باب: جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ زکوٰۃ میں ایک برس کی اونٹنی دینا ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Whoever has to pay a one-year-old she-camel as Zakat and has not got it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1453.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے انھیں وہ فرائض زکوٰۃ لکھ کر دیے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا تھا(وہ احکام یہ تھے:) ’’جس کے اونٹ اس تعداد کو پہنچ جائیں کہ ان کی زکوٰۃ چار سالہ اونٹ کابچہ ہو جبکہ اس کے پاس چار سالہ بچہ نہ ہو بلکہ تین سالہ ہوتو اس سے تین سالہ بچہ لے لیا جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں بھی لے لی جائیں گی بشرط یہ کہ آسانی سے میسر ہوں، بصورت دیگر بیس درہم وصول کرلیے جائیں۔ اور جس کے ذمے تین سالہ بچہ ہو لیکن اس کے پاس تین سالہ کے بجائے چار سالہ ہوتو اس سے چار سالہ وصول کرلیاجائے اور صدقہ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے۔ اوراگر زکوٰۃ میں تین سالہ بچہ فرض ہو اور اس کے پاس تین سالہ کے بجائے دو سالہ مادہ بچہ ہوتو وہی قبول کرلیا جائے اور وہ(مال کا مالک) مزید اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں ہیں۔اوراگر زکوٰۃ میں دو سالہ مادہ بچہ واجب ہو اور اس کے پاس تین سالہ بچہ موجود ہوتو صدقہ وصول کرنے والا وہی لے کر بیس درہم یادو بکریاں(مال کو) واپس کردے۔ اگر زکوٰۃ میں دو سالہ بچہ واجب ہو اور اس کے پاس دو سالہ کی بجائے ایک سالہ مادہ بچہ ہوتو وہی قبول کرلیا جائے لیکن وہ(مالک مال) اس کے ہمراہ بیس درہم یادو بکریاں مزید دے۔‘‘
تشریح:
(1) ان کمی بیشی والی صورتوں میں بیس درہم یا دو بکریوں میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا دینے والے کی ذمہ داری ہے، خواہ وہ مالک ہو یا وصول کنندہ۔ لینے والا اپنی مرضی سے کسی ایک کو لینے کا مجاز نہیں۔ اس حدیث کو سمجھنے کے لیے چند ایک اصطلاحات کی وضاحت ضروری ہے۔ ٭ بنت مخاض: ایسی اونٹنی جس کی عمر کا پہلا سال مکمل ہو کر دوسرا شروع ہو چکا ہو اور اس کی ماں حمل کے قابل ہو جائے۔ ٭ ابن لبون: وہ اونٹ جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ ٭ بنت لبون: ایسی اونٹنی جو دو سال پورے کر کے تیسرے سال میں قدم رکھ چکی ہو۔ ٭ حقہ: وہ اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہو۔ ٭ جذعہ: ایسی اونٹنی جو چار سال مکمل کر کے پانچویں سال میں پہنچ چکی ہو۔ (2) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ زکاۃ کے طور پر جو جانور واجب ہو اور وہ میسر ہو تو وہی ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ دستیاب نہ ہو تو اس سے اچھا یا کمتر لیا جا سکتا ہے اور کمی بیشی کو بیس درہم یا دو بکریوں سے پورا کیا جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے کہ اگر بطور زکاۃ یکسالہ اونٹنی (بنت مخاض) دینی ضروری ہو اور وہ اسے دستیاب نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ اس کا مذکورہ حدیث میں کوئی ذکر نہیں جبکہ اس صورت کا بیان ایک دوسری حدیث میں ہوا ہے کہ جس کسی پر صدقے میں یکسالہ اونٹنی فرض ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ اس کے پاس دو سالہ اونٹنی ہو تو وہی قبول کر لی جائے اور صدقہ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے۔ اگر دو سالہ اونٹنی کے بجائے دو سال کا نر اونٹ اس کے پاس ہو تو وہی قبول کر لیا جائے مگر اس صورت میں صدقہ وصول کرنے والا کوئی چیز واپس نہیں کرے گا۔ (حدیث: 1448) (3) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یکسالہ اونٹنی (بنت مخاض) دستیاب نہ ہونے کی صورت کا حل جب ایک حدیث میں واضح طور پر موجود تھا تو امام بخاری نے ایک ایسی حدیث کا انتخاب کیوں کیا جس میں واضح طور پر اس کا ذکر نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری کی بیان کردہ اس حدیث کے مطابق بنت مخاص، بنت لبون، حقہ اور جذعہ کے مابین ایک ایک درجے کا فرق ہے اور ایک درجے کے فرق کو بیس درہم یا دو بکریوں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنت مخاض کی عدم موجودگی میں اگر بنت لبون میسر ہو تو بیس درہم یا دو بکریوں، اگر حقہ دستیاب ہو تو چالیس درہم یا چار بکریوں اور اگر جذعہ موجود ہو تو ساٹھ درہم یا چھ بکریوں سے اس کمی بیشی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس نکتہ آفرینی کی بنا پر امام بخاری نے مذکورہ حدیث کا انتخاب کیا ہے۔ (فتح الباري:399/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1416
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1453
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1453
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1453
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے انھیں وہ فرائض زکوٰۃ لکھ کر دیے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا تھا(وہ احکام یہ تھے:) ’’جس کے اونٹ اس تعداد کو پہنچ جائیں کہ ان کی زکوٰۃ چار سالہ اونٹ کابچہ ہو جبکہ اس کے پاس چار سالہ بچہ نہ ہو بلکہ تین سالہ ہوتو اس سے تین سالہ بچہ لے لیا جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں بھی لے لی جائیں گی بشرط یہ کہ آسانی سے میسر ہوں، بصورت دیگر بیس درہم وصول کرلیے جائیں۔ اور جس کے ذمے تین سالہ بچہ ہو لیکن اس کے پاس تین سالہ کے بجائے چار سالہ ہوتو اس سے چار سالہ وصول کرلیاجائے اور صدقہ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے۔ اوراگر زکوٰۃ میں تین سالہ بچہ فرض ہو اور اس کے پاس تین سالہ کے بجائے دو سالہ مادہ بچہ ہوتو وہی قبول کرلیا جائے اور وہ(مال کا مالک) مزید اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں ہیں۔اوراگر زکوٰۃ میں دو سالہ مادہ بچہ واجب ہو اور اس کے پاس تین سالہ بچہ موجود ہوتو صدقہ وصول کرنے والا وہی لے کر بیس درہم یادو بکریاں(مال کو) واپس کردے۔ اگر زکوٰۃ میں دو سالہ بچہ واجب ہو اور اس کے پاس دو سالہ کی بجائے ایک سالہ مادہ بچہ ہوتو وہی قبول کرلیا جائے لیکن وہ(مالک مال) اس کے ہمراہ بیس درہم یادو بکریاں مزید دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ان کمی بیشی والی صورتوں میں بیس درہم یا دو بکریوں میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا دینے والے کی ذمہ داری ہے، خواہ وہ مالک ہو یا وصول کنندہ۔ لینے والا اپنی مرضی سے کسی ایک کو لینے کا مجاز نہیں۔ اس حدیث کو سمجھنے کے لیے چند ایک اصطلاحات کی وضاحت ضروری ہے۔ ٭ بنت مخاض: ایسی اونٹنی جس کی عمر کا پہلا سال مکمل ہو کر دوسرا شروع ہو چکا ہو اور اس کی ماں حمل کے قابل ہو جائے۔ ٭ ابن لبون: وہ اونٹ جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ ٭ بنت لبون: ایسی اونٹنی جو دو سال پورے کر کے تیسرے سال میں قدم رکھ چکی ہو۔ ٭ حقہ: وہ اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہو۔ ٭ جذعہ: ایسی اونٹنی جو چار سال مکمل کر کے پانچویں سال میں پہنچ چکی ہو۔ (2) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ زکاۃ کے طور پر جو جانور واجب ہو اور وہ میسر ہو تو وہی ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ دستیاب نہ ہو تو اس سے اچھا یا کمتر لیا جا سکتا ہے اور کمی بیشی کو بیس درہم یا دو بکریوں سے پورا کیا جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے کہ اگر بطور زکاۃ یکسالہ اونٹنی (بنت مخاض) دینی ضروری ہو اور وہ اسے دستیاب نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ اس کا مذکورہ حدیث میں کوئی ذکر نہیں جبکہ اس صورت کا بیان ایک دوسری حدیث میں ہوا ہے کہ جس کسی پر صدقے میں یکسالہ اونٹنی فرض ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ اس کے پاس دو سالہ اونٹنی ہو تو وہی قبول کر لی جائے اور صدقہ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے۔ اگر دو سالہ اونٹنی کے بجائے دو سال کا نر اونٹ اس کے پاس ہو تو وہی قبول کر لیا جائے مگر اس صورت میں صدقہ وصول کرنے والا کوئی چیز واپس نہیں کرے گا۔ (حدیث: 1448) (3) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یکسالہ اونٹنی (بنت مخاض) دستیاب نہ ہونے کی صورت کا حل جب ایک حدیث میں واضح طور پر موجود تھا تو امام بخاری نے ایک ایسی حدیث کا انتخاب کیوں کیا جس میں واضح طور پر اس کا ذکر نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری کی بیان کردہ اس حدیث کے مطابق بنت مخاص، بنت لبون، حقہ اور جذعہ کے مابین ایک ایک درجے کا فرق ہے اور ایک درجے کے فرق کو بیس درہم یا دو بکریوں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنت مخاض کی عدم موجودگی میں اگر بنت لبون میسر ہو تو بیس درہم یا دو بکریوں، اگر حقہ دستیاب ہو تو چالیس درہم یا چار بکریوں اور اگر جذعہ موجود ہو تو ساٹھ درہم یا چھ بکریوں سے اس کمی بیشی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس نکتہ آفرینی کی بنا پر امام بخاری نے مذکورہ حدیث کا انتخاب کیا ہے۔ (فتح الباري:399/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس ؓ نے کہ ابوبکر ؓ نے ان کے پاس فرض زکوٰۃ کے ان فریضوں کے متعلق لکھا تھا جن کا اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے۔ یہ کہ جس کے اونٹوں کی زکوٰۃ جذعہ تک پہنچ جائے اور وہ جذعہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ حقہ ہوتو اس سے زکوٰۃ میں حقہ ہی لے لیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ دوبکریاں بھی لی جائیں گی ‘ اگر ان کے دینے میں اسے آسانی ہو ورنہ بیس درہم لیے جائیں گے۔ ( تاکہ حقہ کی کمی پوری ہوجائے ) اور اگر کسی پر زکوٰۃ میں حقہ واجب ہو اور حقہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی لے لیا جائے گا اور زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ دینے والے کو بیس درہم یا دوبکریاں دے گا اور اگر کسی پرزکوٰۃ حقہ کے برابر واجب ہوگئی اور اس کے پاس صرف بنت لبون ہے تو اس سے بنت لبون لے لی جائے گی اور زکوٰۃ دینے والے کو دوبکریاں یا بیس درہم ساتھ میں اور دینے پڑیں گے اور اگر کسی پر زکوٰۃ بنت لبون واجب ہو اور اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے لے لیا جائے گا اور اس صورت میں زکوٰۃ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں زکوٰۃ دینے والے کو دے گا اور کسی کے پاس زکوٰۃ میں بنت لبون واجب ہو ا اور بنت لبون اس کے پاس نہیں بلکہ بنت مخاض ہے تو اس سے بنت مخاض ہی لے لیا جائے گا۔ لیکن زکوٰۃ دینے والا اس کے ساتھ بیس درہم یا دوبکریاں دے گا۔
حدیث حاشیہ:
اونٹ کی زکوٰۃ پانچ راس سے شروع ہوتی ہے‘ اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں پس اس صورت میں چوبیس اونٹوں تک ایک بنت مخاض واجب ہوگی، یعنی وہ اونٹنی جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگ رہی ہو۔ اونٹنی ہو یا اونٹ۔ پھر چھتیس پر بنت لبون یعنی وہ اونٹ جو دوسال کا ہو تیسرے میں چل رہا ہو۔ پھرچھیالیس پر ایک حقہ یعنی وہ اونٹ جو تین سال کا ہوکر چوتھے میں چل رہا ہو۔ پھر اکسٹھ پر جذعہ یعنی وہ اونٹ جو چار سال کا ہوکر پانچویں میں چل رہا ہو۔ حضرت امام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اونٹ کی زکوٰۃ مختلف عمر کے اونٹ جو واجب ہوئے ہیں اگر کسی کے پاس اس عمر کا اونٹ نہ ہو جس کا دینا صدقہ کے طورپر واجب ہوا تھا تو اس سے کم یا زیادہ عمر والا اونٹ بھی لیا جاسکے گا؟ مگر کم دینے کی صورت میں خود اپنی طرف سے اور زیادہ دینے کی صورت میں صدقہ وصول کرنے والے کی طرف سے روپیہ یا کوئی اور چیز اتنی مالیت کی دی جائے گی جس سے اس کمی یا زیادتی کا حق ادا ہوجائے۔ جیسا کہ تفصیلات حدیث مذکورہ میں دی گئی ہیں اور مزید تفصیلات حدیث ذیل میں آرہی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Abu Bakr (RA) , wrote to me about the Zakat which Allah had ordered His Apostle (ﷺ) to observe: Whoever had to pay Jahda (Jahda means a four-year-old she-camel) as Zakat from his herd of camels and he had not got one, and he had Hiqqa (three-year-old she-camel), that Hiqqa should be accepted from him along with two sheep if they were available or twenty Dirhams (one Durham equals about 1/4 Saudi Riyal) and whoever had to pay Hiqqa as Zakat and he had no Hiqqa but had a Jadha, the Jadha should be accepted from him, and the Zakat collector should repay him twenty Dirhams or two sheep; and whoever had to pay Hiqqa as Zakat and he had not got one, but had a Bint Labun (two-year-old she-camel), it should be accepted from him along with two sheep or twenty Dirhams; and whoever had to pay Bint Labun and had a Hiqqa, that Hiqqa should be accepted from him and the Zakat collector should repay him twenty Dirhams or two sheep; and whoever had to pay Bint Labun and he had not got one but had a Bint Makhad (one-year-old she camel), that Bint Makhad should be accepted from him along with twenty Dirhams or two sheep. ________