا ناپسندیدہ ہے۔ امام عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دل میں پڑھے زبان سے ادا نہ کرے۔ (عمدة القاري: 384/2، و مصنف ابن ابی شیبہ: 209/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو جمہور کی طرف منسوب کیا ہے۔ لیکن دلائل سے اس کی تائید نہیں ہوتی اور ہمیں تلاش بسیار کے بعد سلف میں سے اس قول کا قائل عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ معلوم نہیں ہوسکا۔ ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ اگر بھول کی تلافی ممکن ہو تو باہر نکل کر دعا پڑھ کر دوبارہ داخل ہو جائے، ورنہ اسے بھول کی بنا پر معذور سمجھا جائے گا۔ وجہ ترجیح یہ ہے کہ ایسی جگہ اور وقت میں اللہ کا ذکر بہرصورت ناپسندیدہ ضرور ہے۔ اور جہاں تک دل میں استحضار کا تعلق ہے تو ادعیہ ماثورہ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اذکار اور دعاؤں کا تعلق زبان سے ادا کرنے کا ہے اور کوئی بھی دعا ایسی نہیں جسے محض دل میں استحضار کا حکم ہو۔ ھذا ما عندنا واللہ أعلم بالصواب۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
144
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
142
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
142
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
142
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب بیت الخلا جاتے تو فرماتے: ’’اے اللہ! میں ناپاک چیزوں اور ناپاکیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ ابن عرعرہ نے اس حدیث کی شعبہ سے بیان کرنے میں متابعت کی ہے۔ اور غندر نے شعبہ سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: جب آپ بیت الخلا کے لیے آتے۔ (دخل کے بجائے أتى کا لفظ استعمال کیا۔) اور موسیٰ نے حماد کے واسطے سے بیان کیا: جب داخل ہوتے۔ اور سعید بن زید نے کہا: ہمیں عبدالعزیز نے بیان کیا کہ جب آپ بیت الخلا جانے کا ارادہ فرماتے (تو مذکورہ دعا پڑھتے)۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس دعا کا دوسرا ترجمہ یہ ہے: ’’ اے اللہ میں خبیث جنوں اور جننیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ واضح رہے کہ یہ ا لفاظ کہنے میں کچھ تفصیل ہے: اگر قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا جانا ہے تو جانے سے پہلے اس دعا کو پڑھنا چاہیے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے بعد متابعت میں اس کی صراحت کردی ہے نیز الادب المفرد میں بھی’’جب بیت الخلا میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے‘‘ کی صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ پھر اگر کھلے میدان میں اس کی نوبت آئے تو چونکہ وہاں گندگی نہیں ہوتی اور نہ وہاں شیاطین ہی کا اجتماع ہوتا ہے، اس لیے وہاں بیٹھتے وقت کپڑا اٹھانے سے پہلے پڑھنا چاہیے، البتہ جب انسان قضائے حاجت میں مصروف ہوجائے تو دعائیہ کلمات نہیں پڑھنے چاہییں۔ (فتح الباري: 321/1) 2۔ بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اگر دعا پڑھنا بھول جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ دل میں پڑھے؟ زبان سے پڑھ لے یا کچھ نہ پڑھے؟ اس بارے میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں: سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ قضائے حاجت کی جگہ ذکر کرنے کے جواز کے قائل ہیں، گویا ان کے نزدیک زبان سے بھی دعا پڑھنی جائز ہو گی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، عطاء اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک قضائے حاجت کے وقت اور جگہ پر اللہ کا ذکر کرنا ناپسندیدہ ہے۔ امام عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دل میں پڑھے زبان سے ادا نہ کرے۔ (عمدة القاري: 384/2، و مصنف ابن ابی شیبہ: 209/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو جمہور کی طرف منسوب کیا ہے۔ لیکن دلائل سے اس کی تائید نہیں ہوتی اور ہمیں تلاش بسیار کے بعد سلف میں سے اس قول کا قائل عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ معلوم نہیں ہوسکا۔ ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ اگر بھول کی تلافی ممکن ہو تو باہر نکل کر دعا پڑھ کر دوبارہ داخل ہو جائے، ورنہ اسے بھول کی بنا پر معذور سمجھا جائے گا۔ وجہ ترجیح یہ ہے کہ ایسی جگہ اور وقت میں اللہ کا ذکر بہرصورت ناپسندیدہ ضرور ہے۔ اور جہاں تک دل میں استحضار کا تعلق ہے تو ادعیہ ماثورہ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اذکار اور دعاؤں کا تعلق زبان سے ادا کرنے کا ہے اور کوئی بھی دعا ایسی نہیں جسے محض دل میں استحضار کا حکم ہو۔ ھذا ما عندنا واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے عبدالعزیز بن صہیب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول کریم ﷺ جب (قضائے حاجت کے لیے) بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ اے اللہ! میں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعا پڑھنا مذکور ہے اور مسلم کی ایک روایت میں لفظ امر کے ساتھ ہے کہ جب تم بیت الخلاء میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھو۔ "بسم الله، أعوذ بالله من الخبث والخبائث" ان لفظوں میں پڑھنا بھی جائز ہے۔ خبث اور خبائث سے ناپاک جن اور جنیاں مراد ہیں۔ حضرت امام نے فارغ ہونے کے بعد والی دعا کی حدیث کو اس لیے ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کی شرطوں کے موافق نہ تھی۔ جسے ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ آپ فارغ ہونے کے بعد "غفرانك" پڑھتے۔ اور ابن ماجہ میں یہ دعا آئی ہے "الحمدللہ الذی أذهب عني الأذی وعافاني" (سب تعریف) اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھ کو عافیت دی اور اس گندگی کو مجھ سے دور کردیا) فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Whenever the Prophet (ﷺ) went to answer the call of nature, he used to say, "Allah-umma inni a'udhu bika minal khubuthi wal khaba'ith i.e. O Allah, I seek Refuge with You from all offensive and wicked things (evil deeds and evil spirits)."