باب: اس زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ لینا ہو گا جس کی سیرابی بارش یا جاری (نہر ‘ دریا وغیرہ) پانی سے ہوئی ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: 'Ushr on the yield of the land irrigated by rain or running water)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عمر بن عبدالعزیز نے شہد میں زکوٰۃ کو ضروری نہیں جانا۔
1483.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جوکھیتی بارش یا چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا وہ زمین جو خود بخود سیراب ہو، اس میں دسواں حصہ لیا جائے۔ اور جو کھیتی کنویں کے پانی سے سینچی جائے اس سے بیسواں حصہ لیا جائے۔‘‘ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ یہ پہلی حدیث کی تفسیر ہے کیونکہ پہلی حدیث، یعنی ابن عمر ؓ سے مروی وہ حدیث کہ ’’جوکھیتی بارش سے سیراب ہو اس میں دسواں حصہ ہے۔‘‘ اس میں نصاب کا تعین نہیں ہے، اور اس حدیث میں نصاب کو بیان کیاگیا ہے۔ اور ثقہ راوی کا اضافہ قبول ہوتا ہے۔ اور مفسر روایت مبہم روایت کا فیصلہ کرتی ہے جبکہ اسے اہل ثبت، یعنی ثقہ راوی بیان کریں جیسا کہ فضل بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی اور حضرت بلال ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے، حضرت بلال ؓ کے بیان کو قبول کرلیا گیا ہے اور حضرت فضل بن عباس ؓ کے قول کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
تشریح:
(1) پہلی حدیث حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ جس زمین کو بارش اور چشموں نے سیراب کیا ہو اس میں دسواں حصہ ہے اور دوسری حدیث ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ پانچ وسق سے کم مقدار پیداوار میں کوئی صدقہ نہیں ہے، جو اس کے بعد بیان ہو گی، اس دوسری حدیث، یعنی حدیث ابو سعید خدری نے پہلی حدیث کی تفسیر کی ہے کہ مطلق طور پر تمام پیداوار سے نہیں بلکہ جب وہ پانچ وسق مقدار ہو گی تو اس سے عشر وصول کیا جائے گا، اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مذکورہ نوٹ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث کے بعد ہے، دراصل یہ دونوں احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہيں، کیونکہ عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث میں نصاب کی تعیین نہیں ہے، اسے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے مقرر کیا جائے گا اور حضرت ابو سعید خدری کی حدیث میں عشر یا نصف عشر کی تفصیل نہیں ہے، اسے عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث سے اخذ کیا جائے گا، چونکہ امام بخاری ؒ نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ اگر کسی روایت میں ابہام ہے تو اسے دوسری روایات سے دور کیا جائے گا اور اگر کسی روایت میں اضافہ ہے تو اسے قبول کیا جائے گا بشرطیکہ اس اضافے کو بیان کرنے والا عادل اور ثقہ راوی ہو جیسا کہ آپ نے حضرت بلال ؓ کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: رسول الله ﷺ نے کعبہ شریف میں نماز پڑھی اور حضرت فضل بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے بیت اللہ کے اندر نماز نہیں پڑھی، چونکہ حضرت بلال ؓ ایک اضافی چیز بیان کرتے ہیں، اس لیے فیصلہ انہی کے بیان پر ہو گا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے اندر نماز ادا کی ہے، اسی طرح پیداوار کے متعلق فیصلہ کن روایت وہ ہے جس میں نصاب کی تعیین ہے، یا جس میں عشر اور نصف عشر کی تفصیل ہے۔ (2) عشر، زمین کی کس قسم کی پیداوار سے کتنا ادا کرنا پڑتا ہے، اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: عشر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾(الانعام141:6)’’فصل کاٹتے ہی اس سے اللہ کا حق ادا کرو۔‘‘ نیز قرآن کریم میں ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ﴾(البقرۃ267:2)’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جنہیں ہم نے تمہارے لے زمین سے پیدا کیا ہے۔‘‘ پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد وہ صدقہ ہے جو اللہ کے نام پر زمین کی پیداوار سے فقراء و مساکین کو دیا جائے، کیونکہ یہ فصل اللہ ہی نے اپنے فضل و کرم سے پیدا کی ہے، اس مقام پر اس ’’حق‘‘ کی مقدار معین نہیں کی گئی بلکہ اس کا تعین خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے: ’’وہ زمین جسے بارش یا قدرتی چشمے کا پانی سیراب کرتا ہو، یا وہ کسی دریا کے کنارے ہونے کی وجہ سے خودبخود سیراب ہو جاتی ہو، اس قسم کی زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ بطور عشر لیا جائے گا اور وہ زمین جسے کنویں وغیرہ سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو، اس کی پیداوار سے نصف العشر، یعنی بیسواں حصہ لیا جائے گا۔‘‘ اس حدیث میں پیداوار دینے والی زمین کی حقیقت اور اس کی پیداوار پر مقدار عشر کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ شریعت نے مقدار عشر کے لیے زمین کی سیرابی، یعنی پیداوار لینے کے لیے پانی کو مدار قرار دیا ہے۔ اگر کھیتی کو سیراب کرنے کے لیے پانی بسہولت دستیاب ہے، اس پر کسی قسم کی محنت یا مشقت نہیں اٹھانی پڑتی تو اس میں پیداوار کا عشر، یعنی دسواں حصہ بطور زکاۃ نکالنا ہو گا۔ اس کے برعکس اگر پانی حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت اُٹھانی پڑتی ہو یا اخراجات برداشت کرنا پڑیں تو اس میں نصف العشر، یعنی بیسواں حصہ ہے۔ (3) ہمارے ہاں عام طور پر زمینوں کی آبپاشی دو طرح سے ہے: ٭ نہر کا پانی: حکومت نے اس کے لیے ایک مستقل محکمہ ’’انہار‘‘ قائم کر رکھا ہے، اس پر زمیندار کو محنت و مشقت کے علاوہ اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ آبیانہ وغیرہ ادا کرنا ہوتا ہے، اس کے باوجود نہری پانی فصلوں کے لیے کافی نہیں ہوتا، اس کے لیے دوسرے ذرائع سے ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ ٭ ٹیوب ویل: اول تو ٹیوب ویل لگانے کے لیے کافی رقم درکار ہوتی ہے، جب اس کی تنصیب مکمل ہو جاتی ہے تو محکمہ واپڈا کا رحم و کرم شروع ہو جاتا ہے، اس کا کنکشن حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اس کے بعد تیسرا مرحلہ جو مسلسل جاری رہتا ہے وہ ماہ بماہ کمر توڑ اور اعصاب شکن بجلی کے بل کی ادائیگی سے یا پھر گھنٹے کے حساب سے پانی خرید کر فصل کو سیراب کیا جاتا ہے، لہذا زمین سے پیداوار لینے کے لیے ذاتی محنت و مشقت اور مالی اخراجات کے پیش نظر ہمارے ہاں پیداوار پر نصف عشر، یعنی بیسواں حصہ بطور زکاۃ دینا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ جتنے بھی اخراجات ہیں ان کا تعلق زمین کی سیرابی یا آبپاشی سے نہیں بلکہ وہ اخراجات زمیندار پیداوار بچانے یا بڑھانے کے لیے کرتا ہے، مثلا: کھاد یا سپرے وغیرہ، پھر زمیندار اپنی محنت و مشقت سے بچنے اور اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اخراجات کرتا ہے، مثلا: بوتے وقت ٹریکٹر کا استعمال، کٹائی کے وقت مزدور لگانا یا فصل اُٹھاتے وقت تھریشر کا استعمال ہوتا ہے۔ (4) مذکورہ حدیث میں مقدار جنس کو بیان نہیں کیا گیا، یعنی کتنے نصاب پر عشر واجب ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے جو آئندہ بیان ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکاۃ، یعنی عشر نہیں ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1484) وسق کی مقدار آئندہ حدیث کے فوائد میں ذکر کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں عام طور پر مہاجرین تاجر اور انصار زراعت پیشہ تھے، وہ لوگ زمین کو خود کاشت کرتے تھے اور خود ہی کاٹتے اور فصل اُٹھاتے تھے، زمین کی سیرابی کے لیے انہیں محنت و مشقت اور اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشر ادا کرنا ضروری تھا، اس کے علاوہ کسی قسم کے اخراجات پیداوار سے ضبط نہیں کیے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں قدرتی وسائل سے سیراب ہونے والی زمینیں بہت کم ہیں جن سے پیداوار کا دسواں حصہ لیا جاتا ہے۔ (5) اب عشر کے متعلق کچھ وضاحتیں پیش خدمت ہیں: ٭ زرعی زکاۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اسی وقت زکاۃ واجب ہو گی جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے: ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾’’فصل کاٹتے وقت ہی اس سے اللہ کا حق ادا کرو۔‘‘(الأنعام141:6) ٭ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گندم، جو، منقی اور کھجور سے زکاۃ لی جاتی تھی مگر ہمارے ہاں اور بھی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں، مثلا: چاول، چنے، جوار، باجرہ اور مکئی وغیرہ، ان سب اجناس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے۔ ٭ ایسی سبزیاں اور ترکاریاں جو جلدی خراب نہیں ہوتی، مثلا: آلو، پیاز، لہسن، ادرک، اور پیٹھا وغیرہ ان پر بھی زرعی زکاۃ، یعنی عشر واجب ہو گا، لیکن جو ترکاریاں تازہ استعمال ہوتی ہیں اور جلدی خراب ہو جاتی ہیں، مثلا: کدو، ٹینڈا، کریلے اور توریاں وغیرہ ان پر زرعی زکاۃ نہیں بلکہ ان کے منافع پر تجارتی زکاۃ لاگو ہو گی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے، اس سے اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ ٭ پھلوں میں بھی زرعی زکاۃ ہے بشرطیکہ انہیں دیر تک استعمال کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منقی اور کھجور سے عشر ادا کیا جاتا تھا لیکن ہمارے ہاں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے خشک پھل ہیں، مثلا: اخروٹ، بادام، خوبانی اور مونگ پھلی وغیرہ، اگر اس قسم کے پھل حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زرعی زکاۃ واجب ہو گی۔ ٭ کپاس بھی زمینی پیداوار ہے اور ہمارے ملک میں خاصی منفعت بخش فصل ہے، لہذا اس سے بھی عشر ادا کرنا ہو گا، یعنی بیس من میں سے ایک من بطور عشر ادا کیا جائے۔ اگر کوئی کاشتکار تجارت پیشہ بھی ہے تو اسے چاہیے کہ اگر کپاس کی پیداوار حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے پہلے عشر ادا کرے اور پھر اگر اسے تجارت میں فروخت کر دیتا ہے تو اس کی رقم اگر حد نصاب کو پہنچ جائے تو تجارتی زکاۃ بھی ادا کرے، یعنی کھیتی کا حساب الگ ہو گا اور تجارتی مال کی زکاۃ کا حساب الگ ہو گا، تجارتی مال کی رقم کسی مد میں بھی آئے اس پر زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ ٭ ہمارے بعض علاقوں میں گنا بھی کاشت کیا جاتا ہے۔ اگر اسے ملوں میں فروخت کر دیا جائے تو اس سے تجارتی زکاۃ دینا ہو گی اور اگر اسے بطور چارہ حیوانات کو کھلا دیا جائے تو قابل معافی ہے۔ اگر اس کماد سے گڑ، شکر یا چینی بنائی جائے تو اس سے عشر دینا ہو گا بشرطیکہ حد نصاب کو پہنچ جائے۔ ٭ اگر کسی نے اپنی زمین کسی دوسرے کو عاریتا بطور کاشت دی ہے تو اس صورت میں جس نے فصل اٹھائی ہے وہی اس کا عشر ادا کرے گا، مالک زمین کے ذمے اس کی ادائیگی نہیں کیونکہ اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگر زمین کے مالک نے کسی دوسرے کو طے شدہ حصے پر کاشت کرنے کے لیے دی ہے تو اس صورت میں دو موقف ہیں: (ا) ہر ایک کا حصہ اگر حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے عشر دینا ہو گا، اگر کسی کا بھی حصہ حد نصاب کو نہیں پہنچتا تو کسی پر بھی عشر واجب نہیں، یعنی جس شخص کا حصہ نصاب کو پہنچ جائے اسے اپنے حصے سے عشر دینا ہو گا۔ (ب) امام شافعی اور امام احمد ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر مجموعی پیداوار حد نصاب کو پہنچ جائے تو ہر ایک اپنے حصے کے مطابق عشر ادا کرے، پھر دونوں طے شدہ حصوں کے مطابق پیداوار کو تقسیم کر لیں۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا موقف زیادہ وزنی ہے، نیز اس میں غرباء اور مساکین کا بھی فائدہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1444
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1483
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1483
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1483
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (الموطاللامام مالک:1/183،طبع دارالکتاب العربی) مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت نافع کو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یمن کا گورنر بنا کر تعینات کیا، انہوں نے وہاں شہد سے عشر لینے کا ارادہ کیا تو انہیں مغیرہ بن حکیم نے روک دیا اور کہا کہ شہد میں عشر نہیں، انہوں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خط لکھا تو آپ نے جواب دیا کہ مغیرہ بن حکیم نے صحیح کہا ہے، شہد میں عشر وغیرہ نہیں ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ،الزکاۃ:3/130) امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک شہد میں عشر نہیں اور اس موقف کی تائید میں انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا اثر پیش کیا ہے، لیکن کتاب و سنت سے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد میں عشر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتے ہیں کہ آپ نے شہد سے دسواں حصہ وصول کیا۔ (سنن ابن ماجہ،الزکاۃ،حدیث:1824) حضرت ابو سیارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس شہد کی مکھیاں ہیں تو آپ نے فرمایا کہ اس سے دسواں حصہ ادا کرو۔ (سنن ابن ماجہ،الزکاۃ،حدیث:1823) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کے متعلق فرمایا: اس کے ہر دس مشکیزوں میں ایک مشکیزہ زکاۃ ہے۔ (جامع الترمذی،الزکاۃ،حدیث:629) علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شہد کی زکاۃ کے متعلق متعدد احادیث مروی ہیں اور ان میں بہترین حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے مروی ہے۔ (تمام المنۃ ،حدیث:354) چونکہ شہد کی مکھیاں زمینی پیداوار سے شہد حاصل کرتی ہیں، اس لیے درج ذیل آیت کے عموم کے پیش نظر شہد میں عشر ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ) (البقرۃ267:2) "اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جنہیں ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے۔" لہذا مذکورہ احادیث کے پیش نظر شہد سے عشر ادا کرنا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عشر کے باب میں شہد کا ذکر اس لیے کر دیا ہے کہ حدیث کے پیش نظر عشر اس پیداوار سے لیا جاتا ہے جو پانی سے سیراب ہوتی ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پانی سے سیراب نہ ہو اس میں عشر نہیں، اس لیے شہد میں بھی عشر نہیں ہے۔ (فتح الباری:3/439) لیکن شہد میں عشر نہ ہونے کے متعلق مذکورہ دلیل اتنی قوی نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک اس اثر کا عنوان سے تعلق بایں طور ہے کہ شہد میں پانی کی طرح بہنے کی صفت ہے اور اس کی طبع میں اوپر سے نیچے گرنا ہے، اس اعتبار سے یہ پانی سے مناسبت رکھتا ہے، چونکہ عنوان میں پانی کے ذریعے پیداوار کا بیان تھا، اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے شہد کے متعلق اپنا موقف بیان کیا ہے جس سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت سفیان بن وہب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ اگر وہ شہد سے عشر ادا کرے جیسا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ادا کرتا تھا تو اس کے علاقے کی حفاظت کی جائے گی، بصورت دیگر یہ مکھیاں بارش کے پانی سے شہد پیدا کرتی ہیں اسے جو چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ (سنن ابی داؤد،الزکاۃ،حدیث:1600)
اور عمر بن عبدالعزیز نے شہد میں زکوٰۃ کو ضروری نہیں جانا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جوکھیتی بارش یا چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا وہ زمین جو خود بخود سیراب ہو، اس میں دسواں حصہ لیا جائے۔ اور جو کھیتی کنویں کے پانی سے سینچی جائے اس سے بیسواں حصہ لیا جائے۔‘‘ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ یہ پہلی حدیث کی تفسیر ہے کیونکہ پہلی حدیث، یعنی ابن عمر ؓ سے مروی وہ حدیث کہ ’’جوکھیتی بارش سے سیراب ہو اس میں دسواں حصہ ہے۔‘‘ اس میں نصاب کا تعین نہیں ہے، اور اس حدیث میں نصاب کو بیان کیاگیا ہے۔ اور ثقہ راوی کا اضافہ قبول ہوتا ہے۔ اور مفسر روایت مبہم روایت کا فیصلہ کرتی ہے جبکہ اسے اہل ثبت، یعنی ثقہ راوی بیان کریں جیسا کہ فضل بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی اور حضرت بلال ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے، حضرت بلال ؓ کے بیان کو قبول کرلیا گیا ہے اور حضرت فضل بن عباس ؓ کے قول کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) پہلی حدیث حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ جس زمین کو بارش اور چشموں نے سیراب کیا ہو اس میں دسواں حصہ ہے اور دوسری حدیث ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ پانچ وسق سے کم مقدار پیداوار میں کوئی صدقہ نہیں ہے، جو اس کے بعد بیان ہو گی، اس دوسری حدیث، یعنی حدیث ابو سعید خدری نے پہلی حدیث کی تفسیر کی ہے کہ مطلق طور پر تمام پیداوار سے نہیں بلکہ جب وہ پانچ وسق مقدار ہو گی تو اس سے عشر وصول کیا جائے گا، اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مذکورہ نوٹ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث کے بعد ہے، دراصل یہ دونوں احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہيں، کیونکہ عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث میں نصاب کی تعیین نہیں ہے، اسے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے مقرر کیا جائے گا اور حضرت ابو سعید خدری کی حدیث میں عشر یا نصف عشر کی تفصیل نہیں ہے، اسے عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث سے اخذ کیا جائے گا، چونکہ امام بخاری ؒ نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ اگر کسی روایت میں ابہام ہے تو اسے دوسری روایات سے دور کیا جائے گا اور اگر کسی روایت میں اضافہ ہے تو اسے قبول کیا جائے گا بشرطیکہ اس اضافے کو بیان کرنے والا عادل اور ثقہ راوی ہو جیسا کہ آپ نے حضرت بلال ؓ کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: رسول الله ﷺ نے کعبہ شریف میں نماز پڑھی اور حضرت فضل بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے بیت اللہ کے اندر نماز نہیں پڑھی، چونکہ حضرت بلال ؓ ایک اضافی چیز بیان کرتے ہیں، اس لیے فیصلہ انہی کے بیان پر ہو گا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے اندر نماز ادا کی ہے، اسی طرح پیداوار کے متعلق فیصلہ کن روایت وہ ہے جس میں نصاب کی تعیین ہے، یا جس میں عشر اور نصف عشر کی تفصیل ہے۔ (2) عشر، زمین کی کس قسم کی پیداوار سے کتنا ادا کرنا پڑتا ہے، اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: عشر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾(الانعام141:6)’’فصل کاٹتے ہی اس سے اللہ کا حق ادا کرو۔‘‘ نیز قرآن کریم میں ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ﴾(البقرۃ267:2)’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جنہیں ہم نے تمہارے لے زمین سے پیدا کیا ہے۔‘‘ پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد وہ صدقہ ہے جو اللہ کے نام پر زمین کی پیداوار سے فقراء و مساکین کو دیا جائے، کیونکہ یہ فصل اللہ ہی نے اپنے فضل و کرم سے پیدا کی ہے، اس مقام پر اس ’’حق‘‘ کی مقدار معین نہیں کی گئی بلکہ اس کا تعین خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے: ’’وہ زمین جسے بارش یا قدرتی چشمے کا پانی سیراب کرتا ہو، یا وہ کسی دریا کے کنارے ہونے کی وجہ سے خودبخود سیراب ہو جاتی ہو، اس قسم کی زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ بطور عشر لیا جائے گا اور وہ زمین جسے کنویں وغیرہ سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو، اس کی پیداوار سے نصف العشر، یعنی بیسواں حصہ لیا جائے گا۔‘‘ اس حدیث میں پیداوار دینے والی زمین کی حقیقت اور اس کی پیداوار پر مقدار عشر کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ شریعت نے مقدار عشر کے لیے زمین کی سیرابی، یعنی پیداوار لینے کے لیے پانی کو مدار قرار دیا ہے۔ اگر کھیتی کو سیراب کرنے کے لیے پانی بسہولت دستیاب ہے، اس پر کسی قسم کی محنت یا مشقت نہیں اٹھانی پڑتی تو اس میں پیداوار کا عشر، یعنی دسواں حصہ بطور زکاۃ نکالنا ہو گا۔ اس کے برعکس اگر پانی حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت اُٹھانی پڑتی ہو یا اخراجات برداشت کرنا پڑیں تو اس میں نصف العشر، یعنی بیسواں حصہ ہے۔ (3) ہمارے ہاں عام طور پر زمینوں کی آبپاشی دو طرح سے ہے: ٭ نہر کا پانی: حکومت نے اس کے لیے ایک مستقل محکمہ ’’انہار‘‘ قائم کر رکھا ہے، اس پر زمیندار کو محنت و مشقت کے علاوہ اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ آبیانہ وغیرہ ادا کرنا ہوتا ہے، اس کے باوجود نہری پانی فصلوں کے لیے کافی نہیں ہوتا، اس کے لیے دوسرے ذرائع سے ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ ٭ ٹیوب ویل: اول تو ٹیوب ویل لگانے کے لیے کافی رقم درکار ہوتی ہے، جب اس کی تنصیب مکمل ہو جاتی ہے تو محکمہ واپڈا کا رحم و کرم شروع ہو جاتا ہے، اس کا کنکشن حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اس کے بعد تیسرا مرحلہ جو مسلسل جاری رہتا ہے وہ ماہ بماہ کمر توڑ اور اعصاب شکن بجلی کے بل کی ادائیگی سے یا پھر گھنٹے کے حساب سے پانی خرید کر فصل کو سیراب کیا جاتا ہے، لہذا زمین سے پیداوار لینے کے لیے ذاتی محنت و مشقت اور مالی اخراجات کے پیش نظر ہمارے ہاں پیداوار پر نصف عشر، یعنی بیسواں حصہ بطور زکاۃ دینا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ جتنے بھی اخراجات ہیں ان کا تعلق زمین کی سیرابی یا آبپاشی سے نہیں بلکہ وہ اخراجات زمیندار پیداوار بچانے یا بڑھانے کے لیے کرتا ہے، مثلا: کھاد یا سپرے وغیرہ، پھر زمیندار اپنی محنت و مشقت سے بچنے اور اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اخراجات کرتا ہے، مثلا: بوتے وقت ٹریکٹر کا استعمال، کٹائی کے وقت مزدور لگانا یا فصل اُٹھاتے وقت تھریشر کا استعمال ہوتا ہے۔ (4) مذکورہ حدیث میں مقدار جنس کو بیان نہیں کیا گیا، یعنی کتنے نصاب پر عشر واجب ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے جو آئندہ بیان ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکاۃ، یعنی عشر نہیں ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1484) وسق کی مقدار آئندہ حدیث کے فوائد میں ذکر کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں عام طور پر مہاجرین تاجر اور انصار زراعت پیشہ تھے، وہ لوگ زمین کو خود کاشت کرتے تھے اور خود ہی کاٹتے اور فصل اُٹھاتے تھے، زمین کی سیرابی کے لیے انہیں محنت و مشقت اور اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشر ادا کرنا ضروری تھا، اس کے علاوہ کسی قسم کے اخراجات پیداوار سے ضبط نہیں کیے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں قدرتی وسائل سے سیراب ہونے والی زمینیں بہت کم ہیں جن سے پیداوار کا دسواں حصہ لیا جاتا ہے۔ (5) اب عشر کے متعلق کچھ وضاحتیں پیش خدمت ہیں: ٭ زرعی زکاۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اسی وقت زکاۃ واجب ہو گی جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے: ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾’’فصل کاٹتے وقت ہی اس سے اللہ کا حق ادا کرو۔‘‘(الأنعام141:6) ٭ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گندم، جو، منقی اور کھجور سے زکاۃ لی جاتی تھی مگر ہمارے ہاں اور بھی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں، مثلا: چاول، چنے، جوار، باجرہ اور مکئی وغیرہ، ان سب اجناس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے۔ ٭ ایسی سبزیاں اور ترکاریاں جو جلدی خراب نہیں ہوتی، مثلا: آلو، پیاز، لہسن، ادرک، اور پیٹھا وغیرہ ان پر بھی زرعی زکاۃ، یعنی عشر واجب ہو گا، لیکن جو ترکاریاں تازہ استعمال ہوتی ہیں اور جلدی خراب ہو جاتی ہیں، مثلا: کدو، ٹینڈا، کریلے اور توریاں وغیرہ ان پر زرعی زکاۃ نہیں بلکہ ان کے منافع پر تجارتی زکاۃ لاگو ہو گی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے، اس سے اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ ٭ پھلوں میں بھی زرعی زکاۃ ہے بشرطیکہ انہیں دیر تک استعمال کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منقی اور کھجور سے عشر ادا کیا جاتا تھا لیکن ہمارے ہاں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے خشک پھل ہیں، مثلا: اخروٹ، بادام، خوبانی اور مونگ پھلی وغیرہ، اگر اس قسم کے پھل حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زرعی زکاۃ واجب ہو گی۔ ٭ کپاس بھی زمینی پیداوار ہے اور ہمارے ملک میں خاصی منفعت بخش فصل ہے، لہذا اس سے بھی عشر ادا کرنا ہو گا، یعنی بیس من میں سے ایک من بطور عشر ادا کیا جائے۔ اگر کوئی کاشتکار تجارت پیشہ بھی ہے تو اسے چاہیے کہ اگر کپاس کی پیداوار حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے پہلے عشر ادا کرے اور پھر اگر اسے تجارت میں فروخت کر دیتا ہے تو اس کی رقم اگر حد نصاب کو پہنچ جائے تو تجارتی زکاۃ بھی ادا کرے، یعنی کھیتی کا حساب الگ ہو گا اور تجارتی مال کی زکاۃ کا حساب الگ ہو گا، تجارتی مال کی رقم کسی مد میں بھی آئے اس پر زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ ٭ ہمارے بعض علاقوں میں گنا بھی کاشت کیا جاتا ہے۔ اگر اسے ملوں میں فروخت کر دیا جائے تو اس سے تجارتی زکاۃ دینا ہو گی اور اگر اسے بطور چارہ حیوانات کو کھلا دیا جائے تو قابل معافی ہے۔ اگر اس کماد سے گڑ، شکر یا چینی بنائی جائے تو اس سے عشر دینا ہو گا بشرطیکہ حد نصاب کو پہنچ جائے۔ ٭ اگر کسی نے اپنی زمین کسی دوسرے کو عاریتا بطور کاشت دی ہے تو اس صورت میں جس نے فصل اٹھائی ہے وہی اس کا عشر ادا کرے گا، مالک زمین کے ذمے اس کی ادائیگی نہیں کیونکہ اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگر زمین کے مالک نے کسی دوسرے کو طے شدہ حصے پر کاشت کرنے کے لیے دی ہے تو اس صورت میں دو موقف ہیں: (ا) ہر ایک کا حصہ اگر حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے عشر دینا ہو گا، اگر کسی کا بھی حصہ حد نصاب کو نہیں پہنچتا تو کسی پر بھی عشر واجب نہیں، یعنی جس شخص کا حصہ نصاب کو پہنچ جائے اسے اپنے حصے سے عشر دینا ہو گا۔ (ب) امام شافعی اور امام احمد ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر مجموعی پیداوار حد نصاب کو پہنچ جائے تو ہر ایک اپنے حصے کے مطابق عشر ادا کرے، پھر دونوں طے شدہ حصوں کے مطابق پیداوار کو تقسیم کر لیں۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا موقف زیادہ وزنی ہے، نیز اس میں غرباء اور مساکین کا بھی فائدہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر بن عبدالعزیز شہد میں عشر کے قائل نہیں تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے خبر دی ‘ انہیں شہاب نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے ‘ انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ وہ زمین جسے آسمان ( بارش کا پانی ) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خود بخود نمی سے سیراب ہوجاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ؓ ) نے کہا کہ یہ حدیث یعنی عبداللہ بن عمر کی حدیث کہ جس کھیتی میں آسمان کا پانی دیا جائے ‘ دسواں حصہ ہے پہلی حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث کی تفسیر ہے۔ اس میں زکوٰۃ کی کوئی مقدار مذکور نہیں ہے اور اس میں مذکور ہے۔ اور زیادتی قبول کی جاتی ہے۔ اور گول مول حدیث کا حکم صاف صاف حدیث کے موافق لیا جاتا ہے۔ جب اس کا راوی ثقہ ہو۔ جیسے فضل بن عباس ؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی۔ لیکن بلال ؓ نے بتلایا کہ آپ نے نماز (کعبہ میں) پڑھی تھی۔ اس موقع پر بھی بلال ؓ کی بات قبول کی گئی اور فضل ؓ کا قول چھوڑ دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
اصول حدیث میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ثقہ اور ضابط شخص کی زیادتی مقبول ہے۔ اسی بناپر ابوسعید ؓ کی حدیث ہے جس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ زکوٰۃ میں مال کا کون سا حصہ لیا جائے گا یعنی دسواں حصہ یا بیسواں حصہ اس حدیث یعنی ابن عمر کی حدیث میں زیادتی ہے تو یہ زیادتی واجب القبول ہوگی۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے یہ حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث پہلی حدیث یعنی ابن عمر ؓ کی حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔ کیونکہ ابن عمر ؓ کی حدیث میں نصاب کی مقدار مذکور نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک پیداوار سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ لیے جانے کا اس میں ذکر ہے۔ خواہ پانچ وسق ہو یا اس سے کم ہو۔ اور ابوسعید ؓ کی حدیث میں تفصیل ہے کہ پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ تو یہ زیادتی ہے۔ اور زیادتی ثقہ اور معتبر راوی کی مقبول ہے۔ ( وحیدالزماں مرحوم )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim bin 'Abdullah from his father (RA): The Prophet (ﷺ) said, "On a land irrigated by rain water or by natural water channels or if the land is wet due to a near by water channel Ushr (i.e. one-tenth) is compulsory (as Zakat); and on the land irrigated by the well, half of an Ushr (i.e. one-twentieth) is compulsory (as Zakat on the yield of the land)." ________