باب: عورت کا ثواب جب وہ اپنے شوہر کی چیز میں سے صدقہ دے یا کسی کو کھلائے اور ارادہ گھر بگاڑنے کا نہ ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The reward of the lady who gives in charity, from her husband’s house)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1441.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جب عورت اپنے گھر کی اشیائے خوردونوش سے خرچ کرے جبکہ وہ گھر کی تباہی کا ارادہ نہ رکھتی ہوتو اسے اجر ملے گا، اس کے شوہر کو کمائی کرنے کا اجر دیا جائے گا اور خزانچی کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں خاوند کی اجازت کا ذکر نہیں کیا، جیسا کہ عنوان سابق میں خادم کے متعلق حکمِ آقا کا ذکر کیا تھا۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوی اور خادم میں کچھ فرق ہے، یعنی بیوی اپنے شوہر کے مال میں براہ راست تصرف کا حق رکھتی ہے۔ عام طور پر گھر سے تھوڑی بہت اشیاء دینے سے خاوند ناراض نہیں ہوتا، لیکن خادم وغیرہ کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا، تاہم بیوی کا شوہر سے عمومی اجازت لینا بہتر ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ بیوی اگر خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ کرتی ہے تو اسے نصف اجر ملتا ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2065) دوسری روایت میں ہے کہ ایسے حالات میں دوسرا نصف خاوند کو ملے گا۔ (صحیح البخاري، النفقات، حدیث:5360) (2) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کے تین طرق بیان کیے ہیں، حدیث شعبہ جو پہلے ذکر کی ہے، اس کا متن مکمل بیان نہیں کیا جسے علامہ اسماعیلی نے بایں الفاظ ذکر کیا ہے: جب عورت اپنے خاوند کے گھر سے خرچ کرتی ہے تو اللہ اس کا اجر لکھ دیتا ہے۔ خاوند اور خازن کو بھی اس کے مثل اجر دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے اجر کو کم نہیں کرے گا۔ خاوند کو کمائی اور عورت کو خرچ کرنے کا اجر دیا جائے گا بشرطیکہ وہ گھر اجاڑنے کا ارادہ نہ کرے۔ (فتح الباري:383/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1404
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1441
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1441
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1441
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جب عورت اپنے گھر کی اشیائے خوردونوش سے خرچ کرے جبکہ وہ گھر کی تباہی کا ارادہ نہ رکھتی ہوتو اسے اجر ملے گا، اس کے شوہر کو کمائی کرنے کا اجر دیا جائے گا اور خزانچی کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں خاوند کی اجازت کا ذکر نہیں کیا، جیسا کہ عنوان سابق میں خادم کے متعلق حکمِ آقا کا ذکر کیا تھا۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوی اور خادم میں کچھ فرق ہے، یعنی بیوی اپنے شوہر کے مال میں براہ راست تصرف کا حق رکھتی ہے۔ عام طور پر گھر سے تھوڑی بہت اشیاء دینے سے خاوند ناراض نہیں ہوتا، لیکن خادم وغیرہ کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا، تاہم بیوی کا شوہر سے عمومی اجازت لینا بہتر ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ بیوی اگر خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ کرتی ہے تو اسے نصف اجر ملتا ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2065) دوسری روایت میں ہے کہ ایسے حالات میں دوسرا نصف خاوند کو ملے گا۔ (صحیح البخاري، النفقات، حدیث:5360) (2) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کے تین طرق بیان کیے ہیں، حدیث شعبہ جو پہلے ذکر کی ہے، اس کا متن مکمل بیان نہیں کیا جسے علامہ اسماعیلی نے بایں الفاظ ذکر کیا ہے: جب عورت اپنے خاوند کے گھر سے خرچ کرتی ہے تو اللہ اس کا اجر لکھ دیتا ہے۔ خاوند اور خازن کو بھی اس کے مثل اجر دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے اجر کو کم نہیں کرے گا۔ خاوند کو کمائی اور عورت کو خرچ کرنے کا اجر دیا جائے گا بشرطیکہ وہ گھر اجاڑنے کا ارادہ نہ کرے۔ (فتح الباري:383/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰی بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور سے بیان کیا ‘ ان سے ابووائل شقیق نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب عورت اپنے گھر کے کھانے کی چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اس کا ارادہ گھر کو بگاڑنے کا نہ ہوتو اسے اس کا ثواب ملے گا اور شوہر کو کمانے کا ثواب ملے گا ‘ اسی طرح خزانچی کو بھی ایسا ہی ثواب ملے گا۔
حدیث حاشیہ:
عورت کا خرچ کرنا اس شرط کے ساتھ ہے کہ اس کی نیت گھر برباد کرنے کی نہ ہو۔ بعض دفعہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خاوند کی اجازت حاصل کرے۔ مگر معمولی کھانے پینے کی چیزوں میں ہر وقت اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں خازن یا خادم کے لیے بغیر اجازت کوئی پیسہ اس طرح خرچ کردینا جائز نہیں ہے۔ جب بیوی اور خادم بایں طور خرچ کریں گے تو اصل مالک یعنی خاوند کے ساتھ وہ بھی ثواب میں شریک ہوں گے۔ اگرچہ ان کے ثواب کی حیثیت الگ الگ ہوگی۔ حدیث کامقصد بھی سب کے ثواب کو برابر قرار دینا نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) said, "When a woman gives in charity from her house meals in Allah's Cause without spoiling her husband's property, she will get a reward for it, and her husband will also get the reward for his earnings and the storekeeper will get a reward likewise."