Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The Zakat of sheep)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1454.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے جب انھیں (زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ) بحرین کی جانب روانہ کیا تویہ دستاویز لکھ کر دی تھی: شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ احکام صدقہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے، لہذا جس مسلمان سے اس تحریر کے مطابق زکوٰۃ کامطالبہ کیا جائے وہ اسے ادا کرے اور جس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جائے وہ اضافہ نہ اداکرے۔ (اس کی تفصیل بایں طور پر ہے کہ) ’’چوبیس اونٹ یا اس سے کم تعداد پر ہر پانچ میں ایک بکری فرض ہے، پچیس سے پینتیس تک یکسالہ مادہ اونٹنی (بنت مخاض) چھتیس سے پینتالیس تک دو سالہ مادہ اونٹنی(بنت لبون) چھیالیس سے ساٹھ تک تین سالہ مادہ اونٹنی (حقہ) جو قابل جفتی ہو۔ اکسٹھ سے پچھتر تک چار سالہ مادہ اونٹنی(جذعہ) چھہتر سے نوے تک دو عدد دو سالہ مادہ اونٹنیاں (بنت لبون) اکانوے سے ایک سو بیس تک دو عدد تین سالہ مادہ اونٹنیاں (حقہ) جو جفتی کے قابل ہوں، اگر اس سے زیادہ ہوں تو ہر چالیس پردو سالہ اونٹنی (بنت لبون) اور ہر پچاس پر تین سالہ اونٹنی (حقہ) ہے۔ اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں، البتہ ان کا مالک اگر چاہے تو زکوٰۃ دےسکتا ہے۔ اگر پانچ اونٹ ہوں تو ان پر ایک بکری واجب ہے بکریوں کی زکوٰۃ کے متعلق یہ ضابطہ ہے کہ جنگل میں چرنے والی بکریاں جب چالیس ہوجائیں تو ایک سو بیس تک ایک بکری دیناہوگی، ایک سو اکیس سے دو سوتک دو بکریاں اور دو سو ایک سے تین سو تک بکریاں دینا ضروری ہیں۔ اگر بکریاں تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری دینا ہو گی اور اگر چالیس سے کم ہوں تو زکوٰۃ نہیں، ہاں!مالک دیناچاہے تو اس کی مرضی ہے۔ چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہے بشر ط یہ کہ دو سو درہم ہوں، اگر ایک سو نوے درہم ہیں توان پر کچھ زکوٰۃ نہیں، ہاں!اگر مالک دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔‘‘
تشریح:
مویشی، یعنی چوپایوں میں زکاۃ فرض ہے جن کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں: ٭ اونٹ۔ ٭ گائے (اس میں بھینس بھی شامل ہے۔) ٭ بکری (اس میں بھیڑ اور دنبہ بھی شامل ہے۔) ان کی زکاۃ کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں: ٭ نصاب: زکاۃ کے لیے حیوانات کا الگ الگ نصاب ہے، چنانچہ اونٹوں کے لیے کم از کم پانچ، گائے اور بھینس کے لیے کم از کم تیس اور بکری، بھیڑ وغیرہ کے لیے کم از کم چالیس کی تعداد مقرر ہے۔ ٭ سال گزرنا: ان پر سال گزر جائے، دوران سال میں جو بچے وغیرہ پیدا ہوں ان پر سال گزرنا ضروری نہیں بلکہ وہ اپنی ماؤں کے تابع ہوں گے۔ ٭ چرنے والی: وہ جنگلات میں چرنے والے ہوں، سال کا اکثر حصہ باہر چرنے میں گزرے، اگر ان کے چارے وغیرہ کا بندوبست محنت و مشقت سے کرنا پڑے تو ایسے جانوروں میں زکاۃ نہیں۔ عصرِ حاضر میں جانوروں کا فارم سسٹم متعارف ہوا ہے جس میں اخراجات کے ساتھ ساتھ افزائش بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ جانور اگرچہ صرف چرنے پر گزارہ نہیں کرتے لیکن ان فارم والے جانوروں کا حکم بھی چرنے والے جانوروں کا ہو گا۔ ٭ اونٹوں اور بیلوں وغیرہ کے لیے یہ ایک اضافی شرط ہے کہ وہ بار برداری اور کاشت کاری کے لیے نہ ہوں۔ بکریوں کے متعلق زکاۃ کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اگر کوئی شخص نصاب سے کم مال ہونے کے باوجود زکاۃ ادا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اونٹوں پر زکاۃ کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1) 1 تا 4 اونٹوں میں کوئی زکاۃ نہیں۔ 2) 5 تا 9 اونٹوں میں ایک بکری۔ 3) 10 تا 14 اونٹوں میں دو بکریاں۔ 4) 15 تا 19 اونٹوں میں تین بکریاں۔ 5) 20 تا 24 اونٹوں میں چار بکریاں۔ 6) 25 تا 35 اونٹوں میں ایک بنت مخاض۔ 7) 36 تا 45 اونٹوں میں ایک بنت لبون۔ 8) 46 تا 60 اونٹوں میں ایک حقہ۔ 9) 61 تا 75 اونٹوں میں ایک جذعہ۔ 10) 76 تا 90 اونٹوں میں دو بنت لبون۔ 11) 91 تا 120 اونٹوں میں دو حقے۔ 120 اونٹوں سے زیادہ کے لیے یہ ضابطہ ہے کہ ہر چالیس کی تعداد پر ایک بنت لبون اور ہر پچاس پر ایک حقہ ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1417
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1454
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1454
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1454
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے جب انھیں (زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ) بحرین کی جانب روانہ کیا تویہ دستاویز لکھ کر دی تھی: شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ احکام صدقہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے، لہذا جس مسلمان سے اس تحریر کے مطابق زکوٰۃ کامطالبہ کیا جائے وہ اسے ادا کرے اور جس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جائے وہ اضافہ نہ اداکرے۔ (اس کی تفصیل بایں طور پر ہے کہ) ’’چوبیس اونٹ یا اس سے کم تعداد پر ہر پانچ میں ایک بکری فرض ہے، پچیس سے پینتیس تک یکسالہ مادہ اونٹنی (بنت مخاض) چھتیس سے پینتالیس تک دو سالہ مادہ اونٹنی(بنت لبون) چھیالیس سے ساٹھ تک تین سالہ مادہ اونٹنی (حقہ) جو قابل جفتی ہو۔ اکسٹھ سے پچھتر تک چار سالہ مادہ اونٹنی(جذعہ) چھہتر سے نوے تک دو عدد دو سالہ مادہ اونٹنیاں (بنت لبون) اکانوے سے ایک سو بیس تک دو عدد تین سالہ مادہ اونٹنیاں (حقہ) جو جفتی کے قابل ہوں، اگر اس سے زیادہ ہوں تو ہر چالیس پردو سالہ اونٹنی (بنت لبون) اور ہر پچاس پر تین سالہ اونٹنی (حقہ) ہے۔ اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں، البتہ ان کا مالک اگر چاہے تو زکوٰۃ دےسکتا ہے۔ اگر پانچ اونٹ ہوں تو ان پر ایک بکری واجب ہے بکریوں کی زکوٰۃ کے متعلق یہ ضابطہ ہے کہ جنگل میں چرنے والی بکریاں جب چالیس ہوجائیں تو ایک سو بیس تک ایک بکری دیناہوگی، ایک سو اکیس سے دو سوتک دو بکریاں اور دو سو ایک سے تین سو تک بکریاں دینا ضروری ہیں۔ اگر بکریاں تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری دینا ہو گی اور اگر چالیس سے کم ہوں تو زکوٰۃ نہیں، ہاں!مالک دیناچاہے تو اس کی مرضی ہے۔ چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہے بشر ط یہ کہ دو سو درہم ہوں، اگر ایک سو نوے درہم ہیں توان پر کچھ زکوٰۃ نہیں، ہاں!اگر مالک دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مویشی، یعنی چوپایوں میں زکاۃ فرض ہے جن کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں: ٭ اونٹ۔ ٭ گائے (اس میں بھینس بھی شامل ہے۔) ٭ بکری (اس میں بھیڑ اور دنبہ بھی شامل ہے۔) ان کی زکاۃ کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں: ٭ نصاب: زکاۃ کے لیے حیوانات کا الگ الگ نصاب ہے، چنانچہ اونٹوں کے لیے کم از کم پانچ، گائے اور بھینس کے لیے کم از کم تیس اور بکری، بھیڑ وغیرہ کے لیے کم از کم چالیس کی تعداد مقرر ہے۔ ٭ سال گزرنا: ان پر سال گزر جائے، دوران سال میں جو بچے وغیرہ پیدا ہوں ان پر سال گزرنا ضروری نہیں بلکہ وہ اپنی ماؤں کے تابع ہوں گے۔ ٭ چرنے والی: وہ جنگلات میں چرنے والے ہوں، سال کا اکثر حصہ باہر چرنے میں گزرے، اگر ان کے چارے وغیرہ کا بندوبست محنت و مشقت سے کرنا پڑے تو ایسے جانوروں میں زکاۃ نہیں۔ عصرِ حاضر میں جانوروں کا فارم سسٹم متعارف ہوا ہے جس میں اخراجات کے ساتھ ساتھ افزائش بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ جانور اگرچہ صرف چرنے پر گزارہ نہیں کرتے لیکن ان فارم والے جانوروں کا حکم بھی چرنے والے جانوروں کا ہو گا۔ ٭ اونٹوں اور بیلوں وغیرہ کے لیے یہ ایک اضافی شرط ہے کہ وہ بار برداری اور کاشت کاری کے لیے نہ ہوں۔ بکریوں کے متعلق زکاۃ کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اگر کوئی شخص نصاب سے کم مال ہونے کے باوجود زکاۃ ادا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اونٹوں پر زکاۃ کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1) 1 تا 4 اونٹوں میں کوئی زکاۃ نہیں۔ 2) 5 تا 9 اونٹوں میں ایک بکری۔ 3) 10 تا 14 اونٹوں میں دو بکریاں۔ 4) 15 تا 19 اونٹوں میں تین بکریاں۔ 5) 20 تا 24 اونٹوں میں چار بکریاں۔ 6) 25 تا 35 اونٹوں میں ایک بنت مخاض۔ 7) 36 تا 45 اونٹوں میں ایک بنت لبون۔ 8) 46 تا 60 اونٹوں میں ایک حقہ۔ 9) 61 تا 75 اونٹوں میں ایک جذعہ۔ 10) 76 تا 90 اونٹوں میں دو بنت لبون۔ 11) 91 تا 120 اونٹوں میں دو حقے۔ 120 اونٹوں سے زیادہ کے لیے یہ ضابطہ ہے کہ ہر چالیس کی تعداد پر ایک بنت لبون اور ہر پچاس پر ایک حقہ ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ انصاری نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ ابوبکر ؓ نے جب انہیں بحرین ( کا حاکم بناکر ) بھیجا تو ان کو یہ پروانہ لکھ دیا۔ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ زکوٰۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا۔ اس لیے جو شخص مسلمانوں سے اس پروانہ کے مطابق زکوٰۃ مانگے تو مسلمانوں کو اسے دے دینا چاہیے اور اگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری دینی ہوگی۔ ( پانچ سے کم میں کچھ نہیں ) لیکن جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پچیس سے پینتیس تک ایک ایک برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو مادہ ہوتی ہے۔ جب اونٹ کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے ( تو چھتیس سے ) پینتالیس تک دو برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے ( تو چھیالیس سے ) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔ جب تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے ( تو اکسٹھ سے ) پچھترتک چار برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھہتر تک پہنچ جائے ( تو چھہتر سے ) نوے تک دو دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ جب تعداد اکیانوے تک پہنچ جائے تو ( اکیانوے سے ) ایک سوبیس تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی جو جفتی کے قابل ہوں۔ پھر ایک سوبیس سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر چالیس پر دو برس کی اونٹنی واجب ہوگی اور ہر پچاس پر ایک تین برس کی۔ اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر جب ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے اور ان بکریوں کی زکوٰۃ جو ( سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان وغیرہ میں ) چرکر گزارتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہو تو ( چالیس سے ) ایک سو بیس تک ایک بکری واجب ہوگی اور جب ایک سوبیس سے تعداد بڑھ جائے ( تو ایک سوبیس سے ) سے دو سوتک دوبکریاں واجب ہوں گی۔ اگر دوسو سے بھی تعداد بڑھ جائے تو ( تو دو سو سے ) تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر ایک سوپر ایک بکری واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اور چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ واجب ہوگی لیکن اگر کسی کے پاس ایک سونوے ( درہم ) سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر خوشی سے کچھ اگر مالک دینا چاہیے تو اور بات ہے۔
حدیث حاشیہ:
زکوٰۃ ان ہی گائے‘ بیل یا اونٹوں یا بکریوں میں واجب ہے جو آدھے برس سے زیادہ جنگل میں چرلیتی ہوں اور اگر آدھے برس سے زیادہ ان کو گھر سے کھلانا پڑتا ہے تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اہلحدیث کے نزدیک سوا ان تین جانوروں یعنی اونٹ‘ گائے‘ بکری کے سوا اور کسی جانور میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ مثلاً گھوڑوں یا خچروں یا گدھوں میں۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): When Abu Bakr; sent me to (collect the Zakat from) Bahrein, he wrote to me the following:-- (In the name of Allah, the Beneficent, the Merciful). These are the orders for compulsory charity (Zakat) which Allah's Apostle (ﷺ) had made obligatory for every Muslim, and which Allah had ordered His Apostle (ﷺ) to observe: Whoever amongst the Muslims is asked to pay Zakat accordingly, he should pay it (to the Zakat collector) and whoever is asked more than that (what is specified in this script) he should not pay it; for twenty-four camels or less, sheep are to be paid as Zakat; for every five camels one sheep is to be paid, and if there are between twenty-five to thirty-five camels, one Bint Makhad is to be paid; and if they are between thirty-six to forty-five (camels), one Bint Labun is to be paid; and if they are between forty-six to sixty (camels), one Hiqqa is to be paid; and if the number is between sixty-one to seventy-five (camels), one Jadh'a is to be paid; and if the number is between seventy-six to ninety (camels), two Bint Labuns are to be paid; and if they are from ninety-one to one-hundred-and twenty (camels), two Hiqqas are to be paid; and if they are over one-hundred and-twenty (camels), for every forty (over one-hundred-and-twenty) one Bint Labun is to be paid, and for every fifty camels (over one-hundred-and-twenty) one Hiqqa is to be paid; and who ever has got only four camels, has to pay nothing as Zakat, but if the owner of these four camels wants to give something, he can. If the number of camels increases to five, the owner has to pay one sheep as Zakat. As regards the Zakat for the (flock) of sheep; if they are between forty and one-hundred-and-twenty sheep, one sheep is to be paid; and if they are between one-hundred-and-twenty to two hundred (sheep), two sheep are to be paid; and if they are between two-hundred to three-hundred (sheep), three sheep are to be paid; and for over three-hundred sheep, for every extra hundred sheep, one sheep is to be paid as Zakat. And if somebody has got less than forty sheep, no Zakat is required, but if he wants to give, he can. For silver the Zakat is one-fortieth of the lot (i.e. 2.5%), and if its value is less than two-hundred Dirhams, Zakat is not required, but if the owner wants to pay he can.' ________